Surah

Information

Surah # 11 | Verses: 123 | Ruku: 10 | Sajdah: 0 | Chronological # 52 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 12, 17, 114, from Madina
وَلَقَدۡ جَآءَتۡ رُسُلُنَاۤ اِبۡرٰهِيۡمَ بِالۡبُشۡرٰى قَالُوۡا سَلٰمًا‌ ؕ قَالَ سَلٰمٌ‌ فَمَا لَبِثَ اَنۡ جَآءَ بِعِجۡلٍ حَنِيۡذٍ‏ ﴿69﴾
اور ہمارے بھیجے ہوئے پیغامبر ابراہیم کے پاس خوشخبری لے کر پہنچے اور سلام کہا انہوں نے بھی جواب میں سلام دیا اور بغیر کسی تاخیر کے گائے کا بھنا ہوا بچھڑا لے آئے ۔
و لقد جاءت رسلنا ابرهيم بالبشرى قالوا سلما قال سلم فما لبث ان جاء بعجل حنيذ
And certainly did Our messengers come to Abraham with good tidings; they said, "Peace." He said, "Peace," and did not delay in bringing [them] a roasted calf.
Aur humaray bhejay huye payghaamber ibrahim kay pass khushkhabri ley ker phonchay aur salam kaha unhon ney bhi jawab-e-salam diya aur baghair kissi takheer kay gaye ka bhuna hua bachra ley aaye.
اور ہمارے فرشتے ( انسانی شکل میں ) ابراہیم کے پاس ( بیٹا پیدا ہونے کی ) خوشخبری لے کر آئے ۔ ( ٣٩ ) انہوں نے سلام کہا ، ابراہیم نے بھی سلام کہا ، پھر ابراہیم کو کچھ دیر نہیں گذری تھی کہ وہ ( ان کی مہمانی کے لیے ) ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آئے ۔
اور بیشک ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس ( ف۱٤٦ ) مژدہ لے کر آئے بولے سلام کہا ( ف۱٤۷ ) کہا سلام پھر کچھ دیر نہ کی کہ ایک بچھڑا بھنا لے آئے ( ف۱٤۸ )
اور دیکھو ، ابراہیم کے پاس ہمارے فرشتے خوشخبری لیے ہوئے پہنچے ۔ کہا ، تم پر سلام ہو ۔ ابراہیم نے جواب دیا ، تم پر بھی سلام ہو ۔ پھر کچھ دیر نہ گزری کہ ابراہیم ایک بھنا ہوا بچھڑا ﴿ان کی ضیافت کے لیے﴾ لے آیا ۔ 75
اور بیشک ہمارے فرستادہ فرشتے ابراہیم ( علیہ السلام ) کے پاس خوشخبری لے کر آئے ، انہوں نے سلام کہا ، ابراہیم ( علیہ السلام ) نے بھی ( جوابًا ) سلام کہا ، پھر ( آپ علیہ السلام نے ) دیر نہ کی یہاں تک کہ ( ان کی میزبانی کے لئے ) ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آئے
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :75 اس سے معلوم ہوا کہ فرشتے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاں انسانی صورت میں پہنچے تھے اور ابتداء انہوں نے اپنا تعارف نہیں کرایا تھا ۔ اس لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خیال کیا کہ یہ کوئی اجنبی مہمان ہیں اور ان کے آتے ہی فورا ان کی ضیافت کا انتظام فرمایا ۔
ابراہیم علیہ السلام کی بشارت اولاد اور فرشتوں سے گفتگو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس وہ فرشتے بطور مہمان بشکل انسان آتے ہیں جو قوم لوط کی ہلاکت کی خوشخبری اور حضرت ابراہیم کے ہاں فرزند ہو نے کی بشارت لے کر اللہ کی طرف سے آئے ہیں ۔ وہ آکر سلام کرتے ہیں ۔ آپ ان کے جواب میں سلام کہتے ہیں ۔ اس لفظ کو پیش سے کہنے میں علم بیان کے مطابق ثبوت و دوام پایا جاتا ہے ۔ سلام کے بعد ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کے سامنے مہمان داری پیش کرتے ہیں ۔ بچھڑے کا گوشت جسے گرم پتھروں پر سینک لیا گیا تھا ، لاتے ہیں ۔ جب دیکھا کہ ان نو وارد مہمانوں کے ہاتھ کھانے کی طرف بڑھتے ہی نہیں ، اس وقت ان سے کچھ بدگمان سے ہوگئے اور کچھ دل میں خوف کھانے لگے حضرت سدی فرماتے ہیں کہ ہلاکت قوم لوط کے لیے جو فرشتے بھیجے گئے وہ بصورت نوجوان انسان زمین پر آئے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے گھر پر اترے آپ نے انہیں دیکھ کر بڑی تکریم کی ، جلدی جلدی اپنا بچھڑا لے کر اس کو گرم پتھوں پر سینک کر لا حاضر کیا اور خود بھی ان کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھ گئے ، آپ کی بیوی صاحبہ حضرت سارہ کھلانے پلانے کے کام کاج میں لگ گئیں ۔ ظاہر ہے کہ فرشتے کھانا نہیں کھاتے ۔ وہ کھانے سے رکے اور کہنے لگے ابراہیم ہم جب تلک کسی کھانے کی قیمت نہ دے دیں کھایا نہیں کرتے ۔ آپ نے فرمایا ہاں قیمت دے دیجئے انہوں نے پوچھا کیا قیمت ہے ، آپ نے فرمایا بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کرنا اور کھانا کھا کر الحمد اللہ کہنا یہی اس کی قیمت ہے ۔ اس وقت حضرت جبرائیل نے حضرت میکائیل کی طرف دیکھا اور دل میں کہا کہ فی الواقع یہ اس قابل ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنا خلیل بناۓ ۔ اب بھی جو انہوں نے کھانا شروع نہ کیا تو آپ کے دل میں طرح طرح کے خیالات گذرنے لگے ۔ حضرت سارہ نے دیکھا کہ خود حضرت ابراہیم ان کے اکرام میں یعنی ان کے کھانے کی خدمت میں ہیں ، تاہم وہ کھانا نہیں کھاتے تو ان مہمانوں کی عجیب حالت پر انہیں بےساختہ ہنسی آگئی ۔ حضرت ابراہیم کو خوف زدہ دیکھ کر فرشتوں نے کہا آپ خوف نہ کیجئے ۔ اب دہشت دور کرنے کے لیے اصلی واقعہ کھول دیا کہ ہم کوئی انسان نہیں فرشتے ہیں ۔ قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں کہ انہیں ہلاک کریں ۔ حضرت سارہ کو قوم لوط کی ہلاکت کی خبر نے خوش کر دیا ۔ اسی وقت انہیں ایک دوسری خوشخبری بھی ملی کہ اس ناامیدی کی عمر میں تمہارے ہاں بچہ ہوگا ۔ انہیں عجب تھا کہ جس قوم پر اللہ کا عذاب اتر رہا ہے ، وہ پوری غفلت میں ہے ۔ الغرض فرشتوں نے آپ کو اسحاق نامی بچہ پیدا ہو نے کی بشارت دی ۔ اور پھر اسحاق کے ہاں یعقوب کے ہو نے کی بھی ساتھ ہی خوش خبری سنائی ۔ اس آیت سے اس بات پر استدلال کیا گیا ہے کہ ذبیح اللہ حضرت اسماعیل علیہ السلام تھے ۔ کیونکہ حضرت اسحاق علیہ السلام کی تو بشارت دی گئی تھی اور ساتھ ہی ان کے ہاں بھی اولاد ہو نے کی بشارت دی گئی تھی ۔ یہ سن کر حضرت سارہ علیہ السلام نے عورتوں کی عام عادت کے مطابق اس پر تعجب ظاہر کیا کہ میاں بیوی دونوں کے اس بڑھے ہوئے بڑھاپے میں اولاد کیسی ؟ یہ تو سخت حیرت کی بات ہے ۔ فرشتوں نے کہا امر اللہ میں کیا حیرت ؟ تم دونوں کو اس عمر میں ہی اللہ بیٹا دے گا گو تم سے آج تک کوئی اولاد نہیں ہوئی اور تمہارے میاں کی عمر بھی ڈھل چکی ہے ۔ لیکن اللہ کی قدرت میں کمی نہیں وہ جو چاہے ہو کر رہتا ہے ، اے نبی کے گھر والو تم پر اللہ کی رحمتیں اور اس کی برکتیں ہیں ، تمہیں اس کی قدرت میں تعجب نہ کرنا چاہے ۔ اللہ تعالیٰ تعریفوں والا اور بزرگ ہے ۔