Surah

Information

Surah # 11 | Verses: 123 | Ruku: 10 | Sajdah: 0 | Chronological # 52 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 12, 17, 114, from Madina
وَلَمَّا جَآءَتۡ رُسُلُـنَا لُوۡطًا سِىۡٓءَ بِهِمۡ وَضَاقَ بِهِمۡ ذَرۡعًا وَّقَالَ هٰذَا يَوۡمٌ عَصِيۡبٌ‏ ﴿77﴾
جب ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے لوط کے پاس پہنچے تو وہ ان کی وجہ سے بہت غمگین ہوگئے اور دل ہی دل میں کڑھنے لگے اور کہنے لگے کہ آج کا دن بڑی مصیبت کا دن ہے
و لما جاءت رسلنا لوطا سيء بهم و ضاق بهم ذرعا و قال هذا يوم عصيب
And when Our messengers, [the angels], came to Lot, he was anguished for them and felt for them great discomfort and said, "This is a trying day."
Jab humaray bhejay huye farishtay loot kay pass phonchay to woh inn ki waja say boht ghumgeen hogaye aur dil hi dil mein kurhney lagay aur kehney lagay kay aaj ka din bari musibat ka din hai.
اور جب ہمارے فرشتے لوط کے پاس پہنچے تو وہ ان کی وجہ سے گھبرائے ، ان کا دل پریشان ہوا اور وہ کہنے لگے کہ : آج کا یہ دن بہت کٹھن ہے ۔ ( ٤٥ )
اور جب لوط کے یہاں ہمارے فرشتے آئے ( ف۱۵۹ ) اسے ان کا غم ہوا اور ان کے سبب دل تنگ ہوا اور بولا یہ بڑی سختی کا دن ہے ( ف۱٦۰ )
اور جب ہمارے فرشتے لوط کے پاس پہنچے 85 تو ان کی آمد سے وہ بہت گھبرایا اور دل تنگ ہوا اور کہنے لگا کہ آج بڑی مصیبت کا دن ہے ۔ 86
اور جب ہمارے فرستادہ فرشتے لوط ( علیہ السلام ) کے پاس آئے ( تو ) وہ ان کے آنے سے پریشان ہوئے اور ان کے باعث ( ان کی ) طاقت کمزور پڑ گئی اور کہنے لگے: یہ بہت سخت دن ہے ( فرشتے نہایت خوب رُو تھے اور حضرت لوط علیہ السلام کو اپنی قوم کی بری عادت کا علم تھا سو ممکنہ فتنہ کے اندیشہ سے پریشان ہوئے )
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :85 سورۃ اعراف رکوع ۱۰ کے حواشی پیش نظر ہیں ۔ سورة هُوْد حاشیہ نمبر :86 اس قصے کی جو تفصیلات قرآن مجید میں بیان ہوئی ہیں ان کے فحوائے کلام سے یہ بات صاف مترشح ہوتی ہے کہ یہ فرشتے خوبصورت لڑکوں کی شکل میں حضرت لوط علیہ السلام کے ہاں پہنچے تھے اور حضرت لوط علیہ السلام اس بات سے بےخبر تھے کہ یہ فرشتے ہیں ۔ یہی سبب تھا کہ ان مہمانوں کی آمد سے آپ کو سخت پریشانی و دل تنگی لاحق ہوئی ۔ اپنی قوم کو جانتے تھے کہ وہ کیسی بدکردار اور کتنی بے حیا ہوچکی ہے ۔
حضرت لوط علیہ السلام کے گھر فرشتوں کا نزول ۔ حضرت ابراہیم کو یہ فرشتے اپنا بھید بتا کر وہاں سے چل دیئے اور حضرت لوط علیہ السلام کے پاس ان کے زمین میں یا ان کے مکان میں پہنچے ۔ مرد خوبصورت لڑکوں کی شکل میں تھے تاکہ قوم لوط کی پوری آزمائش ہو جائے ، حضرت لوط ان مہمانوں کو دیکھ کر قوم کی حالت سامنے رکھ کر سٹ پٹا گئے ، دل ہی دل میں پیچ تاب کھانے لگے کہ اگر انہیں مہمان بناتا ہوں تو ممکن ہے خبر پاکر لوگ چڑھ دوڑیں اور اگر مہمان نہیں رکھتا تو یہ انہی کے ہاتھ پڑ جائیں گے ۔ زبان سے بھی نکل گیا کہ آج کا دن بڑا ہیبت ناک دن ہے ۔ قوم والے اپنی شرارت سے باز نہیں آئیں گے ۔ مجھ میں ان کے مقابلہ کی طاقت نہیں ۔ کیا ہوگا ؟ قتادہ فرماتے ہیں ۔ حضرت لوط اپنی زمین پر تھے کہ یہ فرشتے بصورت انسان آئے اور ان کے مہمان بنے ۔ شرما شرمی انکار تو نہ سکے اور انہیں لے کر گھر چلے ، راستے میں صرف اس نیت سے کہ یہ اب بھی واپس چلے جائیں ان سے کہا کہ واللہ یہاں کے لوگوں سے زیادہ برے اور خبیث لوگ اور کہیں نہیں ہیں ۔ کچھ دور جا کر پھر یہی کہا غرض گھر پہچنے تک چار بار یہی کہا ۔ فرشتوں کو اللہ کا حکم بھی یہی تھا کہ جب تک ان کا نبی ، ان کی برائی نہ بیان کرے انہیں ہلاک نہ کرنا ۔ سدی فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس سے چل کر دوپہر کو یہ فرشتے نہر سدوم پہنچے وہاں حضرت لوط کی صاحبزادی جو پانی لینے گئی تھیں ، مل گئیں ۔ ان سے انہوں نے پوچھا کہ یہاں ہم کہیں ٹھہر سکتے ہیں ۔ اس نے کہا آپ یہیں رکیئے میں واپس آکر جواب دوں گی ۔ انہیں ڈر لگا کہ اگر قوم والوں کے ہاتھ یہ لگ گئے تو ان کی بڑی بےعزتی ہوگی ۔ یہاں آکر والد صاحب سے ذکر کیا کہ شہر کے دروازے پر چند پردیسی نو عمر لوگ ہیں ، میں نے تو آج تک نہیں دیکھے ، جاؤ اور انہیں ٹھہراؤ ورنہ قوم والے انہیں ستائیں گے ۔ اس بستی کے لوگوں نے حضرت لوط سے کہہ رکھا تھا کہ دیکھو کسی باہر والے کو تم اپنے ہاں ٹھیرایا نہ کرو ۔ ہم آپ سب کچھ کر لیا کریں گے ۔ آپ نے جب یہ حالت سنی تو جا کر چپکے سے انہیں اپنے گھر لے آئے ۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو نے دی ۔ مگر آپ کی بیوی جو قوم سے ملی ہوئی تھی ، اسی کے ذریعہ بات پھوٹ نکلی ۔ اب کیا تھا ۔ دوڑے بھاگے آگئے ، جسے دیکھو خوشیاں مناتا جلدی جلدی لپکتا چلا آتا ہے ان کی تو یہ خو خصلت ہو گئی تھی اس سیاہ کاری کو تو گویا انہوں نے عادت بنا لیا تھا ۔ اس وقت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں نصیحت کرنے لگے کہ تم اس بد خصلت کو چھوڑو اپنی خواہشیں عورتوں سے پوری کرو ۔ بناتی یعنی میری لڑکیاں ۔ اس لیے فرمایا کہ ہر نبی اپنی امت کا گویا باپ ہوتا ہے ۔ قرآن کریم کی ایک اور آیت میں ہے کہ اس وقت انہوں نے کہا تھا کہ ہم تو پہلے ہی آپ کو منع کر چکے تھے کہ کسی کو اپنے ہاں نہ ٹھیرایا کرو ۔ حضرت لوط علیہ السلام نے انہیں سمجھایا اور دنیا آخرت کی بھلائی انہیں سجھائی اور کہا کہ عورتیں ہی اس بات کے لیے موزوں ہیں ۔ ان سے نکاح کر کے اپنی خواہش پوری کرنا ہی پاک کام ہے ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں یہ سمجھا جائے کہ آپ نے اپنی لڑکیوں کی نسبت یہ فرمایا تھا نہیں بلکہ نبی اپنی پوری امت کا گویا باپ ہوتا ہے ۔ قتادہ وغیرہ سے بھی یہی مروی ہے ۔ امام ابن جریج فرماتے ہیں یہ بھی نہ سمجھنا چاہیے کہ حضرت لوط نے عورتوں سے بےنکاح ملاپ کرنے کو فرمایا ہو ۔ نہیں مطلب آپ کا ان سے نکاح کرلینے کے حکم کا تھا ۔ فرماتے ہیں اللہ سے ڈرو میرا کہا مانو ، عورتوں کی طرف رغبت کرو ، ان سے نکاح کر کے حاجت روائی کرو ۔ مردوں کی طرف اس رغبت سے نہ آؤ اور خصوصاً یہ تو میرے مہمان ہیں ، میری عزت کا خیال کرو کیا تم میں ایک بھی سمجھدار ، نیک راہ یافتہ بھلا آدمی نہیں ۔ اس کے جواب میں ان سرکشوں نے کہا کہ ہمیں عورتوں سے کوئی سروکار ہی نہیں یہاں بھی بناتک یعنی تیری لڑکیاں کے لفظ سے مراد قوم کی عورتیں ہیں ۔ اور تجھے معلوم ہے کہ ہمارا ارادہ کیا ہے یعنی ہمارا ارادہ ان لڑکوں سے ملنے کا ہے ۔ پھر جھگڑا اور نصیحت بےسود ہے ۔