Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
وَقَالُوۡا کُوۡنُوۡا هُوۡدًا اَوۡ نَصٰرٰى تَهۡتَدُوۡا ‌ؕ قُلۡ بَلۡ مِلَّةَ اِبۡرٰهٖمَ حَنِيۡفًا ‌ؕ وَمَا كَانَ مِنَ الۡمُشۡرِكِيۡنَ‏ ﴿135﴾
یہ کہتے ہیں کہ یہود و نصاریٰ بن جاؤ تو ہدایت پاؤ گے ۔ تم کہو بلکہ صحیح راہ پر ملت ابراہیمی والے ہیں ، اور ابراہیم خالص اللہ کے پرستار تھے اور مُشرک نہ تھے ۔
و قالوا كونوا هودا او نصرى تهتدوا قل بل ملة ابرهم حنيفا و ما كان من المشركين
They say, "Be Jews or Christians [so] you will be guided." Say, "Rather, [we follow] the religion of Abraham, inclining toward truth, and he was not of the polytheists."
Yeh kehtay hain kay yahud-o-nasaaraa bann jao to hidayat pao gay. Tum kaho bulkay sahih raah per millat-e-ibrahimi walay hain aur ibrahim khalis Allah kay paristaar thay aur mushrik na thay.
اور یہ ( یہودی اور عیسائی مسلمانوں سے ) کہتے ہیں کہ : تم یہودی یا عیسائی ہوجاؤ راہ راست پر آجاؤ گے ۔ کہہ دو کہ : نہیں بلکہ ( ہم تو ) ابراہیم کے دین کی پیروی کریں گے جو ٹھیک ٹھیک سیدھی راہ پر تھے ، اور وہ ان لوگوں میں سے نہ تھے جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتے ہیں ۔
اور کتابی بولے ( ف۲٤۵ ) یہودی یا نصرانی ہوجاؤ راہ پاؤ گے تم فرماؤ بلکہ ہم تو ابراہیم کا دین لیتے ہیں جو ہر باطل سے جدا تھے اور مشرکوں سے نہ تھے ۔ ( ف۲٤٦ )
یہودی کہتے ہیں: یہودی ہو تو راہ راست پاؤ گے ۔ عیسائی کہتے ہیں : عیسائی ہو ، تو ہدایت ملے گی ۔ ان سے کہو: ’’ نہیں ، بلکہ سب کو چھوڑ کر ابراہیم ؑ کا طریقہ ۔ اور ابراہیم ؑ مشرکوں میں سے نہ تھا‘‘ ۔ 135
اور ( اہلِ کتاب ) کہتے ہیں: یہودی یا نصرانی ہو جاؤ ہدایت پا جاؤ گے ، آپ فرما دیں کہ ( نہیں ) بلکہ ہم تو ( اس ) ابراہیم ( علیہ السلام ) کا دین اختیار کیے ہوئے ہیں جو ہر باطل سے جدا صرف اللہ کی طرف متوجہ تھے ، اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :135 اس جواب کی لطافت سمجھنے کے لیے دو باتیں نگاہ میں رکھیے: ایک یہ کہ یہُودیّت اور عیسائیت دونوں بعد کی پیداوار ہیں ۔ ”یہُودیّت“ اپنے اس نام اور اپنی مذہبی خصُوصیات اور رسُوم و قواعد کے ساتھ تیسری چوتھی صدی قبل مسیح میں پیدا ہوئی ۔ اور ”عیسائیت “ جن عقائد اور مخصُوص مذہبی تصوّرات کے مجمُوعے کا نام ہے وہ تو حضرت مسیح ؑ کے بھی ایک مُدت بعد وجود میں آئے ہیں ۔ اب یہ سوال خود بخود پیداہوتا ہے کہ اگر آدمی کے برسرِ ہدایت ہونے کا مدار یہُودیّت یا عیسائیت اختیار کرنے ہی پر ہے ، تو حضرت ابراہیم ؑ اور دُوسرے انبیا اور نیک لوگ ، جو ان مذہبوں کی پیدائش سے صدیوں پہلے پیدا ہوئے تھے اور جن کو خود یہُودی اور عیسائی بھی ہدایت یافتہ مانتے ہیں ، وہ آخر کس چیز سے ہدایت پاتے تھے؟ ظاہر ہے کہ وہ ”یہُودیّت“ اور ”عیسائیت“ نہ تھی ۔ لہٰذا یہ بات آپ سے آپ واضح ہو گئی کہ انسان کے ہدایت یافتہ ہونے کا مدار ان مذہبی خصُوصیّات پر نہیں ہے ، جن کی وجہ سے یہ یہُودی اور عیسائی وغیرہ مختلف فرقے بنے ہیں ، بلکہ دراصل اس کا مدار اس عالمگیر صراطِ مستقیم کے اختیار کرنے پر ہے ، جس سے ہر زمانے میں انسان ہدایت پاتے رہے ہیں ۔ دُوسرے یہ کہ خود یہُود و نصاریٰ کی اپنی مقدس کتابیں اس بات پر گواہ ہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ ایک اللہ کے سوا کسی دُوسرے کی پرستش ، تقدیس ، بندگی اور اطاعت کے قائل نہ تھے اور ان کا مشن ہی یہ تھا کہ خدائی کی صفات و خصُوصیات میں اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ ٹھیرایا جائے ۔ لہٰذا یہ بالکل ظاہر ہے کہ یہُودیت اور نصرانیت دونوں اس راہِ راست سے منحرف ہوگئی ہیں ، جس پر حضرت ابراہیم ؑ چلتے تھے ، کیونکہ ان دونوں میں شرک کی آمیزش ہو گئی ہے ۔
عبد اللہ بن صوریا اعور نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ ہدایت پر ہم ہیں تم ہماری مانو تو تمہیں بھی ہدایت ملے گی ۔ نصرانیوں نے بھی یہی کہا تھا ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ ہم تو ابراہیم حنیف علیہ السلام کے متبع ہیں جو استقامت والے ، اخلاص والے ، حج والے ، بیت اللہ کی طرف منہ کرنے والے ، استطاعت کے وقت حج کو فرض جاننے والے ، اللہ کی فرمانبرداری کرنے والے ، تمام رسولوں پر ایمان لانے والے لا الہ الا اللہ کی شہادت دینے والے ، ماں بیٹی خالہ پھوپھی کو حرام جاننے والے اور تمام حرام کاریوں سے بچنے والے تھے ۔ حنیف کے یہ سب معنی مختلف حضرات نے بیان کئے ہیں ۔