Surah

Information

Surah # 11 | Verses: 123 | Ruku: 10 | Sajdah: 0 | Chronological # 52 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 12, 17, 114, from Madina
قَالَ يٰقَوۡمِ اَرَءَيۡتُمۡ اِنۡ كُنۡتُ عَلٰى بَيِّنَةٍ مِّنۡ رَّبِّىۡ وَرَزَقَنِىۡ مِنۡهُ رِزۡقًا حَسَنًا‌ ؕ وَمَاۤ اُرِيۡدُ اَنۡ اُخَالِفَكُمۡ اِلٰى مَاۤ اَنۡهٰٮكُمۡ عَنۡهُ‌ ؕ اِنۡ اُرِيۡدُ اِلَّا الۡاِصۡلَاحَ مَا اسۡتَطَعۡتُ‌ ؕ وَمَا تَوۡفِيۡقِىۡۤ اِلَّا بِاللّٰهِ‌ ؕ عَلَيۡهِ تَوَكَّلۡتُ وَاِلَيۡهِ اُنِيۡبُ‏ ﴿88﴾
کہا اے میری قوم! دیکھو تو اگر میں اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل لئے ہوئے ہوں اور اس نے مجھے اپنے پاس سے بہترین روزی دے رکھی ہے میرا یہ ارادہ بالکل نہیں کہ تمہارے خلاف کرکے خود اس چیز کی طرف جھک جاؤں جس سے تمہیں روک رہا ہوں میرا ارادہ تو اپنی طاقت بھر اصلاح کرنے کا ہی ہے میری توفیق اللہ ہی کی مدد سے ہے اسی پر میرا بھروسہ ہے اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں ۔
قال يقوم ارءيتم ان كنت على بينة من ربي و رزقني منه رزقا حسنا و ما اريد ان اخالفكم الى ما انهىكم عنه ان اريد الا الاصلاح ما استطعت و ما توفيقي الا بالله عليه توكلت و اليه انيب
He said, "O my people, have you considered: if I am upon clear evidence from my Lord and He has provided me with a good provision from Him... ? And I do not intend to differ from you in that which I have forbidden you; I only intend reform as much as I am able. And my success is not but through Allah . Upon him I have relied, and to Him I return.
Kaha aey meri qom! Dekho to agar mein apney rab ki taraf say roshan daleel liye huye hon aur uss ney mujhay apney pass say behtareen rozi dey rakhi hai mera yeh irada bilkul nahi kay tumhara khilaf ker kay khud uss cheez ki taraf jhuk jaon jiss say tmhen rok raha hun meri irada to apni taqat bhar islaah kerney ka hi hai. Meri tofiq Allah hi ki madad say hai ussi per mera bharosa hai aur ussi ki taraf mein rujoo kerta hun.
شعیب نے کہا : اے میری قوم کے لوگو ! ذرا مجھے یہ بتاؤ کہ اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے ایک روشن دلیل پر قائم ہوں ، اور اس نے خاص اپنے پاس سے مجھے اچھا رزق عطا فرمایا ہے ، ( ٥٦ ) ( تو پھر میں تمہارے غلط طریقے پر کیوں چلوں؟ ) اور میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے کہ میں جس بات سے تمہیں منع کر رہا ہوں ، تمہارے پیچھے جاکر وہی کام خود کرنے لگوں ۔ میرا مقصد اپنی استطاعت کی حد تک اصلاح کے سوا کچھ نہیں ہے ، اور مجھے جو کچھ توفیق ہوتی ہے صرف اللہ کی مدد سے ہوتی ہے ، اسی پر میں نے بھروسہ کر رکھا ہے اور اسی کی طرف میں ( ہر معاملے میں ) رجوع کرتا ہوں ۔
کہا اے میری قوم بھلا بتاؤ تو اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک روشن دلیل پر ہوں ( ف۱۸۲ ) اور اس نے مجھے اپنے پاس سے اچھی روزی دی ( ف۱۸۳ ) اور میں نہیں چاہتا ہوں کہ جس بات سے تمہیں منع کرتا ہوں آپ اس کے خلاف کرنے لگوں ( ف۱۸٤ ) میں تو جہاں تک بنے سنوارنا ہی چاہتا ہوں ، اور میری توفیق اللہ ہی کی طرف سے ہے ، میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور اسی کی طرف رجوع ہوتا ہوں ،
