Surah

Information

Surah # 11 | Verses: 123 | Ruku: 10 | Sajdah: 0 | Chronological # 52 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 12, 17, 114, from Madina
يٰۤـاِبۡرٰهِيۡمُ اَعۡرِضۡ عَنۡ هٰذَا ۚ اِنَّهٗ قَدۡ جَآءَ اَمۡرُ رَبِّكَ‌ ۚ وَاِنَّهُمۡ اٰتِيۡهِمۡ عَذَابٌ غَيۡرُ مَرۡدُوۡدٍ‏ ﴿76﴾
اے ابراہیم! اس خیال کو چھوڑ دیجئے آپ کے رب کا حکم آپہنچا ہے اور ان پر نہ ٹالے جانے والا عذاب ضرور آنے والا ہے ۔
يابرهيم اعرض عن هذا انه قد جاء امر ربك و انهم اتيهم عذاب غير مردود
[The angels said], "O Abraham, give up this [plea]. Indeed, the command of your Lord has come, and indeed, there will reach them a punishment that cannot be repelled."
Aey ibrahim! Iss khayal ko chor dijiye aap kay rab ka hukum aa phoncha hai aur unn per na taalay janey wala azab zaroor aaney wala hai.
۔ ( ہم نے ان سے کہا ) ابراہیم ! اس بات کو جانے دو ۔ یقین کرلو کہ تمہارے رب کا حکم آچکا ہے ، اور ان لوگوں پر ایسا عذاب آکر رہے گا جس کو کوئی پیچھے نہیں لوٹا سکتا ۔
اے ابراہیم اس خیال میں نہ پڑ بیشک تیرے رب کا حکم آچکا اور بیشک ان پر عذاب آنے والا ہے کہ پھیرا نہ جائے گا
﴿آخرِکار ہمارے فرشتوں نے اس سے کہا﴾ اے ابراہیم ، اس سے باز آجاؤ ، تمہارے رب کا حکم ہوچکا ہے اور اب ان لوگوں پر وہ عذاب آکر رہے گا جو کسی کے پھیرے نہیں پھر سکتا ۔ 84
۔ ( فرشتوں نے کہا: ) اے ابراہیم! اس ( بات ) سے درگزر کیجئے ، بیشک اب تو آپ کے رب کا حکمِ ( عذاب ) آچکا ہے ، اور انہیں عذاب پہنچنے ہی والا ہے جو پلٹایا نہیں جا سکتا
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :84 اس سلسلہ بیان میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ واقعہ ، خصوصا قوم لوط علیہ السلام کے قصے کی تمہید کے طور پر بظاہر کچھ بے جوڑ سا محسوس ہوتا ہے ۔ مگر حقیقت میں یہ اس مقصد کے لحاظ سے نہایت برمحل ہے جس کے لیے بچھلی تاریخ کے یہ واقعات یہاں بیان کیے جا رہے ہیں ۔ اس کی مناسبت سمجھنے کے لیے حسب ذیل دو باتوں کو پیش نظر رکھیے: ( ۱ ) مخاطب قریش کے لوگ ہیں جو حضرات ابراہیم علیہ السلام کی اولاد ہونے کی وجہ ہی سے تمام عرب کے پیرزادے ، کعبۃ اللہ کے مجاور اور مذہبی واخلاقی اور سیاسی و تمدنی پیشوائی کے مالک بنے ہوئے ہیں اور اس گھمنڈ میں مبتلا ہیں کہ ہم پر خدا کا غضب کیسے نازل ہوسکتا ہے جبکہ ہم خدا کے اس پیارے بندے کی اولاد ہیں اور وہ خدا کے دربار میں ہماری سفارش کرنے کو موجود ہے ۔ اس پندار غلط کو توڑنے کے لیے پہلے تو انہیں یہ منظر دکھایا گیا کہ حضرت نوح علیہ السلام جیسا عظیم الشان پیغمبر اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے جگر گوشے کو ڈوبتے دیکھ رہا ہے اور تڑپ کر خدا سے دعا کرتا ہے کہ اس کے بیٹے کو بچالیا جائے مگر صرف یہی نہیں کہ اس کی سفارش بیٹے کے کچھ کام نہیں آتی ، بلکہ اس سفارش پر باپ کو الٹی ڈانٹ سننی پڑتی ہے ۔ اس کے بعد اب یہ دوسرا منظر خود حضرت ابراہیم علیہ السلام کا دکھایا جاتا ہے کہ ایک طرف تو ان پر بے پایاں عنایات ہیں اور نہایت پیار کے انداز میں ان کا ذکر ہو رہا ہے ، مگر دوسری طرف جب وہی ابراہیم علیہ السلام انصاف کے معاملہ میں دخل دیتے ہیں تو ان کے اصرار والحاح کے باوجود اللہ تعالی مجرم قوم کے معاملے میں ان کی سفارش کو رد کر دیتا ہے ۔ ( ۲ ) اس تقریر میں یہ بات بھی قریش کے ذہن نشین کرنی مقصود ہے کہ اللہ تعالی وہ قانون مکافات جس سے لوگ بالکل بے خوف اور مطمئن بیٹھے ہوئے تھے ، کس طرح تاریخ کے دوران میں تسلسل اور باقاعدگی کے ساتھ ظاہر ہوتا رہا ہے اور خود ان کے گردوپیش اس کے کیسے کھلے کھلے آثار موجود ہیں ۔ ایک طرف حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں جو حق وصداقت کی خاطر گھر سے بے گھر ہو کر ایک اجنبی ملک میں مقیم ہیں اور بظاہر کوئی طاقت ان کے پاس نہیں ہے ۔ مگر اللہ تعالی ان کے حسن عمل کا ہی پھل ان کو دیتا ہے کہ بانچھ بیوی کے پیٹ سے بڑھاپے میں اسحاق علیہ السلام پیدا ہوتے ہیں ، پھر ان کے ہاں یعقوب علیہ السلام کی پیدائش ہوتی ہے ، اور ان سے بنی اسرائیل کی وہ عظیم الشان نسل چلتی ہے جس کی عظمت کے ڈنکے صدیوں تک اسی فلسطین و شام میں بجتے رہے جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک بے خانماں مہاجر کی حیثیت سے آکر آباد ہوئے تھے ۔ دوسری طرف قوم لوط علیہ السلام ہے جو اسی سرزمین کے ایک حصہ میں اپنی خوشحالی پر مگن اور اپنی بدکاریوں میں مست ہے ۔ دور دور تک کہیں بھی اس کو اپنی شامت اعمال کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں ۔ اور لوط علیہ السلام کی نصیحتوں کو وہ چٹکیوں میں اڑا رہی ہے ۔ مگر جس تاریخ کو ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے ایک بڑی اقبال مند قوم کے اٹھائے جانے کا فیصلہ کیا جاتا ہے ، ٹھیک وہی تاریخ ہے جب اس بدکار قوم کو دنیا سے نیست ونابود کرنے کا فرمان نافذ ہوتا ہے اور وہ ایسے عبرتناک طریقہ سے فنا کی جاتی ہے کہ آج اس کی بستیوں کا نشان کہیں ڈھونڈے نہیں ملتا ۔