Surah

Information

Surah # 11 | Verses: 123 | Ruku: 10 | Sajdah: 0 | Chronological # 52 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 12, 17, 114, from Madina
وَّاَنِ اسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّكُمۡ ثُمَّ تُوۡبُوۡۤا اِلَيۡهِ يُمَتِّعۡكُمۡ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى وَ يُؤۡتِ كُلَّ ذِىۡ فَضۡلٍ فَضۡلَهٗ ‌ؕ وَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنِّىۡۤ اَخَافُ عَلَيۡكُمۡ عَذَابَ يَوۡمٍ كَبِيۡرٍ‏ ﴿3﴾
اور یہ کہ تم لوگ اپنے گناہ اپنے رب سے معاف کراؤ پھر اسی کی طرف متوجہ رہو ، وہ تم کو وقت مقرر تک اچھا سامان ( زندگی ) دے گا اور ہر زیادہ عمل کرنے والے کو زیادہ ثواب دے گا ۔ اور اگر تم لوگ اعراض کرتے رہے تو مجھ کو تمہارے لئے ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ ہے ۔
و ان استغفروا ربكم ثم توبوا اليه يمتعكم متاعا حسنا الى اجل مسمى و يؤت كل ذي فضل فضله و ان تولوا فاني اخاف عليكم عذاب يوم كبير
And [saying], "Seek forgiveness of your Lord and repent to Him, [and] He will let you enjoy a good provision for a specified term and give every doer of favor his favor. But if you turn away, then indeed, I fear for you the punishment of a great Day.
Aur yeh kay tum apney gunah apney rab say moaf kerao phir ussi ki taraf mutawajja raho woh tum ko waqt-e-muqarrara tak acha saman ( zindagi ) dey ga aur her ziyada amal kerney walay ko ziyada sawab dey ga. Aur agar tum log aeyraaz kertay rahey to mujh ko tumharay liye aik baray din kay azab ka andesha hai.
اور یہ ( ہدایت دیتا ) کہ : اپنے پروردگار سے گناہوں کی معافی مانگو ، پھر اس کی طرف رجوع کرو ۔ ( ٣ ) وہ تمہیں ایک مقرر وقت تک ( زندگی سے ) اچھا لطف اٹھانے کا موقع دے گا ، اور ہر اس شخص کو جس نے زیادہ عمل کیا ہوگا ، اپنی طرف سے زیادہ اجر دے گا ۔ اور اگر تم نے منہ موڑا تو مجھے تم پر ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ ہے ۔
اور یہ کہ اپنے رب سے معافی مانگو پھر اس کی طرف توبہ کرو تمہیں بہت اچھا برتنا ( فائدہ اٹھانا ) دے گا ( ف٤ ) ایک ٹھہرائے وعدہ تک اور ہر فضیلت والے ( ف۵ ) کو اس کا فضل پہنچائے گا ( ف٦ ) اور اگر منہ پھیرو تو میں تم پر بڑے دن ( ف۷ ) کے عذاب کا خوف کرتا ہوں ،
اور یہ کہ تم اپنے رب سے معافی چاہو اور اس کی طرف پلٹ آؤ تو وہ ایک مدّتِ خاص تک تم کو اچھا سامانِ زندگی دے گا 3 اور ہر صاحب فضل کو اس کا فضل عطا کرے گا ۔ 4 لیکن اگر تم منہ پھیرتے ہو تو میں تمہارے حق میں ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں ۔
اور یہ کہ تم اپنے رب سے مغفرت طلب کرو پھر تم اس کے حضور ( صدقِ دل سے ) توبہ کرو وہ تمہیں وقتِ معین تک اچھی متاع سے لطف اندوز رکھے گا اور ہر فضیلت والے کو اس کی فضیلت کی جزا دے گا ( یعنی اس کے اَعمال و ریاضت کی کثرت کے مطابق اَجر و درجات عطا فرمائے گا ) ، اور اگر تم نے روگردانی کی تو میں تم پر بڑے دن کے عذاب کا خوف رکھتا ہوں
