Surah

Information

Surah # 10 | Verses: 109 | Ruku: 11 | Sajdah: 0 | Chronological # 51 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 40, 94, 95, 96, from Madina
وَاتۡلُ عَلَيۡهِمۡ نَبَاَ نُوۡحٍ‌ۘ اِذۡ قَالَ لِقَوۡمِهٖ يٰقَوۡمِ اِنۡ كَانَ كَبُرَ عَلَيۡكُمۡ مَّقَامِىۡ وَتَذۡكِيۡرِىۡ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ فَعَلَى اللّٰهِ تَوَكَّلۡتُ فَاَجۡمِعُوۡۤا اَمۡرَكُمۡ وَشُرَكَآءَكُمۡ ثُمَّ لَا يَكُنۡ اَمۡرُكُمۡ عَلَيۡكُمۡ غُمَّةً ثُمَّ اقۡضُوۡۤا اِلَىَّ وَ لَا تُنۡظِرُوۡنِ‏ ﴿71﴾
اور آپ ان کو نوح ( علیہ السلام ) کا قصہ پڑھ کر سنائیے جب کہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اے میری قوم! اگر تم کو میرا رہنا اور احکام الٰہی کی نصیحت کرنا بھاری معلوم ہوتا ہے تو میرا تو اللہ ہی پربھروسہ ہے تم اپنی تدبیر مع اپنے شرکا کے پختہ کر لو پھر تمہاری تدبیر تمہاری گھٹن کا باعث نہ ہونی چاہیئے پھر میرے ساتھ کر گزرو اور مجھ کو مہلت نہ دو ۔
و اتل عليهم نبا نوح اذ قال لقومه يقوم ان كان كبر عليكم مقامي و تذكيري بايت الله فعلى الله توكلت فاجمعوا امركم و شركاءكم ثم لا يكن امركم عليكم غمة ثم اقضوا الي و لا تنظرون
And recite to them the news of Noah, when he said to his people, "O my people, if my residence and my reminding of the signs of Allah has become burdensome upon you - then I have relied upon Allah . So resolve upon your plan and [call upon] your associates. Then let not your plan be obscure to you. Then carry it out upon me and do not give me respite.
Aur aap inn ko nooh ( alh-e-salam ) ka qissa parh ker sunaiye jab kay unhon ney apni qom say farmaya kay aey meri qom! Agar tum ko mera rehna aur ehkaam-e-elahi ki naseehat kerna bhari maloom hota hai to mera to Allah hi per bharosa hai. Tum apni tadbeer maaye apney shurka kay pukhta kerlo phir tumhari tadbeer tumhari ghuttan ka baees nahi honi chahaiye. Aur phir meray sath ker guzro aur mujh ko mohlat na do.
اور ( اے پیغمبر ) ان کے سامنے نوح کا واقعہ پڑھ کر سناؤ ، جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ : میری قوم کے لوگو ! اگر تمہارے درمیان میرا رہنا ، اور اللہ کی آیات کے ذریعے خبردار کرنا تمہیں بھاری معلوم ہورہا ہے تو میں نے تو اللہ ہی پر بھروسہ کر رکھا ہے ، اب تم اپنے شریکوں کو ساتھ ملا کر ( میرے خلاف ) اپنی تدبیروں کو خوب پختہ کرلو ، پھر جو تدبیر تم کرو وہ تمہارے دل میں کسی گھٹن کا باعث نہ بنے ، بلکہ میرے خلاف جو فیصلہ تم نے کیا ہو ، اسے ( دل کھول کر ) کر گذرو ، اور مجھے ذرا بھی مہلت نہ دو ۔
اور انھیں نوح کی خبر پڑھ کر سناؤ جب اس نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم اگر تم پر شاق گزرا ہے میرا کھڑا ہونا ( ف۱۵۹ ) اور اللہ کی نشانیاں یاد دلانا ( ف۱٦۰ ) تو میں نے اللہ ہی پر بھروسہ کیا ( ف۱٦۱ ) تو مِل کر کام کرو اور اپنے جھوٹے معبودوں سمیت اپنا کام پکا کرلو تمہارے کام میں تم پر کچھ گنجلک ( الجھن ) نہ رہے پھر جو ہو سکے میرا کرلو اور مجھے مہلت نہ دو ( ف۱٦۲ )
اِن کو نوح 69 کا قصہ سناؤ ، اس وقت کا قصہ جب اس نے اپنی قوم سے کہا تھا اے برادرانِ قوم ، اگر میرا تمہارے درمیان رہنا اور اللہ کی آیات سنا سنا کر تمہیں غفلت سے بیدار کرنا تمہارے لیے ناقابلِ برداشت ہوگیا ہے تو میرا بھروسہ اللہ پر ہے ، تم اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کو ساتھ لے کر ایک متفقہ فیصلہ کرلو اور جو منصوبہ تمہارے پیشِ نظر ہو اس کو خوب سوچ سمجھ لو تاکہ اس کا کوئی پہلو تمہاری نگاہ سے پوشیدہ نہ رہے ، پھر میرے خلاف اس کو عمل میں لے آؤ اور مجھے ہرگز مہلت نہ دو ۔ 70
