Surah

Information

Surah # 10 | Verses: 109 | Ruku: 11 | Sajdah: 0 | Chronological # 51 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 40, 94, 95, 96, from Madina
فَقَالُوۡا عَلَى اللّٰهِ تَوَكَّلۡنَا‌ ۚ رَبَّنَا لَا تَجۡعَلۡنَا فِتۡنَةً لِّـلۡقَوۡمِ الظّٰلِمِيۡنَۙ‏ ﴿85﴾
انہوں نے عرض کیا کہ ہم نے اللہ ہی پر توکل کیا ، اے ہمارے پروردگار! ہم کو ان ظالموں کیلئے فتنہ نہ بنا ۔
فقالوا على الله توكلنا ربنا لا تجعلنا فتنة للقوم الظلمين
So they said, "Upon Allah do we rely. Our Lord, make us not [objects of] trial for the wrongdoing people
Unhon ney arz kiya kay hum ney Allah hi per tawakkal kiya. Aey humaray perwerdigar! Hum ko inn zalimon kay liye fitna na bana.
اس پر انہوں نے کہا : اللہ ہی پر ہم نے بھروسہ کرلیا ، ہے ، اے ہمارے پروردگار ہمیں ان ظالم لوگوں کے ہاتھوں آزمائش میں نہ ڈالیے ۔
بولے ہم نے اللہ پر بھروسہ کیا ۔ الٰہی ہم کو ظالم لوگوں کے لیے آزمائش نہ بنا ( ف۱۸۱ )
انہوں نے جواب دیا 82 ہم نے اللہ ہی پر بھروسہ کیا ، اے ہمارے ربّ ، ہمیں ظالم لوگوں کے لیے فتنہ نہ بنا 83
تو انہوں نے عرض کیا: ہم نے اللہ ہی پر توکل کیا ہے ، اے ہمارے رب! تو ہمیں ظالم لوگوں کے لئے نشانہء ستم نہ بنا
سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :82 یہ جواب ان نوجوانوں کا تھا جو موسی علیہ السلام کا ساتھ دینے پر آمادہ ہوئے تھے یہاں قالوا کی ضمیر قوم کی طرف نہیں بلکہ ذریہ کی طرف پھر رہی ہے جیسا کہ سیاق کلام سے خود ظاہر ہے ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :83 ان صادق الایمان نوجوانوں کی یہ دعا کہ ہمیں ظالم لوگوں کے لیے فتنہ نہ بنا ، بڑے وسیع مفہوم پر حاوی ہے ۔ گمراہی کے عالم غلبہ وتسلط کی حالت میں جب کچھ لوگ قیام حق کے لیے اٹھتے ہیں ، تو انہیں مختلف قسم کے ظالموں سے سابقہ پیش آتا ہے ۔ ایک طرف باطل کے اصلی علمبردار ہوتے ہیں جو پوری طاقت سے ان داعیان حق کو کچل دینا چاہتے ہیں ۔ دوسری طرف نام نہاد حق پرستوں کا ایک اچھا خاصا گروہ ہوتا ہے جو حق کو ماننے کا دعوی تو کرتا ہے مگر باطل کی قاہرانہ فرماں روائی کے مقابلہ میں اقامت حق کی سعی کو غیر واجب ، لا حاصل ، یا حماقت سمجھتا ہے اور اس کی انتہائی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنی خیانت کو جو وہ حق کے ساتھ کر رہا ہے کسی نہ کسی طرح درست ثابت کر دے اور ان لوگوں کو الٹا برسر باطل ثابت کر کے اپنے ضمیر کی اس خلش کو مٹائے جو ان کی دعوت اقامت دین حق سے اس کے دل کی گہرائیوں میں جلی یا خفی طور پر پیدا ہوتی ہے ۔ تیسری طرف عامۃ الناس ہوتے ہیں جو الگ کھڑے تماشا دیکھ رہے ہوتے ہیں اور ان کا ووٹ آخر کار اسی طاقت کے حق میں پڑا کرتا ہے جس کا پلہ بھاری رہے ، خواہ وہ طاقت حق ہو یا باطل ۔ اس صورت حال میں ان داعیان حق کی ہر ناکامی ، ہر مصیبت ، ہر غلطی ، ہر کمزوری اور ہر خامی ان مختلف گروہوں کے لیے مختلف طور پر فتنہ بن جاتی ہے ۔ وہ کچل ڈالے جائیں یا شکست کھا جائیں تو پہلا گروہ کہتا ہے کہ حق ہمارے ساتھ تھا نہ کہ ان بے وقوفوں کے ساتھ جو ناکام ہوگئے ۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ دیکھ لیا! ہم نہ کہتے تھے کہ ایسی بڑی بڑی طاقتوں سے ٹکرانے کا حاصل چند قیمتی جانوں کی ہلاکت کے سوا کچھ نہ ہوگا ، اور آخرکار اس تہلکہ میں اپنے آپ کو ڈالنے کا ہمیں شریعت نے مکلف ہی کب کیا تھا ، دین کے کم سے کم ضروری مطالبات تو ان عقائد و اعمال سے پورے ہو ہی رہے تھے جن کی اجازت فراعنہ وقت نے دے رکھی تھی ۔ تیسرا گروہ فیصلہ کر دیتا ہے کہ حق وہی ہے جو غالب رہا ۔ اسی طرح اگر وہ اپنی دعوت کے کام میں کوئی غلطی کر جائیں یا مصائب و مشکلات کی سہار نہ ہونے کی وجہ سے کمزوری دکھا جائیں ، یا ان سے ، بلکہ ان کے کسی ایک فرد سے بھی کسی اخلاقی عیب کا صدور ہو جائے ، تو بہت سے لوگوں کے لیے باطل سے چمٹے رہنے کے ہزار بہانے نکل آتے ہیں اور پھر اس دعوت کی ناکامی کے بعد مدت ہائے دراز تک کسی دوسری دعوت حق کے اٹھنے کا امکان باقی نہیں رہتا ۔ پس یہ بڑی معنی خیز دعا تھی جو موسی علیہ السلام کے ان ساتھیوں نے مانگی تھی کہ خدایا ہم پر ایسا فضل فرما کہ ہم ظالموں کے لیے فتنہ بن کر نہ رہ جائیں ۔ یعنی ہم کو غلطیوں سے خامیوں سے کمزوریوں سے بچا اور ہماری سعی کو دنیا میں بار آور کر دے ، تاکہ ہمارا وجود تیری خلق کے لیے سبب خیر بنے نہ کہ ظالموں کے لیے وسیلہ شر ۔