Surah

Information

Surah # 11 | Verses: 123 | Ruku: 10 | Sajdah: 0 | Chronological # 52 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 12, 17, 114, from Madina
مَنۡ كَانَ يُرِيۡدُ الۡحَيٰوةَ الدُّنۡيَا وَ زِيۡنَتَهَا نُوَفِّ اِلَيۡهِمۡ اَعۡمَالَهُمۡ فِيۡهَا وَهُمۡ فِيۡهَا لَا يُبۡخَسُوۡنَ‏ ﴿15﴾
جو شخص دنیا کی زندگی اور اس کی زینت پر فریفتہ ہوا چاہتا ہو ہم ایسوں کو ان کے کل اعمال ( کا بدلہ ) یہیں بھرپور پہنچا دیتے ہیں اور یہاں انہیں کوئی کمی نہیں کی جاتی ۔
من كان يريد الحيوة الدنيا و زينتها نوف اليهم اعمالهم فيها و هم فيها لا يبخسون
Whoever desires the life of this world and its adornments - We fully repay them for their deeds therein, and they therein will not be deprived.
Jo shaks duniya ki zindagi aur iss ki zeenat per farifta hua chahata ho hum aison ko unn kay kul aemaal ( ka badla ) yahin bharpoor phoncha detay hain aur yahan enhen koi kami nahi ki jati.
جو لوگ ( صرف ) دنیوی زندگی اور اس کی سج دھج چاہتے ہیں ، ہم ان کے اعمال کا پورا پورا صلہ اسی دنیا میں بھگتا دیں گے ، اور یہاں ان کے حق میں کوئی کمی نہیں ہوگی ۔ ( ١١ )
جو دنیا کی زندگی اور آرائش چاہتا ہو ( ف۳۳ ) ہم اس میں ان کا پورا پھل دے دیں گے ( ف۳٤ ) اور اس میں کمی نہ دیں گے ،
جو لوگ بس اِسی دنیا کی زندگی اور اس کی خوشنمائیوں کے طالب ہوتے ہیں 15 ان کی کار گزاری کا سارا پھل ہم یہیں ان کو دے دیتے ہیں اور اس میں ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی ۔
جو لوگ ( فقط ) دنیوی زندگی اور اس کی زینت ( و آرائش ) کے طالب ہیں ہم ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ اسی دنیا میں دے دیتے ہیں اور انہیں اس ( دنیا کے صلہ ) میں کوئی کمی نہیں دی جاتی
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :15 اس سلسلہ کلام میں یہ بات اس مناسبت سے فرمائی گئی ہے کہ قرآن کی دعوت کو جس قسم کے لوگ اس زمانہ میں رد کر رہے تھے اور آج بھی رد کر رہے ہیں وہ زیادہ تر وہی تھے اور ہیں ۔ جن کے دل و دماغ پر دنیا پرستی چھائی ہوئی ہے ۔ خدا کے پیغام کو رد کرنے کے لیے جو دلیل بازیاں وہ کرتے ہیں وہ سب تو بعد کی چیزیں ہیں ۔ پہلی چیز جو اس انکار کا اصل سبب ہے وہ ان کے نفس کا یہ فیصلہ ہے کہ دنیا اور اس کے مادی فائدوں سے بالاتر کوئی شئے قابل قدر نہیں ہے ، اور یہ کہ ان فائدوں سے متمع ہونے کے لیے ان کو پوری آزادی حاصل رہنی چاہیے ۔
ریا ہر نیکی کے لیے زہر ہے ابن عباس فرماتے ہیں ریاکاروں کی نیکیوں کا بدلہ سب کچھ اسی دنیا میں مل جاتا ہے ۔ ذرا سی بھی کمی نہیں ہوتی ۔ پس جو شخص دنیا میں دکھاوے کے لے نماز پڑھے ، روزے رکھے یا تہجد گزاری کرے ، اس کا اجر اسے دنیا میں ہی مل جاتا ہے ۔ آخرت میں وہ خالی ہاتھ اور محض بےعمل اُٹھتا ہے ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ وغیرہ کا بیان ہے یہ آیت یہود و نصاری کے حق میں اتری اور اور مجاہد کہتے ہیں ریاکاروں کے بارے میں اتری ہے ۔ الغرض کس کا جو قصد ہو اسی کے مطابق اس سے معاملہ ہوتا ہے دنیا طلبی کے لیے جو اعمال ہوں وہ آخرت میں کار آمد نہیں ہو سکتے ۔ مومن کی نیت اور مقصد چونکہ آخرت طلبی ہی ہوتا ہے اللہ اسے آخرت میں اس کے اعمال کا بہترین بدلہ عطا فرماتا ہے اور دنیا میں بھی اس کی نیکیاں کام آتی ہیں ایک مرفوع حدیث میں بھی یہی مضمون آیا ہے ۔ قرآن کریم کی ( مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّــلْنَا لَهٗ فِيْهَا مَا نَشَاۗءُ لِمَنْ نُّرِيْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَ ۚ يَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا 18؀ ) 17- الإسراء:18 ) میں بھی اسی کا تفصیلی بیان ہے کہ دنیا طلب لوگوں میں سے جسے ہم جس قدر چاہیں دے دیتے ہیں ۔ پھر اس کا ٹھکانا جہنم ہوتا ہے جہاں وہ ذلیل و خوار ہو کر داخل ہوتا ہے ۔ ہاں جس کی طلب آخرت ہو اور بالکل اسی کے مطابق اس کا عمل بھی ہو اور وہ ایمان دار بھی تو ایسے لوگوں کی کوشش کی قدر دانی کی جاتی ہے ۔ انہیں ہر ایک کو ہم تیرے رب کی عطا سے بڑھاتے رہتے ہیں تیرے پروردگار کا انعام کسی سے رکا ہوا نہیں ۔ تو خود دیکھ لے کہ کس طرح ہم نے ایک کو ایک پر فضیلت بخشی ہے ۔ آخرت کیا باعتبار درجوں کے اور کیا باعتبار فضیلت کے بہت ہی بڑی اور زبردست چیز ہے اور آیت میں ارشاد ہے ( مَنْ كَانَ يُرِيْدُ حَرْثَ الْاٰخِرَةِ نَزِدْ لَهٗ فِيْ حَرْثِهٖ ۚ وَمَنْ كَانَ يُرِيْدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤْتِهٖ مِنْهَا وَمَا لَهٗ فِي الْاٰخِرَةِ مِنْ نَّصِيْبٍ 20؀ ) 42- الشورى:20 ) جس کا ارادہ آخرت کی کھیتی کا ہو ہم خود اس میں اس کے لیے برکت عطا فرماتے ہیں اور جس کا ارادہ دنیا کی کھیتی کا ہو ہم گو اسے اس میں سے کچھ دے دیں لیکن آخرت میں وہ بےنصیب رہ جاتا ہے ۔