Surah

Information

Surah # 11 | Verses: 123 | Ruku: 10 | Sajdah: 0 | Chronological # 52 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 12, 17, 114, from Madina
وَيٰقَوۡمِ اسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّكُمۡ ثُمَّ تُوۡبُوۡۤا اِلَيۡهِ يُرۡسِلِ السَّمَآءَ عَلَيۡكُمۡ مِّدۡرَارًا وَّيَزِدۡكُمۡ قُوَّةً اِلٰى قُوَّتِكُمۡ وَلَا تَتَوَلَّوۡا مُجۡرِمِيۡنَ‏ ﴿52﴾
اے میری قوم کے لوگو! تم اپنے پالنے والے سے اپنی تقصیروں کی معافی طلب کرو اور اس کی جناب میں توبہ کرو ، تاکہ وہ برسنے والے بادل تم پر بھیج دے اور تمہاری طاقت پر اور طاقت قوت بڑھا دے اورتم جرم کرتے ہوئے روگردانی نہ کرو ۔
و يقوم استغفروا ربكم ثم توبوا اليه يرسل السماء عليكم مدرارا و يزدكم قوة الى قوتكم و لا تتولوا مجرمين
And O my people, ask forgiveness of your Lord and then repent to Him. He will send [rain from] the sky upon you in showers and increase you in strength [added] to your strength. And do not turn away, [being] criminals."
Aey meri qom kay logo! Tum apney paalney walay say apni taqseeron ki moafi talab kero aur uss ki janib mein toba kero takay woh barasney walay badal tum per bhej dey aur tumahri taqat per aur taqat qooat barha dey aur tum jurum kertay huye roo gardani na kero.
اے میری قوم ! اپنے پروردگار سے گناہوں کی معافی مانگو ، پھر اس کی طرف رجوع کرو ، وہ تم پر آسمان سے موسلا دھار بارشیں برسائے گا ، ( ٣٠ ) اور تمہاری موجودہ قوت میں مزید قوت کا اضافہ کرے گا ، اور مجرم بن کر منہ نہ موڑو ۔
اور اے میری قوم اپنے رب سے معافی چاہو ( ف۱۱٤ ) پھر اس کی طرف رجوع لاؤ تم پر زور کا پانی بھیجے گا ، اور تم میں جتنی قوت ہے اس سے زیادہ دے گا ( ف۱۱۵ ) اور جرم کرتے ہوئے روگردانی نہ کرو ( ف۱۱٦ )
اور اے میری قوم کے لوگو ، اپنے رب سے معافی چاہو ، پھر اس کی طرف پلٹو ، وہ تم پر آسمان کے دہانے کھول دے گا اور تمہاری موجودہ قوت پر مزید قوت کا اضافہ کرے گا ۔ 57 مجرموں کی طرح منہ نہ پھیرو ۔
اور اے لوگو! تم اپنے رب سے ( گناہوں کی ) بخشش مانگو پھر اس کی جناب میں ( صدقِ دل سے ) رجوع کرو ، وہ تم پر آسمان سے موسلادھار بارش بھیجے گا اور تمہاری قوت پر قوت بڑھائے گا اور تم مجرم بنتے ہوئے اس سے روگردانی نہ کرنا
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :57 یہ وہی بات ہے جو پہلے رکوع میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کہلوائی گئی تھی کہ ” اپنے رب سے معافی مانگو اور اس کی طرف پلٹ آؤ تو وہ تم کو اچھا سامان زندگی دے گا “ ۔ اس سے معلوم ہوا کہ آخرت ہی میں نہیں اس دنیا میں بھی قوموں کی قسمتوں کا اتار چڑھاؤ اخلاقی بنیادوں پر ہی ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس عالم پر جو فرمانروائی کر رہا ہے وہ اخلاقی اصولوں پر مبنی ہے نہ کہ ان طبعی اصولوں پر جو اخلاقی خیر و شر کے امتیاز سے خالی ہوں ۔ یہ بات کئی مقامات پر قرآن میں فرمائی گئی ہے کہ جب ایک قوم کے پاس نبی کے ذریعہ سے خدا کا پیغام پہنچتا ہے تو اس کی قسمت اس پیغام کے ساتھ معلق ہو جاتی ہے ۔ اگر وہ اسے قبول کر لیتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر اپنی نعمتوں اور برکتوں کے دروازے کھول دیتا ہے ۔ اگر رد کر دیتی ہے تو اسے تباہ کر ڈالا جاتا ہے ۔ یہ گویا ایک دفعہ ہے اس اخلاقی قانون کی جس پر اللہ تعالیٰ انسان کے ساتھ معاملہ کر رہا ہے ۔ اسی طرح اس قانون کی ایک دفعہ یہ بھی ہے کہ جو قوم دنیا کی خوشحالی سے فریب کھا کر ظلم و معصیت کی راہوں پر چل نکلتی ہے اس کا انجام بربادی ہے ۔ لیکن عین اس وقت جبکہ وہ اپنے اس برے انجام کی طرف بگ ٹُٹ چلی جا رہی ہو ، اگر وہ اپنی غلطی کو محسوس کر لے اور نافرمانی چھوڑ کر خدا کی بندگی کی طرف پلٹ آئے تو اس کی قسمت بدل جاتی ہے ، اس کی مہلت عمل میں اضافہ کر دیا جاتا ہے اور مستقبل میں اس کے لیے عذاب کے بجائے انعام ، ترقی اور سرفرازی کا فیصلہ لکھ دیا جاتا ہے ۔