Surah

Information

Surah # 10 | Verses: 109 | Ruku: 11 | Sajdah: 0 | Chronological # 51 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 40, 94, 95, 96, from Madina
قَالَ مُوۡسٰٓى اَتَقُوۡلُوۡنَ لِلۡحَقِّ لَمَّا جَآءَكُمۡ‌ ؕ اَسِحۡرٌ هٰذَا ؕ وَلَا يُفۡلِحُ السَّاحِرُوۡنَ‏ ﴿77﴾
موسٰی ( علیہ السلام ) نے فرمایا کہ کیا تم اس صحیح دلیل کی نسبت جب وہ کہ تمہارے پاس پہنچی ایسی بات کہتے ہو کیا یہ جادو ہے ، حالانکہ جادوگر کامیاب نہیں ہوا کرتے ۔
قال موسى اتقولون للحق لما جاءكم اسحر هذا و لا يفلح السحرون
Moses said, "Do you say [thus] about the truth when it has come to you? Is this magic? But magicians will not succeed."
Musa ( alh-e-salam ) ney farmaya kay kiya tum iss sahih daleel ki nisbat jabkay woh tumharay pass phonchi aisi baat kehtay ho kiya yeh jadoo hai halankay jadoogar kaamyab nahi hua keray.
موسی نے کہا : کیا تم حق کے بارے میں ایسی بات کہہ رہے ہو جبکہ وہ تمہارے پاس آچکا ہے ؟ بھلا کیا یہ جادو ہے ؟ حالانکہ جادو گر فلاح نہیں پایا کرتے ۔
موسیٰ نے کہا کیا حق کی نسبت ایسا کہتے ہو جب وہ تمہارے پاس آیا کیا یہ جادو ہے ( ف۱۷۰ ) اور جادوگر مراد کو نہیں پہنچتے ،
74 موسیٰ نے کہا: تم حق کو یہ کہتے ہو جب کہ وہ تمہارے سامنے آگیا ؟ کیا یہ جادو ہے ؟ حالانکہ جادوگر فلاح نہیں پایا کرتے ۔ 75
موسٰی ( علیہ السلام ) نے کہا: کیا تم ( ایسی بات ) حق سے متعلق کہتے ہو جب وہ تمہارے پاس آچکا ہے ، ( عقل و شعور کی آنکھیں کھول کر دیکھو ) کیا یہ جادو ہے؟ اور جادوگر ( کبھی ) فلاح نہیں پاسکیں گے
سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :74 یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کا پیغام سن کر وہی کچھ کہا جو کفار مکہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام سن کر کہا تھا کہ ” یہ شخص تو کھلا جادوگر ہے“ ۔ ( ملاحظہ ہو اسی سورہ یونس کی دوسری آیت ) ۔ یہاں سلسلہ کلام کو نگاہ میں رکھنے سے یہ بات صریح طور پر ظاہر ہو جاتی ہے کہ حضرت موسیٰ وہارون علیہما السلام بھی دراصل اسی خدمت پر مامور ہوئے تھے جس پر حضرت نوح علیہ السلام اور ان کے بعد کے تمام انبیاء ، سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک ، مامور ہوتے رہے ہیں ۔ اس سورہ میں ابتدا سے ایک ہی مضمون چلا آرہا ہے اور وہ یہ کہ صرف اللہ رب العالمین کو اپنا رب اور الٰہ مانو اور یہ تسلیم کرو کہ تم کو اس زندگی کے بعد دوسری زندگی میں اللہ کے سامنے حاضر ہونا اور اپنے عمل کا حساب دینا ہے ۔ پھر جو لوگ پیغمبر کی اس دعوت کو ماننے سے انکار کر رہے تھے ان کو سمجھایا جا رہا ہے کہ نہ صرف تمہاری فلاح کا بلکہ ہمیشہ سے تمام انسانوں کی فلاح کا انحصار اسی ایک بات پر رہا ہے کہ اس عقیدہ توحید و آخرت کی دعوت کو ، جسے ہر زمانے میں خدا کے پیغبروں نے پیش کیا ہے ، قبول کیا جائے اور اپنا پورا نظام زندگی اسی بنیاد پر قائم کر لیا جائے ۔ فلاح صرف انہوں نے پائی جنہوں نے یہ کام کیا ، اور جس قوم نے بھی اس سے انکار کیا وہ آخرکار تباہ ہو کر رہی ۔ یہی اس سورہ کا مرکزی مضمون ہے ، اور اس سیاق میں جب تاریخی نظائر کے طور پر دوسرے انبیاء کا ذکر آیا ہے تو لازما اس کے یہی معنی ہیں کہ جو دعوت اس سورہ میں دی گئی ہے وہی ان تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی دعوت تھی ، اور اسی کو لے کر حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام بھی فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں کے پاس گئے تھے ۔ اگر واقعہ وہ ہوتا جو بعض لوگوں نے گمان کیا ہے کہ حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کا مشن ایک خاص قوم کو دوسری قوم کی غلامی سے رہا کرانا تھا ، تو اس سیاق و سباق میں اس واقعہ کو تاریخی نظیر کے طور پر پیش کرنا بالکل بے جوڑ ہوتا ۔ اس میں شک نہیں کہ ان دونوں حضرات کے مشن کا ایک جزء یہ بھی تھا کہ بنی اسرائیل ( ایک مسلمان قوم ) کو ایک کافر قوم کے تسلط سے ( اگر وہ اپنے کفر پر قائم رہے ) نجات دلائیں ۔ لیکن یہ ایک ضمنی مقصد تھا نہ کہ اصل مقصد بعثت ۔ اصل مقصد تو وہی تھا جو قرآن کی رو سے تمام انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا مقصد رہا ہے اور سورہ نازعات میں جس کو صاف طور پر بیان بھی کر دیا گیا ہے کہ اِذَھَبْ اِلیٰ فِرْعَوْ نَ اِنَّہ طَغٰی o فَقُلْ ھَلْ لَّکَ اِلیٰٓ اَنْ تَزَکّٰیo وَاَھْدِیَکَ اِلیٰ رَبِّکَ فَتَخْشٰی ۔ ” فرعون کےپاس جا کیونکہ وہ حدّ بندگی سے گزر گیا ہے اور اس سے کہہ کیا تو اس کے لیے تیار ہے کہ سدھر جائے ، اور میں تجھے تیرے رب کی طرف رہنمائی کروں تو تو اس سے ڈرے“ ؟ مگر چونکہ فرعون اور اس کے اعیان سلطنت نے اس دعوت کو قبول نہیں کیا اور آخرکار حضرت موسیٰ علیہما السلام کو یہی کرنا پڑا کہ اپنی مسلمان قوم کو اس کے تسلّط سے نکال لے جائیں ، اس لیے اس کے مشن کا یہی جزء تاریخ میں نمایاں ہو گیا اور قرآن میں بھی اس کو ویسا ہی نمایاں کر کے پیش کیا گیا جیسا کہ وہ تاریخ میں فی الواقع ہے ۔ جو شخص قرآن کی تفصیلات کو اس کے کلیات سے جدا کر کے دیکھنے کی غلطی نہ کرتا ہو ، بلکہ انہیں کلیات کے تابع کر کے ہی دیکھتا اور سمجھتا ہو ، وہ کبھی اس غلط فہمی میں نہیں پڑ سکتا کہ ایک قوم کی رہائی کسی نبی کی بعثت کا اصل مقصد ، اور دین حق کی دعوت محض اس کا ایک ضمنی مقصد ہو سکتی ہے ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو طٰہٰ ، آیات ٤٤ تا ۸۲ ۔ الزخرف ، ٤٦ تا ۵٦ ۔ المزمل ۱۵ – ۱٦ ) ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :75 ” مطلب یہ ہے کہ ظاہر نظر میں جادو اور معجزے کے درمیان جو مشابہت ہوتی ہے اس کی بنا پر تم لوگوں نے بے تکلف اسے جادو قرار دے دیا ، مگر نادانو! تم نے یہ نہ دیکھا کہ جادوگر کس سیرت و اخلاق کے لوگ ہوتے ہیں اور کن مقاصد کے لیے جادوگری کیا کرتے ہیں ۔ کیا کسی جادوگر کا یہی کام ہوتا ہے کہ بے غرض اور بےدھڑک ایک جبار فرمانروا کے دربار میں آئے اور اس کی گمراہی پر سرزنش کرے اور خدا پرستی اور طہارت نفس اختیار کرنے کی دعوت دے؟ تمہارے ہاں کوئی جادوگر آیا ہوتا تو پہلے درباریوں کے پاس خوشامدیں کرتا پھرتا کہ ذرا سرکار میں مجھے اپنے کمالات دکھانے کا موقع دلوا دو ، پھر جب اسے دربار میں رسائی نصیب ہوتی تو عام خوشامدیوں سے بھی کچھ بڑھ کر ذلت کے ساتھ سلامیاں بجا لاتا ، چیخ چیخ کر درازی عمر و اقبال کی دعائیں دیتا ، بڑی منت سماجت کے ساتھ درخواست کرتا کہ سرکار کچھ فدوی کی کمالات بھی ملاحظہ فرمائیں ، اور جب تم اس کے تماشے دیکھ لیتے تو ہاتھ پھیلا دیتا کہ حضور کچھ انعام مل جائے ۔ اس پورے مضمون کو صرف ایک فقرے میں سمیٹ دیا ہے کہ جودو گر فلاح یافتہ نہیں ہوا کرتے ۔