Surah

Information

Surah # 10 | Verses: 109 | Ruku: 11 | Sajdah: 0 | Chronological # 51 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 40, 94, 95, 96, from Madina
فَمَاۤ اٰمَنَ لِمُوۡسٰٓى اِلَّا ذُرِّيَّةٌ مِّنۡ قَوۡمِهٖ عَلٰى خَوۡفٍ مِّنۡ فِرۡعَوۡنَ وَمَلَا۟ ٮِٕهِمۡ اَنۡ يَّفۡتِنَهُمۡ‌ ؕ وَاِنَّ فِرۡعَوۡنَ لَعَالٍ فِى الۡاَرۡضِ‌ ۚ وَاِنَّهٗ لَمِنَ الۡمُسۡرِفِيۡنَ‏ ﴿83﴾
پس موسیٰ ( علیہ السلام ) پر ان کی قوم میں سے صرف قدرے قلیل آدمی ایمان لائے وہ بھی فرعو ن سے اور اپنے حکام سے ڈرتے ڈرتے کہ کہیں ان کو تکلیف پہنچائے اور واقع میں فرعون اس ملک میں زور رکھتا تھا ، اور یہ بھی بات تھی کہ وہ حد سے باہر ہو جاتا تھا ۔
فما امن لموسى الا ذرية من قومه على خوف من فرعون و ملاىهم ان يفتنهم و ان فرعون لعال في الارض و انه لمن المسرفين
But no one believed Moses, except [some] youths among his people, for fear of Pharaoh and his establishment that they would persecute them. And indeed, Pharaoh was haughty within the land, and indeed, he was of the transgressors
Pus musa ( alh-e-salam ) per unn ki qom mein say sirf qadray qaleel aadmi eman laye woh bhi firaon say aur apney hukkaam say dartay dartay kay kahin unn ko takleef phonchaye uss mulk mein firaon tha bhi sirkash aur tha bhi woh insaf ki hadd say guzar janey walon mein.
پھر ہوا یہ کہ موسیٰ پر کوئی اور نہیں ، لیکن خود ان کی قوم کے کچھ نوجوان فرعون ور اپنے سرداروں سے ڈرتے ڈرتے ایمان لائے کہ کہیں فرعون انہیں نہ ستائے ۔ ( ٣٣ ) اور یقینا فرعون زمین میں بڑا زور آور تھا ، ور وہ ان لوگوں میں سے تھا جو کسی حد پر قائم نہیں رہتے ۔
تو موسیٰ پر ایمان نہ لائے مگر اس کی قوم کی اولاد سے کچھ لوگ ( ف۱۷۷ ) فرعون اور اس کے درباریوں سے ڈرتے ہوئے کہ کہیں انھیں ( ف۱۷۸ ) ہٹنے پر مجبور نہ کردیں اور بیشک فرعون زمین پر سر اٹھانے والا تھا ، اور بیشک وہ حد سے گزر گیا ( ف۱۷۹ )
﴿پھر دیکھو کہ﴾ موسیٰ کو اس کی قوم میں سے چند نوجوانوں 78 کے سوا کسی نے نہ مانا 79 ، فرعون کے ڈر سے اور خود اپنی قوم کے سربرآوردہ لوگوں کے ڈر سے ﴿ جنہیں خوف تھا کہ﴾ فرعون ان کو عذاب میں مبتلا کرے گا ۔ اور واقعہ یہ ہے کہ فرعون زمین میں غلبہ رکھتا تھا اور وہ ان لوگوں میں سے تھا جو کسی حد پر رکتے نہیں ہیں ۔ 80
پس موسٰی ( علیہ السلام ) پر ان کی قوم کے چند جوانوں کے سوا ( کوئی ) ایمان نہ لایا ، فرعون اور اپنے ( قومی ) سرداروں ( وڈیروں ) سے ڈرتے ہوئے کہ کہیں وہ انہیں ( کسی ) مصیبت میں مبتلا نہ کر دیں ، اور بیشک فرعون سرزمینِ ( مصر ) میں بڑا جابر و سرکش تھا ، اور وہ یقیناً ( ظلم میں ) حد سے بڑھ جانے والوں میں سے تھا
سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :78 متن میں لفظ ذُرِّیَّۃٌ استعمال ہوا ہے جس کے معنی اولاد کے ہیں ۔ ہم نے اس کا ترجمہ ” نوجوان “ کیا ہے ۔ مگر دراصل اس خاص لفظ کے استعمال سے جو بات قرآن مجید بیان کرنا چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ اس پرخطر زمانے میں حق کا ساتھ دینے اور علمبردار حق کو اپنا رہنما تسلیم کرنے کی جرأت چند لڑکوں اور لڑکیوں نے تو کی مگر ماؤں اور باپوں اور قوم کے سن رسیدہ لوگوں کو اس کی توفیق نصیب نہ ہوئی ۔ ان پر مصلحت پرستی اور دنیوی اغراض کی بندگی اور عافیت کوشی کچھ اس طرح چھائی رہی کہ وہ ایسے حق کا ساتھ دینے پر آمادہ نہ ہوئے جس کا راستہ ان کو خطرات سے پر نظر آرہا تھا ، بلکہ وہ الٹے نوجوانوں ہی کو روکتے رہے کہ موسیٰ علیہما السلام کے قریب نہ جاؤ ، ورنہ تم خود بھی فرعون کے غضب میں مبتلا ہو گے اور ہم پر بھی آفت لاؤ گے ۔ یہ بات خاص طور پر قرآن نے نمایاں کر کے اس لیے پیش کی ہے کہ مکہ کی آبادی میں سےبھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دینے کے لیے جو لوگ آگے بڑھے تھے وہ قوم کے بڑے بوڑھے اور سن رسیدہ لوگ نہ تھے بلکہ چند باہمت نوجوان ہی تھے ۔ وہ ابتدائی مسلمان جو ان آیات کے نزول کی وقت ساری قوم کی شدید مخالفت کے مقابلے میں صداقت اسلامی کی حمایت کر رہے تھے اور ظلم و ستم کے اس طوفان میں جن کے سینے اسلام کے لیے سپر بنے ہوئے تھے ، ان میں مصلحت کش بوڑھا کوئی نہ تھا ۔ سب کے سب جوان لوگ ہی تھے ۔ علی ابن ابی طالب ، جعفر طیّار ، زبیر ، سعد بن ابی وقاص ، مُصعَب بن عُمَیر ، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم جیسے لوگ قبول اسلام کے وقت ۲۰ سال سے کم عمر کے تھے ۔ عبد الرحمٰن بن عوف ، بلال ، صُہَیب رضی اللہ عنہم کی عمریں ۲۰ سے ۳۰ سال کے درمیان تھیں ۔ ابو عبیدہ بن الجراح ، زید بن حارثہ ، عثمان بن عفان اور عمر فاروق رضی اللہ عنہم ۳۰ سے ۳۵ سال کے درمیان عمر کے تھے ۔ ان سے زیادہ سن رسیدہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے اور ان کی عمر بھی ایمان لانے کے وقت ۳۸ سال سے زیادہ نہ تھی ۔ ابتدائی مسلمانوں میں صرف ایک صحابی کا نام ہمیں ملتا ہے جن کی عمر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ تھی ، یعنی حضرت عبیدہ بن حارثہ رضی اللہ عنہ مُطَّلبی ۔ اور غالبا پورے گروہ میں ا یک ہی صحابی حضور کے ہم عمر تھے ، یعنی عَمّار بن یاسر رضی اللہ عنہ ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :79 متن میں فَمَآ اٰمَنَ لِمُوْسیٰ کے الفاظ ہیں ۔ اس سے بعض لوگوں کو شبہ ہوا کہ شاید بنی اسرائیل سب کے سب کافر تھے اور ابتداء میں ان میں سے صرف چند آدمی ایمان لائے ۔ لیکن ایمان کے ساتھ جب لام کا صلہ آتا ہے تو وہ بالعموم اطاعت و انقیاد کے معنی دیتا ہے ، یعنی کسی کی بات ماننے اور اس کے کہے پر چلنا ۔ پس دراصل ان الفاظ کا مفہوم یہ ہے کہ چند نوجوانوں کو چھوڑ کر بنی اسرائیل کی پوری قوم میں سے کوئی بھی اس بات پر آمادہ نہ ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنا رہبر و پیشوا مان کر ان کی پیروی اختیار کر لیتا اور اس دعوت اسلامی کے کام میں ان کا ساتھ دیتا ۔ پھر بعد کے فقرے نے اس بات کو واضح کر دیا کہ ان کے اس طرز عمل کی اصل وجہ یہ نہ تھی کہ انہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے صادق اور ان کی دعوت کے حق ہونے میں کوئی شک تھا ، بلکہ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ اور خصوصًا ان کے اکابر و اشراف ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ساتھ دے کر اپنے آپ کو فرعون کی سخت گیری کے خطرے میں ڈالنے کے لیے تیار نہ تھے ۔ اگرچہ یہ لوگ نسل اور مذہبی دونوں حیثیتوں سے ابراہیم ، اسحاق ، یعقوب اور یوسف علیہم السلام کے امتی تھے اور اس بنا پر ظاہر ہے کہ سب مسلمان تھے ، لیکن ایک مدت دراز کے اخلاقی انحطاط نے اور اس پست ہمتی نے جو زیردستی سے پیدا ہوئی تھی ، ان میں اتنا بل بوتا باقی نہ چھوڑا تھا کہ کفر و ضلالت کی فرمانروائی کے مقابلہ میں ایمان و ہدایت کا علَم لے کر خود اٹھتے ، یا جو اٹھا تھا اس کا ساتھ دیتے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کی اس کشمکش میں عام اسرائیلیوں کا طرز عمل کیا تھا ، اس کا اندازہ بائیبل کی اس عبارت سے ہو سکتا ہے: ” جب وہ فرعون کے پاس سے نکلے آرہے تھے تو ان کو موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام ملاقات کے لیے راستہ پر کھڑے ملے ۔ تب انہوں نے ان سے کہا کہ خداوند ہی دیکھے اور تمہارا انصاف کرے ، تم نے تو ہم کو فرعون اور اس کے خادموں کی نگاہ میں ایسا گھنونا کیا ہے کہ ہمارے قتل کے لیے ان کے ہاتھ میں تلوار دے دی ہے“ ۔ ( خروج ٦ : ۲۰ – ۲۱ ) تَلمُود میں لکھا ہے کہ بنی اسرائیل موسیٰ اور ہارون علیہما السلام سے کہتے تھے: ”ہماری مثال تو ایسی ہے جیسے ایک بھیڑیے نے بکری کو پکڑا اور چرواہے نے آکر اس کو بچانے کی کوشش کی اور دونوں کی کشمکش میں بکری کے ٹکڑے ہو گئے ۔ بس اسی طرح تمہاری اور فرعون کی کھینچ تان میں ہمارا کام تمام ہو کر رہے گا “ ۔ انہی باتوں کی طرف سورہ اعراف میں بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ اُوْ ذِیْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْ تِیَنَا وَمِنْم بَعْدِ مَا جِئْتَنَا ( آیت ۱۲ ) ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :80 متن میں لفظ مُسْرِفِیْنَ استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں حد سے تجاوز کرنے والا ۔ مگر اس لفظی ترجمے سے اس کی اصل روح نمایاں نہیں ہوتی ۔ مسرفین سے مراد دراصل وہ لوگ ہیں جو اپنے مطلب کے لیے کسی برے سے برے طریقے کو بھی اختیار کرنے میں تامل نہیں کرتے ۔ کسی ظلم اور کسی بداخلاقی اور کسی وحشت و بربریت کے ارتکاب سے نہیں چوکتے ۔ اپنی خواہشات کے پیچھے ہر انتہا تک جا سکتے ہیں ۔ ان کے لیے کوئی حد نہیں جس پر جا کر وہ رک جائیں ۔
