Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
اَلَّذِيۡنَ اٰتَيۡنٰهُمُ الۡكِتٰبَ يَعۡرِفُوۡنَهٗ كَمَا يَعۡرِفُوۡنَ اَبۡنَآءَهُمۡؕ وَاِنَّ فَرِيۡقًا مِّنۡهُمۡ لَيَكۡتُمُوۡنَ الۡحَـقَّ وَهُمۡ يَعۡلَمُوۡنَؔ‏ ﴿146﴾
جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ تو اسے ایسا پہچانتے ہیں جیسے کوئی اپنے بچوں کو پہچانے ، ان کی ایک جماعت حق کو پہچان کر پھر چھپاتی ہے ۔
الذين اتينهم الكتب يعرفونه كما يعرفون ابناءهم و ان فريقا منهم ليكتمون الحق و هم يعلمون
Those to whom We gave the Scripture know him as they know their own sons. But indeed, a party of them conceal the truth while they know [it].
Jinhen hum ney kitab di hai woh to issay aisa pehchantay hain jaisay koi apney bachon ko pehchaney inn kay aik jamat haq ko pehchan ker phri chupati hai.
جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس کو اتنی اچھی طرح پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں ( ٩٦ ) ۔ اور یقین جانو کہ ان میں سے کچھ لوگوں نے حق کو جان بوجھ کر چھپا رکھا ہے ۔
جنہیں ہم نے کتاب عطا فرمائی ( ف۲٦۸ ) وہ اس نبی کو ایسا پہچانتے ہیں جیسے آدمی اپنے بیٹوں کو پہچانتا ہے ( ۲٦۹ ) اور بیشک ان میں ایک گروہ جان بوجھ کر حق چھپاتے ہیں ۔ ( ف۲۷۰ )
جِن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے ، وہ اس مقام کو﴿جسے قبلہ بنایا گیا ہے﴾ ایسا پہچانتے ہیں ، جیسا اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں ، 148 مگر ان میں سے ایک گروہ جانتے بوجھتے حق کو چھپا رہا ہے ۔
اور جن لوگوں کو ہم نے کتاب عطا فرمائی ہے وہ اس رسول ( آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی شان و عظمت ) کو اسی طرح پہچانتے ہیں جیسا کہ بلاشبہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں ، اور یقیناً انہی میں سے ایک طبقہ حق کو جان بوجھ کر چھپا رہا ہے
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :148 یہ عرب کا محاورہ ہے ۔ جس چیز کو آدمی یقینی طور پر جانتا ہو اور اس کے متعلق کسی قسم کا شک و اشتباہ نہ رکھتا ہو ، اسے یُوں کہتے ہیں کہ وہ اس چیز کو ایسا پہچانتا ہے ، جیسا اپنی اولاد کو پہچانتا ہے ۔ یعنی ، جس طرح اسے اپنے بچّوں کو پہچاننے میں کوئی اشتباہ نہیں ہوتا ، اسی طرح وہ بِلا کسی شک کے یقینی طور پر اس چیز کو بھی جانتا ہے ۔ یہُودیوں اور عیسائیوں کے علما حقیقت میں یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ کعبے کو حضرت ابراہیم ؑ نے تعمیر کیا تھا اور اس کے برعکس بیت المقدس اس کے ۱۳ سو برس بعد حضرت سلیمان ؑ کے ہاتھوں تعمیر ہوا اور اُنہی کے زمانے میں قبلہ قرار پایا ۔ اس تاریخی واقعے میں ان کے لیے ذرہ برابر کسی اشتباہ کی گنجائش نہ تھی ۔
صفات نبوی اور اغماض برتنے والے یہودی علماء ارشاد ہوتا ہے کہ علماء اہل کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی باتوں کی حقانیت کو اس طرح جانتے ہیں جس طرح باپ اپنے بیٹوں کو پہچانے یہ ایک مثال تھی جو مکمل یقین کے وقت عرب دیا کرتے تھے ۔ ایک حدیث میں ہے ایک شخص کے ساتھ چھوٹا بچہ تھا آپ نے اس سے پوچھا یہ تیرا لڑکا ہے؟ اس نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ بھی گواہ رہیئے آپ نے فرمایا نہ یہ تجھ پر پوشیدہ رہے نہ تو اس پر ۔ قرطبی کہتے ہیں ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عبداللہ بن سلام سے جو یہودیوں کے زبردست علامہ تھے پوچھا کیا تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا ہی جانتا ہے جس طرح اپنی اولاد کو پہچانتا ہے؟ جواب دیا ہاں بلکہ اس سے بھی زیادہ اس لئے کہ آسمانوں کا امین فرشتہ زمین کے امین شخص پر نازل ہوا اور اس نے آپ کی صحیح تعریف بتا دی یعنی حضرت جبرائیل حضرت عیسیٰ کے پاس آئے اور پھر پروردگار عالم نے ان کی صفتیں بیان کیں جو سب کی سب آپ میں موجود ہیں پھر ہمیں آپ کے نبی برحق ہونے میں کیا شک رہا ؟ ہم آپ کو بیک نگاہ کیوں نہ پہچان لیں؟ بلکہ ہمیں اپنی اولاد کے بارے میں شک ہے اور آپ کی نبوت میں کچھ شک نہیں ، غرض یہ ہے کہ جس طرح لوگوں کے ایک بڑے مجمع میں ایک شخص اپنے لڑکے کو پہچان لیتا ہے اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف جو اہل کتاب کی آسمانی کتابوں میں ہیں وہ تمام صفات آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں اس طرح نمایاں ہیں کہ بیک نگاہ ہر شخص آپ کو جان جاتا ہے