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :3 یعنی دنیا میں تمہارے ٹھیرنے کے لیے جو وقت مقرر ہے اس وقت تک وہ تم کو بری طرح نہیں بلکہ اچھی طرح رکھے گا ۔ اس کی نعمتیں تم پر برسیں گی ۔ اس کی برکتوں سے سرفراز ہوگے ۔ خوش حال و فارغ البال رہو گے ۔ زندگی میں امن اور چین نصیب ہوگا ۔ ذلت وخواری کے ساتھ نہیں بلکہ عزت و شرف کے ساتھ جیو گے ۔ یہی مضمون دوسرے موقع پر اس طرح ارشاد ہو ا ہے کہ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً ( النحل ۔ آیت ۹۷ ) ” جو شخص بھی ایمان کے ساتھ نیک عمل کرے گا ، خواہ مرد ہو یا عورت ، ہم اس کو پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے“ ۔ اس سے لوگوں کی اس غلط فہمی کو رفع کرنا مقصود ہے جو شیطان نے ہر نادان دنیا پرست آدمی کو کان میں پھونک رکھی ہے کہ خدا ترسی اور راستبازی اور احساس ذمہ داری کا طریقہ اختیار کرنے سے آدمی کی آخرت بنتی ہو تو بنتی ہو ، مگر دنیا ضرور بگڑ جاتی ہے ۔ اور یہ کہ ایسے لوگوں کے لیے دنیا میں فاقہ مستی و خستہ حالی کے سوا کوئی زندگی نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس کی تردید میں فرماتا ہے کہ اس راہ راست کو اختیار کرنے سے تمہاری صرف آخرت ہی نہیں بلکہ دنیا بھی بنے گی ۔ آخرت کی طرح اس دنیا کی حقیقی عزت و کامیابی بھی ایسے ہی لوگوں کے لیے ہے جو سچی خدا پرستی کے ساتھ صالح زندگی بسر کریں ۔ جن کے اخلاق پاکیزہ ہوں ، جن کے معاملات درست ہوں ، جن پر ہر معاملہ میں بھروسہ کیا جا سکے ، جن سے ہر شخص بھلائی کا متوقع ہو ، جن سے کسی انسان کو یا کسی قوم کو شر کا اندیشہ نہ ہو ۔ اس کے علاوہ مَتَاعٌ حَسَنٌ کے الفاظ میں ایک اور پہلو ہے جو نگاہ سے اوجھل نہ رہ جانا چاہیے ۔ دنیا کا سامان زیست قرآن مجید کی رو سے دو قسم کا ہے ۔ ایک وہ سروسامان ہے جو خدا سے پھرے ہوئے لوگوں کو فتنے میں ڈالنے کے لیے دیا جاتا ہے اور جس سے دھوکا کھا کر ایسے لوگ اپنے آپ کو دنیا پرستی و خدا فراموشی میں اور زیادہ گم کر دیتے ہیں ۔ یہ بظاہر تو نعمت ہے مگر بباطن خدا کی پھٹکار اور اس کے عذاب کا پیش خیمہ ہے ۔ قرآن مجید اس کو مَتَاعٌ غُرُوْرٌ کے الفاظ سے یاد کرتا ہے ۔ دوسرا وہ سروسامان ہے جس سے انسان خوشحال اور قوی بازو ہو کر اپنے خدا کا اور زیادہ شکر گزار بنتا ہے ، خدا اور اس کے بندوں کے اور خود اپنے نفس کے حقوق زیادہ اچھی طرح ادا کرتا ہے ، خدا کے دیے ہوئے وسائل سے طاقت پا کر دنیا میں خیر و صلاح کی ترقی اور شروفساد کے استیصال کے لیے زیادہ کارگر کوشش کرنے لگتا ہے ۔ یہ قرآن کی زبان میں مَتَاعٌ حَسَنٌ ہے ، یعنی ایسا اچھا سامان زندگی جو محض عیش دنیا ہی پر ختم نہیں ہو جاتا بلکہ نتیجہ میں عیش آخرت کا بھی ذریعہ بنتا ہے ۔ سورة هُوْد حاشیہ نمبر :4 یعنی جو شخص اخلاق و اعمال میں جتنا بھی آگے بڑھے گا اللہ اس کو اتنا ہی بڑا درجہ عطا کرے گا ۔ اللہ کے ہاں کسی کی خوبی پر پانی نہیں پھیرا جاتا ۔ اس کے ہاں جس طرح برائی کی قدر نہیں ہے اسی طرح بھلائی کی ناقدری بھی نہیں ہے ۔ اس کی سلطنت کا دستور یہ نہیں ہے کہ اسپ تازی شدہ مجروح بزیر پالاں طوق زریں ہمہ در گردن خرمی بینم! وہاں تو جو شخص بھی اپنی سیرت و کردار سے اپنے آپ کو جس فضیلت کا مستحق ثابت کر دے گا وہ فضیلت اس کو ضرور دی جائےگی ۔