بزدلی ایمان کے درمیان دیوار بن گئی ان زبردست روشن دلیلوں کے اور معجزوں کے باوجود حضرت موسیٰ علیہ السلام پر بہت کم فرعونی ایمان لا سکے ۔ کیونکہ ان کے دل میں فرعون کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی ۔ یہ خبیث رعب دبدبہ والا بھی تھا اور ترقی پر بھی تھا ۔ حق ظاہر ہو گیا تھا لیکن کسی کو اس کی مخالفت کی جرت نہ تھی ہر ایک کا خوف تھا کہ اگر آج میں ایمان لے آیا تو کل اس کی سخت سزاؤں سے مجبور ہو کر دین حق چھوڑنا پڑے گا ۔ پس بہت سے ایسے جانباز موحد جنہوں نے اس کی سلطنت اور سزا کی کوئی پرواہ نہ کی اور حق کے سامنے سر جھکا دیا ۔ ان میں خصوصیت سے قابل ذکر فرعون کی بیوی تھی اس کی آل کا ایک اور شخص تھا ایک جو فرعون کا خزانچی تھا ۔ اس کی بیوہ تھی وغیرہ رضی اللہ عنہم اجمعین ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد اس سے حضرت موسیٰ پر بنی اسرائیل کی تھوڑی سی تعداد کا ایمان لانا ہے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ ذریت سے مراد قلیل ہے یعنی بہت کم لوگ ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اولاد بھی مراد ہے ۔ یعنی جب حضرت موسیٰ نبی بن کر آئے اس وقت جو لوگ ہیں ان کی موت کے بعد ان کی اولاد میں سے کچھ لوگ ایمان لائے ۔ امام ابن جریر تو قول مجاہد کو پسند فرماتے ہیں کہ قومہ میں ضمیر کا مرجع حضرت موسیٰ ہیں کیونکہ یہی نام اس سے قریب ہے ۔ لیکن یہ محل نظر ہے کیونکہ ذریت کے لفظ کا تقاضا جوان اور کم عمر لوگ ہیں اور بنو اسرائیل تو سب کے سب مومن تھے جیسا کہ مشہور ہے یہ تو حضرت موسیٰ کے آنے کی خوشیاں منا رہے تھے ان کی کتابوں میں موجود تھا کہ اس طرح نبی اللہ آئیں گے اور ان کے ہاتھوں انہیں فرعون کی غلامی کی ذلت سے نجات ملے گی ان کی کتابوں کی یہی بات تو فرعون کے ہوش و حواس گم کئے ہوئی تھی جس کی وجہ سے اس نے حضرت موسیٰ کی دشمنی پر کمر کس لی تھی اور آپ کی نبوت کے ظاہر ہو نے سے پہلے اور آپ کے آنے سے پہلے اور آپ کے آجانے کے بعد ہم تو اس کے ہاتھوں بہت ہی تنگ کئے گئے ہیں ۔ آپ نے انہیں تسلی دی کہ جلدی نہ کرو ۔ اللہ تمہارے دشمن کا ناس کرے گا ، تمہیں ملک کا مالک بنائے گا پھر دیکھے گا کہ تم کیا کرتے ہو؟ پس یہ تو سمجھ میں نہیں آتا کہ اس آیت سے مراد قوم موسیٰ کی نئی نسل ہو ۔ اور یہ کہ بنو اسرائیل میں سے سوائے قارون کے اور کوئی دین کا چھوڑنے والا ایسا نہ تھا جس کے فتنے میں پڑ جانے کا خوف ہو ۔ قارون گو قوم موسیٰ میں سے تھا لیکن وہ باغی تھا فرعون کا دوست تھا ۔ اس کے حاشیہ نشینوں میں تھا ، اس سے گہرے تعلق رکھتا تھا ۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ ملھم میں ضمیر فرعون کی طرف عائد ہے اور بطور اس کے تابعداری کرنے والوں کی زیادتی کے ضمیر جمع کی لائی گئی ہے ۔ یا یہ کہ فرعون سے پہلے لفظ ال جو مضاف تھا محذوف کر دیا گیا ہے ۔ اور مضاف الیہ اس کے قائم مقام رکھ دیا ہے ۔ ان کا قول بھی بہت دور کا ہے ۔ گو امام ابن جریر نے بعض نحویوں سے بھی ان دونوں اقوال کی حکایت کی ہے اور اس سے اگلی آیت جو آ رہی ہے وہ بھی دلالت کرتی ہے کہ بنی اسرائیل سب مومن تھے ۔