Surah

Information

Surah # 11 | Verses: 123 | Ruku: 10 | Sajdah: 0 | Chronological # 52 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 12, 17, 114, from Madina
اُولٰٓٮِٕكَ الَّذِيۡنَ لَـيۡسَ لَهُمۡ فِىۡ الۡاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ‌ ‌ۖ  وَحَبِطَ مَا صَنَعُوۡا فِيۡهَا وَبٰطِلٌ مَّا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿16﴾
ہاں یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں سوائے آگ کے اور کچھ نہیں اور جو کچھ انہوں نے یہاں کیا ہوگا وہاں سب اکارت ہے اور جو کچھان کے اعمال تھے سب برباد ہونے والے ہیں ۔
اولىك الذين ليس لهم في الاخرة الا النار و حبط ما صنعوا فيها و بطل ما كانوا يعملون
Those are the ones for whom there is not in the Hereafter but the Fire. And lost is what they did therein, and worthless is what they used to do.
Haan yehi woh log hain jin kay liye aakhirat mein siwaye aag kay aur kuch nahi aur jo kuch enhon ney yahan kiya hoga wahan sab ikarat hai aur jo kuch inn kay aemaal thay sab barbad honey walay hain.
یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں دوزخ کے سوا کچھ نہیں ہے ، اور جو کچھ کارگذاری انہوں نے کی تھی ، وہ آخرت میں بیکار ہوجائے گی ، اور جو عمل وہ کر رہے ہیں ، ( آخرت کے لحاظ سے ) کالعدم ہیں ۔
یہ ہیں وہ جن کے لیے آخرت میں کچھ نہیں مگر آگ اور اکارت گیا جو کچھ وہاں کرتے تھے اور نابود ہوئے جو ان کے عمل تھے ( ف۳۵ )
مگر آخرت میں ایسے لوگوں کے لیے آگ کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ 16 ﴿ وہاں معلوم ہو جائے گا کہ﴾ جو کچھ اِنہوں نے دنیا میں بنایا وہ سب ملیامیٹ ہوگیا اور اب ان کا سارا کیا دھرا محض باطل ہے ۔
یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں کچھ ( حصہ ) نہیں سوائے آتشِ ( دوزخ ) کے ، اور وہ سب ( اَعمال اپنے اُخروی اَجر کے حساب سے ) اکارت ہوگئے جو انہوں نے دنیا میں انجام دیئے تھے اور وہ ( سب کچھ ) باطل و بے کار ہوگیا جو وہ کرتے رہے تھے ( کیونکہ ان کا حساب پورے اجر کے ساتھ دنیا میں ہی چکا دیا گیا ہے اور آخرت کے لئے کچھ نہیں بچا )
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :16 یعنی جس کے پیش نظر محض دنیا اور اس کا فائدہ ہو ، وہ اپنی دنیا بنانے کی جیسی کوشش یہاں کرے گا ویسا ہی اس کا پھل اسے یہاں مل جائیگا ۔ لیکن جب کہ آخرت اس کے پیش نظر نہیں ہے اور اس کے لیے اس نے کوئی کوشش بھی نہیں کی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کی دنیا طلب مساعی کی بارآوری کا سلسلہ آخرت تک دراز ہو ۔ وہاں پھل پانے کا امکان تو صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب کہ دنیا می آدمی کی سعی ان کاموں کے لیے ہو جو آخرت میں بھی مانع ہوں ۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص چاہتا ہے کہ ایک شاندار مکان اسے رہنے کے لیے ملے اور وہ اس کے لیے ان تدابیر کو عمل میں لاتا ہے جن سے یہاں مکان بنا کرتے ہیں تو ضرور ایک عالی شان محل بن کر تیار ہو جائے گا اور اس کی کوئی اینٹ بھی محض اس بنا پر جمنے سے انکار نہ کرے گی کہ ایک کافر اسے جمانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ لیکن اس شخص کو اپنا یہ محل اور اس کا سارا سروسامان موت کی آخری ہچکی کے ساتھ ہی اس دنیا میں چھوڑ دینا پڑے گا اور اس کی کوئی چیز بھی وہ اپنے ساتھ دوسرے عالم میں نہ لے جا سکے گا ۔ اگر اس نے آخرت میں محل تعمیر کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا ہے تو کوئی معقول وجہ نہیں کہ اس کا یہ محل وہاں اس کے ساتھ متنقل ہو ۔ وہاں کوئی محل وہ پاسکتا ہے تو صرف اس صورت میں پاسکتا ہے جب کہ دنیا میں اس کی سعی ان کاموں میں ہو جن سے قانون الہٰی کے مطابق آخرت کا محل بنا کرتا ہے ۔ اب سوال کیا جا سکتا ہے کہ اس دلیل کا تقاضا تو صرف اتنا ہی ہے کہ وہاں اسے کوئی محل نہ ملے ۔ مگر یہ کیا بات ہے کہ محل کے بجائے وہاں اسے آگ ملے؟ اس کا جواب یہ ہے ( اور یہ قرآن ہی کا جواب ہے جو مختلف مواقع پر اس نے دیا ہے ) کہ جو شخص آخرت کو نظر انداز کر کے محض دنیا کے لیے کام کرتا ہے وہ لازما و فطرۃ ایسے طریقوں سے کام کرتا ہے جن سے آخرت میں محل کے بجائے آگ کا الاؤ تیار ہوتا ہے ۔ ( ملاحظہ ہو سورہ یونس ، حاشیہ نمبر ۱۲ ) ۔