Surah

Information

Surah # 10 | Verses: 109 | Ruku: 11 | Sajdah: 0 | Chronological # 51 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 40, 94, 95, 96, from Madina
قُلۡ اَرَءَيۡتُمۡ مَّاۤ اَنۡزَلَ اللّٰهُ لَـكُمۡ مِّنۡ رِّزۡقٍ فَجَعَلۡتُمۡ مِّنۡهُ حَرَامًا وَّحَلٰلًا ؕ قُلۡ آٰللّٰهُ اَذِنَ لَـكُمۡ‌ اَمۡ عَلَى اللّٰهِ تَفۡتَرُوۡنَ‏ ﴿59﴾
آپ کہیے کہ یہ تو بتاؤ کہ اللہ نے تمہارے لئے جو کچھ رزق بھیجا تھا پھر تم نے اس کا کچھ حصہ حرام اور کچھ حلال قرار دے لیا آپ پوچھئے کہ کیا تم کو اللہ نے حکم دیا تھا یا اللہ پر افترا ہی کرتے ہو؟
قل ارءيتم ما انزل الله لكم من رزق فجعلتم منه حراما و حللا قل الله اذن لكم ام على الله تفترون
Say, "Have you seen what Allah has sent down to you of provision of which you have made [some] lawful and [some] unlawful?" Say, "Has Allah permitted you [to do so], or do you invent [something] about Allah ?"
Aap kahiye kay yeh to batao kay Allah ney tumharay liye jo kuch rizq bheja tha phri tum ney uss ka kuch hissa haram aur kuch halal qarar dey liya. Aap poochiye kay kiya tum ko Allah ney hukum diya tha ya Allah per iftra hi kertay ho?
کہو کہ : بھلا بتاؤ اللہ نے تمہارے لیے جو رزق نازل کیا تھا ، تم نے اپنی طرف سے اس میں سے کسی کو حرام اور کسی کو حلال قرار دے دیا ، ( ٢٦ ) ان سے پوچھو کہ : کیا اللہ نے تمہیں اس کی اجازت دی تھی یا تم اللہ پر جھوٹا بہتان باندھتے ہو؟
تم فرماؤ بھلا بتاؤ تو وہ جو اللہ نے تمہارے لیے رزق اتارا اس میں تم نے اپنی طرف سے حرام و حلال ٹھہرالیا ( ف۱٤۰ ) تم فرماؤ کیا اللہ نے اس کی تمہیں اجازت دی یا اللہ پر جھوٹ باندھتے ہو ( ف۱٤۱ )
اے نبی ، ان سے کہو تم لوگوں نے کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ جو رزق 60 اللہ نے تمہارے لیے اتارا تھا اس میں سے تم نے خود ہی کسی کو حرام اور کسی کو حلال ٹھہرا لیا 61 ان سے پوچھو ، اللہ نے تم کو اس کی اجازت دی تھی؟ یا تم اللہ پر افترا کر رہے ہو؟ 62
فرما دیجئے: ذرا بتاؤ تو سہی اللہ نے جو ( پاکیزہ ) رزق تمہارے لئے اتارا سو تم نے اس میں سے بعض ( چیزوں ) کو حرام اور ( بعض کو ) حلال قرار دے دیا ۔ فرما دیں: کیا اللہ نے تمہیں ( اس کی ) اجازت دی تھی یا تم اللہ پر بہتان باندھ رہے ہو
سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :60 اردو زبان میں رزق کا اطلاق صرف کھانے پینے کی چیزوں پر ہوتا ہے ۔ اسی وجہ سے لوگ خیال کرتے ہیں کہ یہاں گرفت صرف اس قانون سازی پر کی گئی ہے جو دستر خوان کی چھوٹی سی دنیا میں مذہبی اوہام یا رسم و رواج کی بنا پر لوگوں نے کر ڈالی ہے ۔ اس غلط فہمی میں جہلا اور عوام ہی نہیں علماء تک مبتلا ہیں ۔ حالانکہ عربی زبان میں رزق محض خوراک کے معنی تک محدود نہیں ہے بلکہ عطاء اور بخشش اور نصیب کے معنی میں عام ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ بھی دنیا میں انسان کو دیا ہے وہ سب اس کا رزق ہے ، حتی کہ اولاد تک رزق ہے ۔ اسماء الرجال کی کتابوں میں بکثرت راویوں کے نام رزق اور رُزَیق اور رزق اللہ ملتے ہیں جس کے معنی تقریبا وہی ہیں جو اردو میں اللہ دیے کے معنی ہیں ۔ مشہور دعا ہے ۔ مشہور دعا ہے اللھم ارنا الحق حقا و ارزقنا اتباعہ ، یعنی ہم پر حق واضح کر اور ہمیں اس کی اتباع کی توفیق دے ۔ محاورے میں بولا جاتا ہے رُزِقَ علمًا فلاں شخص کو علم دیا گیا ہے ۔ حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر حاملہ کے پیٹ میں ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور وہ پیدا ہونے والے کا رزق اور اس کی مدت عمر اور اس کا کام لکھ دیتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہاں رزق سے مراد صرف وہ خوراک ہی نہیں ہے جو اس بچے کو آئندہ ملنے والی ہے بلکہ وہ سب کچھ ہے جو اسے دنیا میں دیا جائےگا ۔ خود قرآن میں ہے وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ ، جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ پس رزق کو محض دستر خوان کی سرحدوں تک محدود سمجھنا اور یہ خیال کرنا کہ اللہ تعالیٰ کو صرف ان پابندیوں اور آزادیوں پر اعتراض ہے جو کھانے پینے کی چیزوں کے معاملہ میں لوگوں نے بطور خود اختیار کر لی ہیں ، سخت غلطی ہے ۔ اور یہ کوئی معمولی غلطی نہیں ہے ۔ اس کی بدولت خدا کے دین کی ایک بہت بڑی اصولی تعلیم لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہو گئی ہے ۔ یہ اسی غلطی کا تو نتیجہ ہے کہ کھانے پینے کی چیز و حلت و حرمت اور جواز و عدم جواز کا معاملہ تو ایک دینی معاملہ سمجھا جاتا ہے ، لیکن تمدن کے وسیع تر معاملات میں اگر یہ اصول طے کر لیا جائے کہ انسان خود اپنے لیے حدود مقرر کرنے کا حق رکھتا ہے ، اور اسی بنا پر خدا اور اس کی کتاب سے بے نیاز ہو کر قانون سازی کی جانے لگے ، تو عامی تو درکنار ، علمائے دین و مفتیان شرع متین اور مفسرین قرآن و شیوخ حدیث تک کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ چیز بھی دین سے اسی طرح ٹکراتی ہے جس طرح ماکولات و مشروبات میں شریعت الہٰی سے بے نیاز ہو کر جائز و ناجائز کے حدود بطور خود مقرر کر لینا ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :61 یعنی تمہیں کچھ احساس بھِ ہے کہ یہ کتنا سخت باغیانہ جرم ہے جو تم کر رہے ہو ۔ رزق اللہ کا ہے اور تم خود اللہ کے ہو ، پھر یہ حق آخر تمہیں کہاں سے حاصل ہو گیا کہ اللہ کی املاک میں اپنے تصرف ، استعمال اور انتفاع کے لیے خود حد بندیاں مقرر کرو؟ کوئی نوکر اگر یہ دعویٰ کرے کہ آقا کے مال میں اپنے تصرف اور اختیارات کی حدیں اسے خود مقرر کر لینے کا حق ہے اور اس معاملہ میں آقا کے کچھ بولنے کی سرے سے کوئی ضرورت ہی نہیں ہے تو اس کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟ تمہارا اپنا ملازم اگر تمہارے گھر میں اور تمہارے گھر کی سب چیزوں میں اپنے عمل اور استعمال کے لیے اس آزادی و خود مختاری کا دعویٰ کرے تو تم اس کے ساتھ کیا معاملہ کرو گے؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نوکر کا معاملہ تو دوسرا ہی ہے جو سرے سے یہی نہیں مانتا کہ وہ کسی کا نوکر ہے اور کوئی اس کا آقا بھی ہے اور یہ کسی اور کا مال ہے جو اسکے تصرف میں ہے ۔ اس بد معاش غاصب کی پوزیشن یہاں زیر بحث نہیں ہے ۔ یہاں سوال اس نوکر کی پوزیشن کا ہے جو خود مان رہا ہے کہ وہ کسی کا نوکر ہے اور یہ بھی مانتا ہے کہ مال اسی کا ہے جس کا وہ نوکر ہے اور پھر کہتا ہے کہ اس مال میں اپنے تصرف کے حدود مقرر کر لینے کا حق مجھے آپ ہی حاصل ہے اور آقا سے کچھ ہوچھنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :62 یعنی تمہاری یہ پوزیشن صرف اسی صورت میں صحیح ہو سکتی تھی کہ آقا نے خود تم کو مجاز کر دیا ہوتا کہ میرے مال میں تم جس طرح چاہو تصرف کرو اپنے عمل اور استعمال کے حدود ، قوانین ، ضوابط سب کچھ بنا لینے کے جملہ حقوق میں نے تمہیں سونپے ۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا تمہارے پاس واقعی اس کو کوئی سند ہے کہ آقا نے تم کو یہ اختیارات دے دیے ہیں؟ یا تم بغیر کسی سند کے یہ دعویٰ کر رہے ہو کہ وہ تمام حقوق تمہیں سونپ چکا ہے؟ اگر پہلی صورت ہے تو براہ کرم وہ سند دکھاؤ ، ورنہ بصورت دیگر یہ کھلی بات ہے کہ تم بغاوت پر جھوٹ اور افترا پردازی کا مزید جرم کر رہے ہو ۔
بغیر شرعی دلیل کے حلال و حرام کی مذمت مشرکوں نے بعض جانور مخصوص نام رکھ کر اپنے لیے حرام قرار دے رکھے تھے اس عمل کی تردید میں یہ آیتیں ہیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ اللہ کی پیدا کی ہوئی کھیتیوں اور چوپایوں میں یہ کچھ نہ کچھ حصہ تو اس کا کرتے ہیں ۔ مسند احمد میں ہے ۔ حضرت عوف بن مالک بن فضلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ اس وقت میری حالت یہ تھی کہ میلا کچیلا جسم بال بکھرے ہوئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا ، تمہارے پاس کچھ مال بھی ہے؟ میں نے کہا جی ہاں ۔ آپ نے فرمایا کہ کس قسم کا مال؟ میں نے کہا اونٹ ، غلام ، گھوڑے ، بکریاں وغیرہ غرض ہر قسم کا مال ہے ۔ آپ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے تجھے سب کچھ دے رکھا ہے تو اس کا اثر بھی تیرے جسم پر ظاہر ہونا چاہیے ۔ پھر آپ نے پوچھا کہ تیرے ہاں اونٹنیاں بچے بھی دیتی ہیں؟ میں نے کہا ہاں ۔ فرمایا وہ بالکل ٹھیک ٹھاک ہوتے ہیں پھر تو اپنے ہاتھ میں چھری لے کر کسی کا کان کاٹ کے اس کا نام بحیرہ رکھ لیتا ہے ۔ کسی کی کھال کاٹ کر حرام نام رکھ لیتا ہے ۔ پھر اسے اپنے اوپر اور اپنے والوں پر حرام سمجھ لیتا ہے؟ میں نے کہا ہاں یہ بھی ٹھیک ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سن اللہ نے تجھے جو دیا ہے وہ حلال ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا بازو تیرے بازو سے قوی ہے اور اللہ تعالیٰ کی چھری تیری چھری سے بہت زیادہ تیز ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں لوگوں کے فعل کی پوری مذمت بیان فرمائی ہے جو اپنی طرف سے بغیر شرعی دلیل کے کسی حرام کو حلال یا کسی حلال کو حرام ٹھہرا لیتے ہیں ۔ انہیں اللہ نے قیامت کے عذاب کے سے دھمکایا ہے اور فرمایا ہے کہ ان کا کیا خیال ہے؟ یہ کس ہوا میں ہیں ۔ کیا یہ نہیں جانتے کہ یہ بےبس ہو کر قیامت کے دن ہمارے سامنے حاضر کئے جائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ تو لوگوں پر اپنا فضل وکرم ہی کرتا ہے ۔ وہ دنیا میں سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا ۔ اسی کا فضل ہے کہ اس نے دنیا میں بہت سی نفع کی چیزیں لوگوں کے لیے حلال کردی ہیں ۔ صرف انہیں چیزوں کو حرام فرمایا ہے ۔ جو بندوں کو نقصان پہنچانے والی اور ان کے حق میں مضر ہیں ۔ دنیوی طور پر یا اُخروی طور پر ۔ لیکن اکثر لوگ ناشکری کر کے اللہ کی نعمتوں سے محروم ہو جاتے ہیں ۔ اپنی جانوں کو خود تنگی میں ڈالتے ہیں ۔ مشرک لوگ اسی طرح از خود احکام گھڑ لیا کرتے تھے اور انہیں شریعت سمجھ بیٹھتے تھے ۔ اہل کتاب نے بھی اپنے دین میں ایسی ہی بدعتیں ایجاد کر لی تھیں ۔ تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے قیامت کے دن اولیا اللہ کی تین قسمیں کر کے انہیں جناب باری کے سامنے لایا جائے گا ۔ پہلے قسم والوں میں سے ایک سے سوال ہوگا کہ تم لوگوں نے یہ نیکیاں کیوں کیں؟ وہ جواب دیں گے کہ پروردگار تو نے جنت بنائی اس میں درخت لگائے ، ان درختوں میں پھل پیدا کئے ، وہاں نہریں جاری کیں ، حوریں پیدا کیں اور نعمتیں تیار کیں ، پس اسی جنت کے شوق میں ہم راتوں کو بیدار رہے اور دنوں کو بھوک پیاس اٹھائی ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اچھا تو تمہارے اعمال جنت کے حاصل کرنے کے لیے تھے ۔ میں تمہیں جنت میں جانے کی اجازت دیتا ہوں اور یہ میرا خاص فضل ہے کہ جہنم سے تمہیں نجات دیتا ہوں ۔ گو یہ بھی میرا فضل ہی ہے کہ میں تمہیں جنت میں پہنچاتا ہوں پس یہ اور اس کے سب ساتھی بہشت بریں میں داخل ہو جائیں گے ۔ پھر دوسری قسم کے لوگوں میں سے ایک سے پوچھا جائے گا کہ تم نے یہ نیکیاں کیسے کیں؟ وہ کہے گا پروردگار تو نے جہنم کو پیدا کیا ۔ اپنے دشمنوں اور نافرمانوں کے لیے وہاں طوق و زنجیر ، حرارت ، آگ ، گرم پانی اور گرم ہوا کا عذاب رکھا وہاں طرح طرح کے روح فرسا دکھ دینے والے عذاب تیار کئے ۔ پس میں راتوں کو جاگتا رہا ، دنوں کو بھوکا پیاسا رہا ، صرف اس جہنم سے ڈر کر تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا ۔ میں نے تجھے اس جہنم سے آزاد کیا اور تجھ پر میرا یہ خاص فضل ہے کہ تجھے اپنی جنت میں لے جاتا ہوں پس یہ اور اس کے ساتھی سب جنت میں چلے جائیں گے پھر تیسری قسم کے لوگوں میں سے ایک کو لایا جائے گا اللہ تعالیٰ اس سے دریافت فرمائے گا کہ تم نے نیکیاں کیوں کیں؟ وہ جواب دے گا کہ صرف تیری محبت میں اور تیرے شوق میں ۔ تیری عزت کی قسم میں راتوں کو عبادت میں جاگتا رہا اور دنوں کو روزے رکھ کر بھوک پیاس سہتا رہا ، یہ سب صرف تیرے شوق اور تیری محبت کے لیے تھا ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو نے یہ اعمال صرف میری محبت اور میرے اشتیاق میں ہی کئے ۔ لے اب میرا دیدار کر لے ۔ اسوقت اللہ تعالیٰ جل جلالہ اسے اور اس کے ساتھیوں کو اپنا دیدار کرائے گا ، فرمائے گا دیکھ لے ، یہ ہوں میں ، پھر فرمائے گا یہ میرا خاص فضل ہے کہ میں تجھے جہنم سے بچاتا ہوں اور جنت میں پہنچاتا ہوں میرے فرشتے تیرے پاس پہنچتے رہیں گے اور میں خود بھی تجھ پر سلام کہا کروں گا ، پس وہ مع اپنے ساتھیوں کے جنت میں چلا جائے گا ۔