Surah

Information

Surah # 11 | Verses: 123 | Ruku: 10 | Sajdah: 0 | Chronological # 52 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 12, 17, 114, from Madina
قَالُوۡا يٰشُعَيۡبُ اَصَلٰوتُكَ تَاۡمُرُكَ اَنۡ نَّتۡرُكَ مَا يَعۡبُدُ اٰبَآؤُنَاۤ اَوۡ اَنۡ نَّـفۡعَلَ فِىۡۤ اَمۡوَالِنَا مَا نَشٰٓؤُا‌ ؕ اِنَّكَ لَاَنۡتَ الۡحَـلِيۡمُ الرَّشِيۡدُ‏ ﴿87﴾
انہوں نے جواب دیا کہ اے شعیب! کیا تیری صلاۃ تجھے یہی حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے باپ دادوں کے معبودوں کو چھوڑ دیں اور ہم اپنے مالوں میں جو کچھ چاہیں اس کا کرنا بھی چھوڑ دیں تو تو بڑا ہی با وقار اور نیک چلن آدمی ہے ۔
قالوا يشعيب اصلوتك تامرك ان نترك ما يعبد اباؤنا او ان نفعل في اموالنا ما نشؤا انك لانت الحليم الرشيد
They said, "O Shu'ayb, does your prayer command you that we should leave what our fathers worship or not do with our wealth what we please? Indeed, you are the forbearing, the discerning!"
Unhon ney jawab diya kay aey shoaib! Kiya teri salaat tujhay yehi hukum deti hai kay hum apney baap dadon kay maboodon ko chor den tu to bara hi ba waqar aur nek chalan aadmi hai.
وہ کہنے لگے : اے شعیب ! کیا تمہاری نماز تمہیں یہ حکم دیتی ہے کہ ہمارے باپ دادا جن کی عبادت کرتے آئے تھے ، ہم انہیں بھی چھوڑ دیں اور اپنے مال و دولت کے بارے میں جو کچھ ہم چاہیں ، وہ بھی نہ کریں ۔ ( ٥٤ ) ؟ واقعی تم تو بڑے عقل مند ، نیک چلن آدمی ہو ۔ ( ٥٥ )
بولے اے شعیب!کیا تمہاری نماز تمہیں یہ حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے باپ دادا کے خداؤں کو چھوڑ دیں ( ف۱۸۰ ) یا اپنے مال میں جو چاہیں نہ کریں ( ف۱۸۱ ) ہاں جی تمہیں بڑے عقلمند نیک چلن ہو ،
انہوں نے جواب دیا اے شعیب ، کیا تیری نماز تجھے یہ سکھاتی ہے 96 کہ ہم ان سارے معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے تھے؟ یا یہ کہ ہم کو اپنے مال میں اپنے منشا کے مطابق تصّرف کرنے کا اختیار نہ ہو؟ 97 بس تو ہی تو ایک عالی ظرف اور راست باز آدمی رہ گیا ہے !
وہ بولے! اے شعیب! کیا تمہاری نماز تمہیں یہی حکم دیتی ہے کہ ہم ان ( معبودوں ) کو چھوڑ دیں جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے رہے ہیں یا یہ کہ ہم جو کچھ اپنے اموال کے بارے میں چاہیں ( نہ ) کریں؟ بیشک تم ہی ( ایک ) بڑے تحمل والے ہدایت یافتہ ( رہ گئے ) ہو
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :96 یہ خطاب بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے مگر دراصل بات ان لوگوں کو سنانی مقسصود ہے جو آپ کی دعوت میں شک کر رہے تھے ۔ اور اہل کتاب کا حوالہ اس لیے دیا گیا ہے کہ عرب کے عوام تو آسمانی کتابوں کے علم سے بے بہرہ تھے ، ان کے لیے یہ آواز ایک نئی آواز تھی ، مگر اہل کتاب کے علماء میں جو لوگ متدین اور منصف مزاج تھے وہ اس امر کی تصدیق کر سکتے تھے کہ جس چیز کی دعوت قرآن دے رہا ہے یہ وہی چیز ہے جس کی دعوت تمام پچھلے انبیا دیتے رہے ہیں ۔ سورہ هُوْد حاشیہ نمبر :97 یعنی یہ قول کہ جو لوگ خود طالب حق نہیں ہوتے ، اور جو اپنے دلوں پر ضد ، تعصب اور ہٹ دھرمی کے قفل چڑھائےرکھتے ہیں اور جو دنیا کے عشق میں مدہوش اور عاقبت سے بے فکر ہوتے ہیں انہیں ایمان کی توفیق نصیب نہیں ہوتی ۔
پرانے معبودوں سے دستبرداری سے انکار حضرت اعمش فرماتے ہیں صلواۃ سے مراد یہاں قرأت ہے ۔ وہ لوگ ازراہ مذاق کہتے ہیں کہ واہ آپ اچھے رہے کہ آپ کو آپ کی قرآت نے حکم دیا کہ ہم باپ دادوں کی روش کو چھوڑ کر اپنے پرانے معبودوں کی عبادت سے دست بردار ہو جائیں ۔ یہ اور بھی لطف ہے کہ ہم اپنے مال کے بھی مالک نہ رہیں کہ جس طرح جو چاہیں اس میں تصرف کریں کسی کو ناپ تول میں کم نہ دیں ۔ حضرت حسن فرماتے ہیں واللہ واقعہ یہی ہے کہ حضرت شعیب علیہ السلام کی نماز کا حکم یہی تھا کہ آپ انہیں غیر اللہ کی عبادت اور مخلوق کے حقوق کے غصب سے روکیں ۔ ثوری فرماتے ہیں کہ ان کے اس قول کا مطلب کہ جو ہم چاہیں ، اپنے مالوں میں کریں یہ ہے کہ زکوٰۃ کیوں دیں؟ نبی اللہ کو ان کا حلیم و رشید کہنا ازراہ مذاق و حقارت تھا ۔