Surah

Information

Surah # 11 | Verses: 123 | Ruku: 10 | Sajdah: 0 | Chronological # 52 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 12, 17, 114, from Madina
قَالَ يٰقَوۡمِ اَرَءَيۡتُمْ اِنۡ كُنۡتُ عَلٰى بَيِّنَةٍ مِّنۡ رَّبِّىۡ وَاٰتٰٮنِىۡ رَحۡمَةً مِّنۡ عِنۡدِهٖ فَعُمِّيَتۡ عَلَيۡكُمۡؕ اَنُلۡزِمُكُمُوۡهَا وَاَنۡـتُمۡ لَـهَا كٰرِهُوۡنَ‏ ﴿28﴾
نوح نے کہا میری قوم والو! مجھے بتاؤ تو اگر میں اپنے رب کی طرف سے کسی دلیل پر ہوا اور مجھے اس نے اپنے پاس کی کوئی رحمت عطا کی ہو پھر وہ تمہاری نگاہوں میں نہ آئی تو کیا یہ زبردستی میں اسے تمہارے گلے منڈھ دوں حالانکہ تم اس سے بیزار ہو ۔
قال يقوم ارءيتم ان كنت على بينة من ربي و اتىني رحمة من عنده فعميت عليكم انلزمكموها و انتم لها كرهون
He said, "O my people have you considered: if I should be upon clear evidence from my Lord while He has given me mercy from Himself but it has been made unapparent to you, should we force it upon you while you are averse to it?
Nooh ney kaha meri qom walo! Mujhay batao to agar mein apney rab ki taraf say kissi daleel per hua aur mujhay uss ney apney pass ki koi rehmat ata ki ho phir woh tumhari nigahon mein na aaee to kiya zabardasti mein ussay tumharay galay mandh doon halankay tum iss say bey zaar ho.
نوح نے کہا : اے میری قوم ! ذرا مجھے یہ بتاؤ کہ اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے آئی ہوئی ایک روشن ہدایت پر قائم ہوں ، اور اس نے مجھے خاص اپنے پاس سے ایک رحمت ( یعنی نبوت ) عطا فرمائی ہے ، پھر بھی وہ تمہیں سجھائی نہیں دے رہی ، تو کیا ہم اس کو تم پر زبردستی مسلط کردیں جبکہ تم اسے ناپسند کرتے ہو؟
بولا اے میری قوم! بھلا بتاؤ تو اگر میں اپنے رب کی طرف سے دلیل پر ہوں ( ف۵۹ ) اور اس نے مجھے اپنے پاس سے رحمت بخشی ( ف٦۰ ) تو تم اس سے اندھے رہے ، کیا ہم اسے تمہارے گلے چپیٹ ( چپکا ) دیں اور تم بیزار ہو ( ف٦۱ )
“ اس نے کہا ” اے برادرانِ قوم ، ذرا سوچو تو سہی کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک کھلی شہادت پر قائم تھا اور پھر اس نے مجھ کو اپنی خاص رحمت سے بھی نواز دیا 34 مگر وہ تم کو نظر نہ آئی تو آخر ہمارے پاس کیا ذریعہ ہے کہ تم ماننا نہ چاہو اور ہم زبردستی اس کو تمہارے سَر چپیک دیں؟
۔ ( نوح علیہ السلام نے ) کہا: اے میری قوم! بتاؤ تو سہی اگر میں اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل پر بھی ہوں اور اس نے مجھے اپنے حضور سے ( خاص ) رحمت بھی بخشی ہو مگر وہ تمہارے اوپر ( اندھوں کی طرح ) پوشیدہ کر دی گئی ہو ، تو کیا ہم اسے تم پر جبراً مسلّط کر سکتے ہیں درآنحالیکہ تم اسے ناپسند کرتے ہو
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :34 یہ وہی بات ہے جو ابھی پچھلے رکوع میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کہلوائی جا چکی ہے کہ پہلے میں خود آفاق و انفس میں خدا کی نشانیاں دیکھ کر توحید کی حقیقت تک پہنچ چکا تھا ، پھر خدا نے اپنی رحمت ( یعنی وحی ) سے مجھے نوازا اور ان حقیقتوں کا براہ راست علم مجھے بخش دیا جن پر میرا دل پہلے سے گواہی دے رہا تھا ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تمام پیغمبر نبوت سے قبل اپنے غور و فکر سے ایمان بالغیب حاصل کر چکے ہوتے تھے ، پھر اللہ تعالیٰ ان کو منصب نبوت عطا کرتے وقت ایمان بالشہادۃ عطا کرتا تھا ۔
بلااجرت خیر خواہ سے ناروا سلوک حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو جواب دیا کی سچی نوبت یقین اور واضح چیز میرے پاس تو میرے رب کی طرف سے آچکا ہے ۔ بہت بڑی رحمت و نعمت اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا فرمائی اور وہ تم سے پوشیدہ رہی تم اسے نہ دیکھ سکے نہ تم نے اس کی قدر دانی کی نہ اسے پہنچانا بلکہ بےسوچے سمجھے تم نے اسے دھکے دے دئیے اسے جھٹلانے لگ گئے اب بتاؤ کہ تمہاری اس ناپسندیدگی کی حالت میں میں کسیے یہ کر سکتا ہوں کہ تمہیں اس کا ماتحت بنا دوں؟