Surah

Information

Surah # 11 | Verses: 123 | Ruku: 10 | Sajdah: 0 | Chronological # 52 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 12, 17, 114, from Madina
قَالُوۡا يٰصٰلِحُ قَدۡ كُنۡتَ فِيۡنَا مَرۡجُوًّا قَبۡلَ هٰذَآ‌ اَتَـنۡهٰٮنَاۤ اَنۡ نَّـعۡبُدَ مَا يَعۡبُدُ اٰبَآؤُنَا وَاِنَّنَا لَفِىۡ شَكٍّ مِّمَّا تَدۡعُوۡنَاۤ اِلَيۡهِ مُرِيۡبٍ‏ ﴿62﴾
انہوں نے کہا اے صالح! اس سے پہلے تو ہم تجھ سے بہت کچھ امیدیں لگائے ہوئے تھے ، کیا تو ہمیں ان کی عبادتوں سے روک رہا ہے جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے چلے آئے ، ہمیں تو اس دین میں حیران کن شک ہے جس کی طرف تو ہمیں بلا رہا ہے ۔
قالوا يصلح قد كنت فينا مرجوا قبل هذا اتنهىنا ان نعبد ما يعبد اباؤنا و اننا لفي شك مما تدعونا اليه مريب
They said, "O Salih, you were among us a man of promise before this. Do you forbid us to worship what our fathers worshipped? And indeed we are, about that to which you invite us, in disquieting doubt."
Unhon ney kaha aey saleh! Iss say pehlay to hum tujh say boht kuch umeeden lagaye huye thay kiya tu humen unn ki ibadaton say rok raha hai jinki ibadat humaray baap dada kertay chalay aaye humen to iss deen mein heyran kun shaq hai jiss ki taraf tu humen bula raha hai.
وہ کہنے لگے : اے صالح ! اس سے پہلے تو تم ہمارے درمیان اس طرح رہے ہو کہ تم سے بڑی امیدیں وابستہ تھیَ ( ٣٦ ) جن ( بتوں ) کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے آئے ہیں کیا تم ہمیں ان کی عبادت کرنے سے منع کرتے ہو؟ جس بات کی تم دعوت دے رہے ہو ، اس کے بارے میں تو ہمیں ایسا شک ہے جس نے ہمیں اضطراب میں ڈال دیا ہے ۔
بولے اے صالح! اس سے پہلے تو تم ہم میں ہونہار معلوم ہوتے تھے ( ف۱۳٦ ) کیا تم ہمیں اس سے منع کرتے ہو کہ اپنے باپ دادا کے معبودوں کو پوجیں اور بیشک جس بات کی طرف ہمیں بلاتے ہو ہم اس سے ایک بڑے دھوکا ڈالنے والے شک میں ہیں ،
انہوں نے کہا اے صالح ، اس سے پہلے تو ہمارے درمیان ایسا شخص تھا جس سے بڑی توقعات وابستہ تھیں ۔ 70 کیا تو ہمیں ان معبودوں کی پرستش سے روکنا چاہتا ہے جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے تھے؟ 71 تو جس طریقے کی طرف ہمیں بلا رہا ہے اس کے بارے میں ہم کو سخت شبہ ہے جس نے ہمیں خلجان میں ڈال رکھا ہے ۔ 72
وہ بولے: اے صالح! اس سے قبل ہماری قوم میں تم ہی امیدوں کا مرکز تھے ، کیا تم ہمیں ان ( بتوں ) کی پرستش کرنے سے روک رہے ہو جن کی ہمارے باپ دادا پرستش کرتے رہے ہیں؟ اور جس ( توحید ) کی طرف تم ہمیں بلا رہے ہو یقینًا ہم اس کے بارے میں بڑے اضطراب انگیز شک میں مبتلا ہیں
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :70 یعنی تمہاری ہوشمندی ، ذکاوت ، فراست ، سنجیدگی و متانت اور پروقار شخصیت کو دیکھ کر ہم یہ امیدیں لگائے بیٹھے تھے کہ بڑے آدمی بنو گے ۔ اپنی دنیا بھی خوب بناؤ گے اور ہمیں بھی دوسری قوموں اور قبیلوں کے مقابلے میں تمہارے تدبر سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملے گا ۔ مگر تم نے یہ توحید اور آخرت کا نیا راگ چھیڑ کر تو ہماری ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے ۔ یاد رہے کہ ایسے ہی کچھ خیالات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی آپ کے ہم قوموں میں پائے جاتے تھے ۔ وہ بھی نبوت سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہترین قابلیتوں کے معترف تھے اور اپنے نزدیک یہ سمجھتے تھے کہ یہ شخص ایک بہت بڑا تاجر بنے گا اور اس کی بدار مغزی سے ہم کو بھی بہت کچھ فائدہ پہنچے گا ۔ مگر جب ان کی توقعات کے خلاف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید وآخرت اور مکارم اخلاق کی دعوت دینی شروع کی تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ صرف مایوس ، بلکہ بیزار ہو گئے اور کہنے لگے کہ اچھا خاصا کام کا آدمی تھا ، خدا جانے اسے کیا جنون لاحق ہو گیا کہ اپنی زندگی بھی برباد کی اور ہماری امیدوں کو بھی خاک میں ملا دیا ۔ سورة هُوْد حاشیہ نمبر :71 یہ گویا دلیل ہے اس امر کی کہ یہ معبود کیوں عبادت کے مسحق ہیں اور ان کی پوجا کس لیے ہوتی رہنی چاہیے ۔ یہاں جاہلیت اور اسلام کے طرز استدلال کا فرق بالکل نمایاں نظر آتا ہے ۔ حضرت صالح علیہ السلام نے کہا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ہے ، اور اس پر دلیل یہ دی تھی کہ اللہ ہی نے تم کو پیدا کیا اور زمین میں آباد کیا ہے ۔ اس کے جواب میں ان کی مشرک قوم کہتی ہے کہ ہمارے یہ معبود بھی مستحق عبادت ہیں اور ان کی عبادت ترک نہیں کی جا سکتی کیونکہ باپ دادا کے وقتوں سے ان کی عبادت ہوتی چلی آرہی ہے ۔ یعنی مکھی پر مکھی صرف اس لیے ماری جاتی رہنی چاہیے کہ ابتدا میں کسی بے وقوف نے اس جگہ مکھی مار دی تھی اور اب اس مقام پر مکھی مارتے رہنے کے لیے اس کے سوا کسی معقول وجہ کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ یہاں مدتوں سے مکھی ماری جا رہی ہے ۔ سورة هُوْد حاشیہ نمبر :72 یہ شبہہ اور یہ خلجان کس امر میں تھا ؟ اس کی کوئی تصریح یہاں نہیں کی گئی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خلجان میں تو سب پڑ گئےتھے ، مگر ہی ایک خلجان الگ نوعیت کا تھا ۔ یہ دعوت حق کی خصوصیات میں سے ہے کہ جب وہ اٹھتی ہے تو لوگوں کا اطمینان قلب رخصت ہو جاتا ہے اور ایک عام بےکلی پیدا ہو جاتی ہے ۔ اگر چہ ہر ایک کے احساسات دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں مگر اس بےکلی میں سے سب کو کچھ نہ کچھ حصہ ضرور مل کر رہتا ہے ۔ اس سے پہلے جس اطمینان کے ساتھ لوگ اپنی ضلالتوں میں منہمک رہتے تھے اور کبھی یہ سوچنے کی ضرورت محسوس ہی نہ کرتے تھے کہ ہم کیا کر رہے ہیں ، وہ اطمینان اس دعوت کے اٹھنے کے بعد باقی نہیں رہتا اور نہیں رہ سکتا ۔ نظام جاہلیت کی کمزوریوں پر داعی حق کی بے رحم تنقید ، اثبات حق کے لے اس کے پرزور اور دل لگتے دلائل ، پھر اس کے بلند اخلاق ، اس کا عزم ، اس کا حلم ، اس کی شرافت نفس ، اس کا نہایت کھرا اور راستبازانہ رویہ اور اس کی وہ زبردست حکیمانہ شان جس کا سکہ بڑے سے بڑے ہٹ دھرم مخالف کے دل پر بھی بیٹھ جاتا ہے ، پھر وقت کی سوسائٹی میں سے بہترین عناصر کا اس سے متاثر ہوتے چلے جانا اور ان کی زندگیوں میں دعوت حق کی تاثیر سے غیر معمولی انقلاب رونما ہونا ، یہ ساری چیزیں مل جل کر ان سب لوگوں کے دلوں کو بے چین کر ڈالتی ہیں جو حق آجا نے کے بعد بھی پرانی جاہلیت کا بول بالا رکھنا چاہتے ہیں ۔
باپ دادا کے معبود ہی ہم کو پیارے ہیں حضرت صالح علیہ السلام اور آپ کی قوم کے درمیان جو بات چیت ہوئی اس کا بیان ہو رہا ہے وہ کہتے ہیں کہ تو یہ بات زبان سے نکال ۔ اس سے پہلے تو ہماری بہت کچھ اُمیدیں تجھ سے وابستہ تھیں ، لیکن تو نے ان سے سب پر پانی پھر دیا ۔ ہمیں پرانی روش اور باپ دادا کے طریقے اور پوجا پاٹ سے ہٹانے لگا ۔ ہمیں تو تیری اس نئی رہبری میں بہت بڑا شک شبہ ہے ۔ آپ نے فرمایا سنو میں اعلیٰ دلیل پر ہوں ۔ میرے پاس رب کی نشانی ہے ، مجھے اپنی سچائی پر دلی اطمینان ہے میرے پاس اللہ کی رسالت کی رحمت ہے ۔ اب اگر میں تمہیں اس کی دعوت نہ دوں اور اللہ کی نافرمانی کرو اور اس کی عبادت کی طرف تمہیں نہ بلاؤں تو کون ہے جو میری مدد کر سکے اور اللہ کے عذاب سے مجھے بچا سکے؟ میرا ایمان ہے کہ مخلوق میرے کام نہیں آسکتی تم میرے لیے محض بےسود ہو ۔ سوائے میرے نقصان کے تم مجھے اور کیا دے سکتے ہو ۔