Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
تِلۡكَ اُمَّةٌ قَدۡ خَلَتۡ‌ۚ لَهَا مَا كَسَبَتۡ وَلَـكُمۡ مَّا كَسَبۡتُمۡ‌ۚ وَلَا تُسۡـَٔـلُوۡنَ عَمَّا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿134﴾
یہ جماعت تو گزر چکی جو انہوں نے کیا وہ ان کے لئے ہے اور جو تم کرو گے تمہارے لئے ہے ۔ ان کے اعمال کے بارے میں تم نہیں پوچھے جاؤ گے ۔
تلك امة قد خلت لها ما كسبت و لكم ما كسبتم و لا تسلون عما كانوا يعملون
That was a nation which has passed on. It will have [the consequence of] what it earned, and you will have what you have earned. And you will not be asked about what they used to do.
Yeh jamat to guzar chuki jo unhon ney kaha woh unn kay liye hai aur jo tum kero gay woh tumharay liye hai. Unn kay aemaal kay baray mein tum nahi poochay jao gay.
وہ ایک امت تھی جو گذر گئی ، جو کچھ انہوں نے کمایا وہ ان کا ہے اور جو کچھ تم نے کمایا وہ تمہارا ہے ، اور تم سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ کیا عمل کرتے تھے ۔
یہ ( ف۲٤۳ ) ایک امت ہے کہ گزر چکی ( ف۲٤٤ ) ان کے لیے ہے جو انہوں نے کمایا اور تمہارے لئے ہے جو تم کماؤ اور ان کے کاموں کی تم سے پرسش نہ ہوگی ۔
وہ کچھ لوگ تھے ، جو گزر گئے ۔ جو کچھ انھوں نے کمایا ۔ وہ ان کے لیے ہے اور جو کچھ تم کماؤ گے ، وہ تمہارے لیے ہے ۔ تم سے یہ نہ پوچھا جائے گا کہ وہ کیا کرتے تھے ۔ 134
وہ ایک امت تھی جو گزر چکی ، ان کے لئے وہی کچھ ہوگا جو انہوں نے کمایا اور تمہارے لئے وہ ہوگا جو تم کماؤ گے اور تم سے ان کے اعمال کی باز پُرس نہ کی جائے گی
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :134 یعنی اگرچہ تم ان کی اولاد سہی ، مگر حقیقت میں تمہیں ان سے کوئی واسطہ نہیں ۔ ان کا نام لینے کا تمہیں کیا حق ہے جبکہ تم ان کے طریقے سے پھر گئے ۔ اللہ کے ہاں تم سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ تمہارے باپ دادا کیا کرتے تھے ، بلکہ یہ پوچھا جائے گا کہ تم خود کیا کرتے رہے ۔ اور یہ جو فرمایا کہ ”جو کچھ انہوں نے کمایا ، وہ ان کے لیے ہے اور جو کچھ تم کماؤ گے ، وہ تمہارے لیے ہے ، “ یہ قرآن کا خاص اندازِ بیان ہے ۔ ہم جس چیز کو فعل یا عمل کہتے ہیں ، قرآن اپنی زبان میں اسے کسب یا کمائی کہتا ہے ۔ ہمارا ہر عمل اپنا ایک اچھا یا بُرا نتیجہ رکھتا ہے ، جو خدا کی خوشنودی یا ناراضِ کی صورت میں ظاہر ہو گا ۔ وہی نتیجہ ہماری کمائی ہے ۔ چونکہ قرآن کی نگاہ میں اصل اہمیّت اسی نتیجے کی ہے ، اس لیے اکثر وہ ہمارے کاموں کو عمل وفعل کے الفاظ سے تعبیر کرنے کے بجائے ”کسب“ کے لفظ سے تعبیر کرتا ہے ۔