Surah

Information

Surah # 11 | Verses: 123 | Ruku: 10 | Sajdah: 0 | Chronological # 52 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 12, 17, 114, from Madina
وَلَٮِٕنۡ اَذَقۡنٰهُ نَـعۡمَآءَ بَعۡدَ ضَرَّآءَ مَسَّتۡهُ لَيَـقُوۡلَنَّ ذَهَبَ السَّيِّاٰتُ عَنِّىۡ‌ ؕ اِنَّهٗ لَـفَرِحٌ فَخُوۡرٌۙ‏ ﴿10﴾
اور اگر ہم اسے کوئی نعمت چکھائیں اس سختی کے بعد جو اسے پہنچ چکی تھی تو وہ کہنے لگتا ہے کہ بس برائیاں مجھ سے جاتی رہیں یقیناً وہ بڑا ہی اترانے والا شیخی خور ہے ۔
و لىن اذقنه نعماء بعد ضراء مسته ليقولن ذهب السيات عني انه لفرح فخور
But if We give him a taste of favor after hardship has touched him, he will surely say, "Bad times have left me." Indeed, he is exultant and boastful -
Aur agar hum ussay koi nemat chakhayen iss sakhti kay baad jo ussay phonch chuki thi wo woh kehney lagta hai kay bus buraiyan mujh say jati rahin yaqeenan woh bara hi itraney wala shekhi khor hai.
اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچنے کے بعد ہم اسے نعمتوں کا مزہ چکھا دیں تو وہ کہتا ہے کہ ساری برائیاں مجھ سے دور ہوگئیں ۔ ( اس وقت ) وہ اترا کر شیخیاں بگھارنے لگتا ہے ۔
اور اگر ہم اسے نعمت کا مزہ دیں اس مصیبت کے بعد جس اسے پہنچی تو ضرور کہے گا کہ برائیاں مجھ سے دور ہوئیں بیشک وہ خوش ہونے والا بڑائی مارنے والا ہے ( ف۲٤ )
اور اگر اس مصیبت کے بعد جو اس پر آئی تھی ہم اسے نعمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو کہتا ہے میرے تو سارے دِلَدّر پار ہو گئے ، پھر وہ پھولا نہیں سماتا اور اکڑنے لگتا ہے ۔ 10
اور اگر ہم اسے ( کوئی ) نعمت چکھاتے ہیں اس تکلیف کے بعد جو اسے پہنچ چکی تھی تو ضرور کہہ اٹھتا ہے کہ مجھ سے ساری تکلیفیں جاتی رہیں ، بیشک وہ بڑا خوش ہونے والا ( اور ) فخر کرنے والا ( بن جاتا ) ہے
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :10 یہ انسان کے چھچورے پن ، سطح بینی ، اور قلت تدبر کا حال ہے جس کا مشاہدہ ہر وقت زندگی میں ہوتا رہتا ہے اور جس کو عام طور پر لوگ اپنے نفس کا حساب لے کر خود اپنے اندر بھی محسوس کر سکتے ہیں ۔ آج خوشحال اور زور آور ہیں تو اکڑ رہے ہیں اور فخر کر رہے ہیں ۔ ساون کے اندھے کی طرح ہر طرف ہرا ہی ہرا نظر آرہا ہے اور خیال تک نہیں آتا کہ کبھی اس بہار پر خزاں بھی آسکتی ہے ۔ کل کسی مصیبت کے پھیر میں آگئے تو بلبلا اٹھے ، حسرت و یاس کی تصویر بن کر رہ گئے ، اور بہت تلملائے تو خدا کو گالیاں دے کر اور اس کی خدائی پر طعن کر کے غم غلط کر نے لگے ۔ پھر جب برا وقت گزر گیا اور بھلے دن آئے تو وہی اکڑ ، وہی ڈینگیں اور نعمت کے نشے میں وہی سرمستیاں پھر شروع ہو گئیں ۔ انسان کی اس ذلیل صفت کا یہاں کیاں ذکر ہو رہا ہے؟ اس کی غرض ایک نہایت لطیف انداز میں لوگوں کو اس بات پر متنبہ کرنا ہے کہ آج اطمینان کے ماحول میں جب ہمارا پیغبر خبردار کرتا ہے کہ خدا کی نافرمانیاں کرتے رہو گے تو تم پر عذاب آئے گا ، اور تم اس کی یہ بات سن کر ایک زور کا ٹھٹھا مار تے ہو ، اور کہتے ہو کہ ” دیوانے دیکھتا نہیں کہ ہم پر نعمتوں کی بارش ہو رہی ہے ، ہر طرف ہماری بڑائی کے پھریرے اڑ رہے ہیں ، اس وقت تجھے دن دہاڑے یہ ڈراؤنا خواب کیسے نظر آگیا کہ کوئی عذاب ہم پر ٹوٹ پڑنے والا ہے “ ، تو دراصل پیغمبر کی نصیحت کے جواب میں تمہارا یہ ٹھٹھا اسی ذلیل صفت کا ایک ذلیل تر مظاہرہ ہے ۔ خدا تو تمہاری گمراہیوں اور بدکاریوں کے باوجود محض اپنے رحم و کرم سے تمہاری سزا میں تاخیر کر رہا ہے تا کہ تم کسی طرح سنبھل جاؤ ، مگر تم اس مہلت کے زمانے میں یہ سوچ رہے ہو کہ ہماری خوش حالی کیسی پائیدار بنیادوں پر قائم ہے اور ہمارا یہ چمن کیسا سدا بہار ہے کہ اس پر خزاں آنے کا کوئی خطرہ ہی نہیں ۔