Surah

Information

Surah # 10 | Verses: 109 | Ruku: 11 | Sajdah: 0 | Chronological # 51 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 40, 94, 95, 96, from Madina
وَلَوۡ شَآءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ مَنۡ فِى الۡاَرۡضِ كُلُّهُمۡ جَمِيۡعًا‌ ؕ اَفَاَنۡتَ تُكۡرِهُ النَّاسَ حَتّٰى يَكُوۡنُوۡا مُؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿99﴾
اور اگر آپ کا رب چاہتا تو تمام روئے زمین کے لوگ سب کے سب ایمان لے آتے تو کیا آپ لوگوں پر زبردستی کر سکتے ہیں یہاں تک کہ وہ مومن ہی ہوجائیں ۔
و لو شاء ربك لامن من في الارض كلهم جميعا افانت تكره الناس حتى يكونوا مؤمنين
And had your Lord willed, those on earth would have believed - all of them entirely. Then, [O Muhammad], would you compel the people in order that they become believers?
Aur agar aap ka rab chahata to tamam roy-e-zamin kay log sab kay sab eman latay to kiya aap logon per zabardasti ker saktay hain yahan tak kay woh momin hi ho jayen.
اور اگر اللہ چاہتا تو روئے زمین پر بسنے والے سب کے سب ایمان لے آتے ( ٤٠ ) تو کیا تم لوگوں پر زبردستی کرو گے تاکہ وہ سب مومن بن جائیں؟
اور اگر تمہارا رب چاہتا زمین میں جتنے ہیں سب کے سب ایمان لے آتے ( ف۲۰۸ ) تو کیا تم لوگوں کو زبردستی کرو گے یہاں تک کہ مسلمان ہوجائیں ( ف۲۰۹ )
اگر تیرے رب کی مشیّت یہ ہوتی ﴿ کہ زمین میں سب مومن و فرمانبردار ہی ہوں﴾ تو سارے اہل زمین ایمان لے آئے ہوتے ۔ 101 پھر کیا تو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مومن ہو جائیں؟ 102
اور اگر آپ کا رب چاہتا تو ضرور سب کے سب لوگ جو زمین میں آباد ہیں ایمان لے آتے ، ( جب رب نے انہیں جبراً مومن نہیں بنایا ) تو کیا آپ لوگوں پر جبر کریں گے یہاں تک کہ وہ مومن ہوجائیں
سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :101 یہ لوگ ایسے تھے جن کا معاملہ مشکوک تھا ۔ نہ ان کے منافق ہونے کا فیصلہ کیا جا سکتا تھا نہ گناہگار مومن ہونے کا ان دونوں چیزوں کی علامات ابھی پوری طرح نہ ابھری تھیں ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے معاملہ کو ملتوی رکھا ۔ نہ اس معنی میں کہ فی الواقع خدا کے سامنے معاملہ مشکوک تھا ، بلکہ اس معنی میں کہ مسلمانوں کو کسی شخص یا گروہ کے معاملہ میں اپنا طرزِ عمل اس وقت تک متعین نہ کرنا چاہیے کہ جب تک اس کی پوزیشن ایسی علامات سے واضح نہ ہو جائے جو علم غیب سے نہیں بلکہ حس اور عقل سے جانچی جا سکتی ہوں ۔
اللہ کی حکمت سے کوئی آگاہ نہیں اللہ کی حکمت ہے کہ کوئی ایمان لائے اور کسی کو ایمان نصیب ہی نہ ہو ۔ ورنہ اگر اللہ کی مشیت ہوتی تو تمام انسان ایمان دار ہوجاتے ۔ اگر وہ چاہتا تو سب کو اسی دین پر کار بند کر دیتا ۔ لوگوں میں اختلاف تو باقی ہی نہ رہے ۔ سوائے ان کے جن پر رب کا رحم ہو ، انہیں اسی لیے پیدا کیا ہے ، تیرے رب کا فرمان حق ہے کہ جہنم انسانوں اور جنوں سے پر ہوگی ۔ کیا ایماندار ناامید نہیں ہوگئے؟ یہ کہ اللہ اگر چاہتا تو تمام لوگوں کو ہدایت کرسکتا تھا ۔ یہ تو ناممکن ہے کہ تو ایمان ان کے دلوں کے ساتھ چپکا دے ، یہ تیرے اختیار سے باہر ہے ۔ ہدایت و ضلالت اللہ کے ہاتھ ہے ۔ تو ان پر افسوس اور رنج و غم نہ کر اگر یہ ایمان نہ لائیں تو تو اپنے آپ کو ان کے پیچھے ہلاک کردے گا ؟ تو جسے چاہے راہ راست پر لا نہیں سکتا ۔ یہ تو اللہ کے قبضے میں ہے ، تجھ پر تو صرف پہنچا دینا ہے حساب ہم خود لے لیں گے ، تو تو نصیحت کر دینے والا ہے ۔ ان پر داروغہ نہیں ۔ جسے چاہے راہ راست دکھائے جسے چاہے گمراہ کر دے ۔ اس کا علم اس کی حکمت اس کا عدل اسی کے ساتھ ہے ۔ اس کی مشیت کے بغیر کوئی بھی مومن نہیں ہو سکتا ۔ وہ ان کو ایمان سے خالی ، ان کے دلوں کو نجس اور گندہ کر دیتا ہے جو اللہ کی قدرت ، اللہ کی برھان ، اللہ کے احکام کی آیتوں میں غور فکر نہیں کرتے ۔ عقل و سمجھ سے کام نہیں لیتے ، وہ عادل ہے ، حکیم ہے ، اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ۔