Surah

Information

Surah # 10 | Verses: 109 | Ruku: 11 | Sajdah: 0 | Chronological # 51 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 40, 94, 95, 96, from Madina
اَلَاۤ اِنَّ اَوۡلِيَآءَ اللّٰهِ لَا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُوۡنَ ۖ ۚ‏ ﴿62﴾
یاد رکھو اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں ۔
الا ان اولياء الله لا خوف عليهم و لا هم يحزنون
Unquestionably, [for] the allies of Allah there will be no fear concerning them, nor will they grieve
Yaad rakho kay Allah kay doston per na koi andesha hai aur na woh ghumgeen hotay hain.
یا درکھو کہ جو اللہ کے دوست ہیں ان کو نہ کوئی خوف ہوگا نہ وہ غمگین ہوں گے ۔ ( ٢٨ )
سن لو بیشک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہے نہ کچھ غم ( ف۱٤٦ )
سنو! جو اللہ کے دوست ہیں ، جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقوٰی کا رویّہ اختیار کیا ،
خبردار! بیشک اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہے اورنہ وہ رنجیدہ و غمگین ہوں گے
اولیاء اللہ کا تعارف اولیا اللہ وہ ہیں جن کے دلوں میں ایمان و یقین ہو ، جن کا ظاہر تقویٰ اور پرہیزگاری میں ڈوبا ہوا ہو ، جتنا تقویٰ ہوگا ، اتنی ہی ولایت ہوگی ۔ ایسے لوگ محض نڈر اور بےخوف ہیں قیامت کے دن کی وحشت ان سے دور ہے ، نہ وہ کبھی غم و رنج سے آشنا ہوں گے ۔ دنیا میں جو چھوٹ جائے اس پر انہیں حسرت و افسوس نہیں ہوتا ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور بہت سے سلف صالحین فرماتے ہیں کہ اولیاء اللہ وہ ہیں جن کے چہرہ دیکھنے سے اللہ یاد آجائے ۔ بزار کی مرفوع حدیث میں بھی یہ آیا ہے ۔ وہ حدیث مرسلا بھی مروی ہے ۔ ابن جریر میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ کے بعض بندے ایسے بھی ہیں جن پر انبیاء اور شہدا بھی رشک کریں گے لوگوں نے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون ہیں؟ ہمیں بتائیے تاکہ ہم بھی ان سے محبت و الفت رکھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ لوگ ہیں جو صرف اللہ کی وجہ سے آپس میں محبت رکھتے ہیں ۔ مالی فائدے کی وجہ سے انہیں رشتے داری اور نسب کی بناء پر نہیں ۔ صرف اللہ کے دین کی وجہ سے ان کے چہرے نورانی ہوں گے یہ نور کے منبروں پر ہوں گے ۔ سب کو ڈر خوف ہوگا لیکن یہ بالکل بےخوف اور محض نڈر ہوں گے جب لوگ غمزدہ ہوں گے یہ بےغم ہوں گے ۔ پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی ۔ یہی روایت منقطع سند سے ابو داؤد میں بھی ہے ۔ واللہ اعلم ۔ مسند احمد کی ایک مطول حدیث میں ہے کہ دور دراز کے رہنے والے خاندانوں اور برادریوں سے الگ شدہ لوگ جن میں کوئی رشتہ کنبہ قوم برادری نہیں وہ محض توحید و سنت کی وجہ سے اللہ کی رضامندی کے حاصل کرنے کے لیے آپس میں ایک ہوگئے ہوں گے اور آپس میں میل ملاپ ، محبت ، مودت ، دوستی اور بھائی چارہ رکھتے ہونگے ۔ دین میں سب ایک ہوں گے ۔ ان کے لیے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نورانی منبر بچھا دے گا جن پر وہ عزت سے تشریف رکھیں گے ۔ لوگ پریشان ہوں گے لیکن یہ باطمینان ہوں گے ۔ یہ ہیں وہ اللہ کے اولیا جن پر کوئی خوف غم نہیں ۔ خوابوں کے بارے میں مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بشارتوں کی تفسیر بیان فرماتے ہوئے فرمایا کہ یہ نیک خواب ہیں جنہیں مسلمان دیکھے یا اس کے لیے دکھائے جائیں ۔ حضرت ابو الدرداء سے جب اس کا سوال ہوا تو آپ نے فرمایا تم نے آج مجھ سے وہ باپ پوچھی جو تم سے پہلے کسی نے نہیں پوچھی سوائے اس شخص کے جس نے یہی سوال حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جواب کے دینے سے پہلے نہیں فرمایا تھا کہ تجھ سے پہلے میرے کسی امتی نے مجھ سے یہ سوال نہیں کیا ۔ خود انہی صحابی سے جب سائل نے اس آیت کی تفسیر پوچھی تو آپ نے بھی یہ فرما کر پھر تفسیر مرفوع حدیث سے بیان فرمائی ۔ اور روایت میں ہے حضرت عبادہ نے سوال کیا کہ آخرت کی بشارت تو جنت ہے دنیا کی بشارت کیا ہے ۔ فرمایا نیک خواب جسے بندہ دیکھے یا اس کے لیے اوروں کو دکھائے جائیں ۔ یہ نبوت کا چوالیسواں یا سترواں جز ہے ۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے آپ سے پوچھا کہ یارسول اللہ انسان نیکیاں کرتا ہے پھر لوگوں میں اس کی تعریف ہوتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہی دنیوی بشارت ہے ۔ ( مسلم ) فرماتے ہیں کہ دنیا کی بشارت نیک خواب ہیں جن سے مومن کو خوشخبری سنائی جاتی ہے ۔ یہ نبوت کا انچاسواں حصہ ہے اس کے دیکھنے والے کو اسے بیان کرنا چاہیے اور جو اس کے سوا دیکھے وہ شیطانی خواب ہیں تاکہ اسے غم زدہ کر دے ۔ چاہیے کہ ایسے موقعہ پر تین دفعہ بائیں جانب تھتکار دے ۔ اللہ کی بڑائی بیان کرے اور کسی سے اس خواب کو بیان نہ کرے ۔ ( مسند احمد ) اور روایت میں ہے کہ نیک خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے ۔ اور حدیث میں ہے دنیوی بشارت نیک خواب ۔ اور اُخروی بشارت جنت ۔ ابن جریر میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں نبوت جاتی رہی خوشخبریاں رہ گئیں ۔ بشریٰ کی یہی تفسیر ابن مسعود ، ابو ہریرہ ، ابن عباس مجاہد ، عروہ ، ابن زبیر ، یحییٰ بن ابی کثیر ، ابراہیم نخعی ، عطا بن ابی رباح ، وغیرہ سلف صالحین سے مروی ہے ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ مراد اس سے وہ خوشخبری ہے جو مومن کو اس کی موت کے وقت فرشتے دیتے ہیں جس کا ذکر ( آیت ان الذین قالوا ربنا اللہ الخ ) میں ہے کہ سچے پکے مومنوں کے پاس فرشتے آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم خوف نہ کرو ، تم غم نہ کرو ، تمہیں ہم اس جنت کی خوشخبری سناتے ہیں جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا رہا ہے ۔ ہم دنیا و آخرت میں تمہارے کار ساز ولی ہیں ۔ سنو تم جو چاہو گے جنت میں پاؤ گے ، جو مانگو گے ملے گا ۔ تم غفور و رحیم اللہ کے خاص مہمان بنو گے ۔ حضرت براء رضی اللہ عنہ کی مطول حدیث میں ہے مومن کی موت کے وقت نورانی سفید چہرے والے پاک صاف اجلے سفید کپڑوں والے فرشتے اس کے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں اے پاک روح چل کشادگی راحت ترو تازگی اور خوشبو اور بھلائی کی طرف چل ۔ تیرے اس پالنہار کی طرف جو تجھ سے کبھی خفا نہیں ہو نے کا ۔ پس اس کی روح اس بشارت کو سن کر اس کے منہ سے اتنی آسانی اور شوق سے نکلتی ہے جیسے مشک کے منہ سے پانی کا کوئی قطرہ چھو جائے ۔ اور آخرت کی بشارت کا ذکر ( لَا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ وَتَتَلَقّٰىهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ ۭ ھٰذَا يَوْمُكُمُ الَّذِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ ١٠٣؁ ) 21- الأنبياء:103 ) میں ہے یعنی انہیں اس دن کی زبردست پریشانی بالکل ہی نہ گھبرائے گی ادھر ادھر سے ان کے پاس فرشتے آئے ہوں گے اور کہتے ہوں گے کہ اس دن کا تم سے وعدہ کیا جاتا رہا تھا ۔ ایک آیت میں ہے ( يَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ يَسْعٰى نُوْرُهُمْ بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَبِاَيْمَانِهِمْ بُشْرٰىكُمُ الْيَوْمَ جَنّٰتٌ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا ۭذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ 12۝ۚ ) 57- الحديد:12 ) جس دن تو مومن مردوں عورتوں کو دیکھے گا کہ ان کا نور ان کے آگے آگے اور دائیں طرف چل رہا ہوگا ۔ لو تم خوشخبری سن لو کہ آج تمہیں وہ جنتیں ملیں گی ۔ جن کے نیچے نہیرں لہریں لے رہی ہیں ۔ جہاں کی رہائش ہمیشہ کی ہوگی ۔ یہی زبردست کامیابی ہے ۔ اللہ کا وعدہ غلط نہیں ہوتا ۔ وہ وعدہ خلافی نہیں کرتا ، اس نے جو فرما دیا سچ ہے ، ثابت ہے ، اٹل ہے یقینی اور ضروری ہے ۔ یہ ہے پوری مقصد آوری ، یہ ہے زبردست کامیابی ، یہ ہے مراد کا ملنا اور یہ ہے گود کا بھرنا ۔