اور ان پر نوح ( علیہ السلام ) کا قصہ بیان فرمائیے ، جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: اے میری قوم ( اولادِ قابیل! ) اگر تم پر میرا قیام اور میرا اللہ کی آیتوں کے ساتھ نصیحت کرنا گراں گزر رہا ہے تو ( جان لو کہ ) میں نے تو صرف اللہ ہی پر توکل کرلیا ہے ( اور تمہارا کوئی ڈر نہیں ) سو تم اکٹھے ہوکر ( میری مخالفت میں ) اپنی تدبیر کو پختہ کرلو اور اپنے ( گھڑے ہوئے ) شریکوں کو بھی ( ساتھ ملا لو اور اس قدر سوچ لو کہ ) پھر تمہاری تدبیر ( کا کوئی پہلو ) تم پر مخفی نہ رہے ، پھر میرے ساتھ ( جو جی میں آئے ) کر گزرو اور ( مجھے ) کوئی مہلت نہ دو
سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :69 یہاں تک تو ان لوگوں کو معقول دلائل اور دل کو لگنے والے نصائح کے ساتھ سمجھایا گیا تھا کہ ان کے عقائد اور خیالات اور طریقوں میں غلطی کیا ہے اور وہ کیوں غلط ہے ، اور اس کے مقابلے میں صحیح راہ کیا ہے اور وہ کیوں صحیح ہے ۔ اب ان کے اس طرز عمل کی طرف توجہ منعطف ہوتی ہے جو وہ اس سیدھی سیدھ اور صاف صاف تفہیم و تلقین کے جواب میں اختیار کر رہے تھے ۔ دس گیارہ سال سے ان کی روش یہ تھی کہ وہ بجائے اس کے اس معقول تنقید اور صحیح رہنمائی پر غور کر کے اپنی گمراہیوں پر نظر ثانی کرتے ، الٹے اس شخص کی جان کے دشمن ہو گئے تھے جو ان باتوں کو اپنی کسی ذانی غرض کے لیے نہیں بلکہ انہی کے بھلے کے لیے پیش کر رہا تھا ۔ وہ دلیلوں کا جواب پتھروں سے اور نصیحتوں کا جواب گالیوں سے دے رہے تھے ۔ اپنی بستی میں ایسے شخص کا وجود ان کے لیے سخت ناگوار ، بلکہ ناقابلِ برداشت ہو گیا تھا جو غلط کو غلط کہنے والا ہو اور صحیح بات بتانے کی کوشش کرتا ہو ۔ ان کا مطالبہ یہ تھا کہ ہم اندھوں کے درمیان جو آنکھوں والا پایا جاتا ہے وہ ہماری آنکھیں کھولنے کے بجائے اپنی آنکھیں بھی بند کر لے ، ورنہ ہم زبردستی اس کی آنکھیں پھوڑ دیں گے تا کہ بینائی جیسی چیز ہماری سر زمین میں نہ پائی جائے ۔ یہ طرزِ عمل جو انہوں نے اختیار کر رکھا تھا ، اس پر کچھ اور فرمانے کے بجائے اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو حکم دیتا ہے کہ انہیں نوح علیہ السلام کا قصہ سنا دو ، اسی قصے میں وہ اپنے اور تمہارے معاملے کا جواب بھی پالیں گے ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :70 یہ چیلنج تھا کہ میں اپنے کام سے باز نہ آؤں گا ، تم میرے خلاف جو کچھ کرنا چاہتے ہو کر گزرو ، میرا بھروسہ اللہ پر ہے ۔ ( تقابل کے لیے ملاحظہ ہو ، ہود ، آیت ۵۵ ) ۔
نوح علیہ السلام کی قوم کا کردار اے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم تو انہیں حضرت نوح علیہ السلام کے واقعہ کی خبر دے کہ ان کا اور ان کی قوم کا کیا حشر ہوا جس طرح کفار مکہ تجھے جھٹلاتے اور ستاتے ہیں ، قوم نوح نے بھی یہی وطیرہ اختیار کر رکھا تھا ۔ بالآخر سب کے سب غرق کر دیئے گئے ، سارے کافر دریا برد ہوگئے ۔ پس انہیں بھی خبردار رہنا چاہیے اور میری پکڑ سے بےخوف نہ ہونا چاہئے ۔ اس کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ۔ حضرت نوح علیہ السلام نے ایک مرتبہ ان سے صاف فرما دیا کہ اگر تم پر یہ گراں گزرتا ہے کہ میں تم میں رہتا ہوں اور تمہیں اللہ کی باتیں سنا رہا ہوں ، تم اس سے چڑتے ہو اور مجھے نقصان پہنچانے درپے ہو تو سنو میں صاف کہتا ہوں کہ میں تم سے نڈر ہوں ۔ مجھے تمہاری کوئی پرواہ نہیں ۔ میں تمہیں کوئی چیز نہیں سمجھتا ۔ میں تم سے مطلقاً نہیں ڈرتا ۔ تم سے جو ہو سکے کر لو ۔ میرا جو بگاڑ سکو بگاڑ لو ۔ تم اپنے ساتھ اپنے شریکوں اور اپنے جھوٹے معبودوں کو بھی بلا لو اور مل جل کر مشورے کر کے بات کھول کر پوری قوت کے ساتھ مجھ پر حملہ کرو ، تمہیں قسم ہے جو میرا بگاڑ سکتے ہو اس میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھو ، مجھے بالکل مہلت نہ دو ، اچانک گھیر لو ، میں بالکل بےخوف ہوں ، اس لیے کہ تمہاری روش کو میں باطل جانتا ہوں ۔ میں حق پر ہوں ، حق کا ساتھی اللہ ہوتا ہے ، میرا بھروسہ اسی کی عظیم الشان ذات پر ہے ، مجھے اس کی قدرت کے بڑائی معلوم ہے ۔ یہی حضرت ہود نے فرمایا تھا کہ اللہ کے سوا جس جس کی بھی تم پوجا کر رہے ہو ۔ میں تم سے اور ان سے بالکل بری ہوں ، خوب کان کھول کر سن لو ، اللہ بھی سن رہا ہے تم سب مل کر میرے خلاف کوشش کرو ، میں تو تم سے مہلت بھی نہیں مانگتا ۔ میرا بھروسہ اپنے اور تمہارے حقیقی مربی پر ہے ۔ حضرت نوح علیہ السلام فرماتے ہیں اگر تم اب بھی مجھے جھٹلاؤ میری اطاعت سے منہ پھیر لو تو میرا اجر ضائع نہیں جائے گا ۔ کیونکہ میرا اجر دینے والا میرا مربی ہے ، مجھے تم سے کچھ نہیں لینا ۔ میری خیر خواہی ، میری تبلیغ کسی معاوضے کی بنا پر نہیں ، مجھے تو جو اللہ کا حکم ہے میں اس کی بجا آوری میں لگا ہوا ہوں ، مجھے اس کی طرف سے مسلمان ہو نے کا حکم دیا گیا ہے ۔ سو الحمد اللہ میں مسلمان ہوں ۔ اللہ کا پورا فرمان بردار ہوں ۔ تمام نبیوں کا دین اول سے آخر تک صرف اسلام ہی رہا ہے ۔ گو احکامات میں قدرے اختلاف رہا ہو ۔ جیسے فرمان ہر ایک کے لیے راہ اور طریقہ ہے دیکھئے یہ نوح علیہ السلام جو اپنے آپ کو مسلم بتاتے ہیں یہ ہیں ابراہیم علیہ السلام جو اپنے آپ کو مسلم بتاتے ہیں ۔ اللہ ان سے فرماتا ہے اسلام لا ۔ وہ جواب دیتے ہیں رب العلمین کے لیے میں اسلام لایا ۔ اسی کی وصیت آپ اور حضرت یعقوب علیہ السلام اپنی اولاد کو کرتے ہیں کہ اے میرے بیٹو ! اللہ نے تمہارے لیے اسی دین کو پسند فرما لیا ہے ۔ خبردار یاد رکھنا مسلم ہو نے کی حالت میں ہی موت آئے ۔ حضرت یوسف علیہ السلام اپنی دعا میں فرماتے ہیں اللہ مجھے اسلام کی حالت میں موت دینا موسی علیہ السلام اپنی قوم سے فرماتے ہیں کہ اگر تم مسلمان ہو تو اللہ پر توکل کرو ۔ آپ کے ہاتھ پر ایمان قبول کرنے والے جادوگر اللہ سے دعا کرتے ہوئے کہتے ہیں تو ہمیں مسلمان اٹھانا بلقیس کہتی ہیں میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہاتھ پر مسلمان ہوتی ہوں ۔ قرآن فرماتا ہے ہے کہ تورات کے مطابق وہ انبیاء حکم فرماتے ہیں جو مسلمان ہیں ۔ حواری حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے کہتے ہیں آپ گواہ رہیے ہم مسلمان ہیں ۔ خاتم الرسل سید البشر صل اللہ علیہ وسلم نماز کے شروع کی دعا کے آخر میں فرماتے ہیں ۔ میں اول مسلمان ہوں یعنی اس امت میں ۔ ایک حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہں ہم انبیاء ایسے ہیں جیسے ایک باپ کی اولاد دین ایک اور بعض بعض احکام جدا گانہ ۔ پس توحید میں سب یکساں ہیں گو فروعی احکام میں علیحدگی ہو ۔ جیسے وہ بھائی جن کا باپ ایک ہو مائیں جدا جدا ہوں ۔ پھر فرماتا ہے قوم نوح نے نوح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ مانا بلکہ انہیں جھوٹا کہا آخر ہم نے انہیں غرق کر دیا ۔ نوح نبی علیہ السلام کو مع ایمانداروں کے اس بدترین عذاب سے ہم نے صاف بچا لیا ۔ کشتی میں سوار کر کے انہیں طوفان سے محفوظ رکھ لیا ۔ وہی وہ زمین پر باقی رہے پس ہماری اس قدرت کو دیکھ لے کہ کس طرح ظالموں کا نام و نشان مٹا دیا اور کس طرح مومنوں کو بچا لیا ۔