Surah

Information

Surah # 10 | Verses: 109 | Ruku: 11 | Sajdah: 0 | Chronological # 51 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 40, 94, 95, 96, from Madina
قَالُـوۡۤا اَجِئۡتَـنَا لِتَلۡفِتَـنَا عَمَّا وَجَدۡنَا عَلَيۡهِ اٰبَآءَنَا وَتَكُوۡنَ لَكُمَا الۡكِبۡرِيَآءُ فِى الۡاَرۡضِؕ وَمَا نَحۡنُ لَـكُمَا بِمُؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿78﴾
وہ لوگ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم کو اس طریقہ سے ہٹا دو جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا ہے اور تم دونوں کو دنیا میں بڑائی مل جائے اور ہم تم دونوں کو کبھی نہ مانیں گے ۔
قالوا اجتنا لتلفتنا عما وجدنا عليه اباءنا و تكون لكما الكبرياء في الارض و ما نحن لكما بمؤمنين
They said, "Have you come to us to turn us away from that upon which we found our fathers and so that you two may have grandeur in the land? And we are not believers in you."
Woh log kehney lagay kiya tum humaray pass iss liye aaye ho kay hum ko iss tareeqay say hata do jiss per hum ney apney baap dadon ko paya hai aur tum dono ko duniya mein baraee mill jaye aur hum tum dono ko kabhi na manen gay.
کہنے لگے : کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ جس طور طریقے پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا ہے اس سے ہمیں برگشتہ کردو ، اور اس سرزمین میں تم دونوں کی چودھراہٹ قائم ہوجائے؟ ہم تو تم دونوں کی بات ماننے والے نہیں ہیں ۔
بولے ( ف۱۷۱ ) کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہمیں اس ( ف۱۷۲ ) سے پھیر دو جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا اور زمین میں تمہیں دونوں کی بڑائی رہے ، اور ہم تم پر ایمان لانے کے نہیں ،
انہوں نے جواب دیا کیا تو اس لیے آیا ہے کہ ہمیں اس طریقے سے پھیر دے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے اور زمین میں بڑائی تم دونوں کی قائم ہو جائے؟ 76 تمہاری بات تو ہم ماننے والے نہیں ہیں ۔
وہ کہنے لگے: ( اے موسٰی! ) کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ تم ہمیں اس ( طریقہ ) سے پھیر دو جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو ( گامزن ) پایا اور زمین ( یعنی سرزمینِ مصر ) میں تم دونوں کی بڑائی ( قائم ) رہے؟ اور ہم لوگ تم دونوں کو ماننے والے نہیں ہیں
سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :76 ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کا اصل مطالبہ رہائی بنی اسرائیل ہوتا تو فرعون اور اس کے درباریوں کو یہ اندیشہ کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ ان دونوں بزرگوں کی دعوت پھیلنے سے سرزمین مصر کا دین بدل جائے گا اور ملک میں ہمارے بجائے ان کی بڑائی قائم ہو جائے گی ۔ ان کے اس اندیشے کی وجہ تو یہی تھی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اہل مصر کو بندگی حق کی طرف دعوت دے رہے تھے اور اس سے وہ مشرکانہ نظام خطرے میں تھا جس پر فرعون کی بادشاہی اور اس کے سرداروں کی سرداری اور مذہبی پیشواؤں کی پیشوائی قائم تھی ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف ، حاشیہ نمبر ٦٦ ۔ المومن ، حاشیہ نمبر ٤۳ ) ۔