شعیب نے کہا بھائیو ، تم خود ہی سوچو کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک کھلی شہادت پر تھا اور پھر اس نے اپنے ہاں سے مجھ کو اچھا رزق بھی عطا کیا 98 ﴿تو اس کے بعد میں تمہاری گمراہیوں اور حرام خوریوں میں تمہارا شریکِ حال کیسے ہو سکتا ہوں؟﴾ ۔ اور میں ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ جن باتوں سے میں تم کو روکتا ہوں ان کا خود ارتکاب کروں ۔ 99 میں تو اصلاح کرنا چاہتا ہوں جہاں تک بھی میرا بس چلے ۔ اور یہ جو کچھ میں کرنا چاہتا ہوں اس کا سارا انحصار اللہ کی توفیق پر ہے ، اسی پر میں نے بھروسہ کیا اور ہر معاملہ میں اسی کر طرف رجوع کرتا ہوں ۔
شعیب ( علیہ السلام ) نے کہا: اے میری قوم! ذرا بتاؤ کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل پر ہوں اور اس نے مجھے اپنی بارگاہ سے عمدہ رزق ( بھی ) عطا فرمایا ( تو پھر حق کی تبلیغ کیوں نہ کروں؟ ) ، اور میں یہ ( بھی ) نہیں چاہتا کہ تمہارے پیچھے لگ کر ( حق کے خلاف ) خود وہی کچھ کرنے لگوں جس سے میں تمہیں منع کر رہا ہوں ، میں تو جہاں تک مجھ سے ہو سکتا ہے ( تمہاری ) اصلاح ہی چاہتا ہوں ، اور میری توفیق اﷲ ہی ( کی مدد ) سے ہے ، میں نے اسی پر بھروسہ کیا ہے اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :98 یونس علیہ السلام ( جن کا نام بائیبل میں یوناہ ہے اور جن کا زمانہ سن ۸٦۰ – ۷۸٤ قبل مسیح کے درمیان بتایا جاتا ہے ) اگر چہ اسرائیلی نبی تھے ، مگر ان کو اشور ( اسیریا ) والوں کی ہدایت کے لیے عراق بھیجا گیا تھا اور اسی بنا پر اشوریوں کی یہاں قوم یونس کہا گیا ہے ۔ اس قوم کا مرکز اس زمانہ میں نینویٰ کا مشہور شہر تھا جس کے وسیع کھنڈرات آج تک دریائے دجلہ کے مشرقی کنارے پر موجودہ شہر موصل کے عین مقابل پائے جاتے ہیں اور اسی علاقے میں ”یونس نبی“ کے نام سے ایک مقام بھی موجود ہے ۔ اس قوم کے عروج کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ اس کا دارالسلطنت نینوی تقریبًا ٦۰ میل کے دَور میں پھیلا ہوا تھا ۔ سورة هُوْد حاشیہ نمبر :99 قرآن میں اس قصّہ کی طر ف تین جگہ صرف اشارات کیے گئے ہیں ، کوئی تفصیل نہیں دی گئی ( ملاحظہ ہو سورہ ٔ انبیاء ، آیات ۸۷ – ۸۸ ۔ الصافّات ، ۱۳۹ – ۱٤۹ ۔ القلم ، ٤۸ – ۵۰ ) اس لیے یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ قوم کن خاص وجوہ کی بنا پر خدا کے اس قانون سے مستثنیٰ کی گئی کہ”عذاب کا فیصلہ ہو جانے کے بعد کسی کا ایمان اس کے لیے نافع نہیں ہوتا“ ۔ بائیبل میں ”یوناۃ“ کے نام سے جو مختصر سا صحیفہ ہے اس میں کچھ تفصیل تو ملتی ہے مگر وہ چنداں قابل اعتماد نہیں ہے ۔ کیونکہ اوّل تو نہ وہ آسمانی صحیفہ ہے ، نہ خود یونس علیہ السلام کا اپنا لکھا ہوا ہے ، بلکہ ان کے چار پانچ سو برس بعد کسی نامعلوم شخص نے اسے تاریخ یونس کے طور پر لکھ کر مجموعہ کتب مقدسہ میں شامل کر دیا ہے ۔ دوسرے اس میں بعض صریح مہملات بھی پائے جاتے ہیں جس ماننے قابل نہیں ہیں ۔ تاہم قرآن کے اشارات اور صحیفہ ٔ یونس کی تفصیلات پر غور کرنے سے وہی بات صحیح معلوم ہوتی ہے جو مفسرین ِ قرآن نے بیان کی ہے کہ حضرت یونس علیہ السلام چونکہ عذاب کی اطلاع دینے کے بعد اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر اپنا مستقر چھوڑ کر چلے گئے تھے ، اس لیے جب آثارِ عذاب دیکھ کر آشوریوں نے توبہ و استغفار کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کر دیا ۔ قرآن مجید میں خدائی دستور کے جو اصول و کلیات بیان کیے گئے ہیں ان میں ایک مستقل دفعہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قومکو اس وقت تک عذاب نہیں دیتا جب تک اس پر اپنی حجت پوری نہیں کر لیتا ۔ پس جب نبی نے اس قوم کی مہلت کے آخری لمحے تک نصیحت کا سلسلہ جا ری نہ رکھا ، اور اللہ کے مقرر کردہ وقت سے پہلے بطورر خود ہی وہ ہجرت کر گیا ، تو اللہ تعالیٰ کے انصاف نے اس کی قوم کو عذاب دینا گوارا نہ کیا کیونکہ اس پر اتمام حجت کی قانونی شرائط پوری نہیں ہوئی تھیں ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفسیر سورۂ الصافات ، حاشیہ نمبر ۸۵ ) ۔
قوم کو تبلیغ آپ اپنی قوم سے فرماتے ہیں کہ دیکھو میں اپنے رب کی طرف سے کسی دلیل و حجت اور بصیرت پر قائم ہوں اور اسی کی طرف تمہیں بلا رہا ہوں ۔ اس نے اپنی مہربانی سے مجھے بہترین روزی دے رکھی ہے ۔ یعنی نبوت یا رزق حلال یا دونوں ، میری روش تم یہ نہ پاؤ گے کہ تمہیں تو بھلی بات کا حکم کروں اور خود تم سے چھپ کر اس کے برعکس کروں ۔ میری مراد تو اپنی طاقت کے مطابق اصلاح کرنی ہے ۔ ہاں میرے ارادہ کی کامیابی اللہ کے ہاتھ ہے ۔ اسی پر میرا بھروسہ اور توکل ہے اور اسی کی جانب رجوع توجہ اور جھکنا ہے ۔ مسند امام احمد میں ہے حکیم بن معاویہ اپنے باپ سے راویت کرتے ہیں کہ اس کے بھائی مالک نے کہا کہ اے معاویہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے پڑوسیوں کو گرفتار کر رکھا ہے ، تم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تمہاری بات چیت بھی ہو چکی ہے اور تمہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہچانتے بھی ہیں ۔ پس میں اس کے ساتھ چلا ۔ اس نے کہا کہ میرے پڑوسیوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رہا کر دیجئے وہ مسلمان ہو چکے تھے ۔ آپ نے اس سے منہ پھر لیا ۔ وہ غضب ناک ہو کر اٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا واللہ اگر آپ نے ایسا جواب دیا تو لوگ کہیں گے کہ آپ ہمیں تو پڑوسیوں کے بارہ میں اور حکم دیتے ہیں اور آپ خود اس کے خلاف کرتے ہیں ۔ اس پر آپ نے فرمایا کیا لوگوں نے ایسی بات زبان سے نکالی ہے؟ اگر میں ایسا کروں تو اس کا وبال مجھ پر ہی ہے ان پر تو نہیں ۔ جاؤ اس کے پڑوسیوں کو چھوڑ دو ۔ اور روایت میں ہے کہ اس کی قوم کے چند لوگ کسی شبہ میں گرفتار تھے ۔ اس پر قوم کا ایک آدمی خاص حاضر ہوا ۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ فرما رہے تھے ۔ اس نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ کسی چیز سے اوروں کو روکتے ہیں اور خود اسے کرتے ہیں ۔ آپ نے سمجھا نہیں ۔ اس لیے پوچھا کہ لوگ کیا کہتے ہیں حضرت بہزبن حکیم کے دادا کہتے ہیں میں نے بیچ میں بولنا شروع کر دیا کہ اچھا ہے آپ کے کان میں یہ الفاظ نہ پڑیں کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کے منہ سے میری قوم کے لیے کوئی بد دعا نکل جائے کہ پھر انہیں فلاح نہ ملے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برابر اسی کوشش میں رہے یہاں تک کہ آپ نے اس کی بات سمجھ لی اور فرمانے لگے کیا انہوں نے ایسی بات زبان سے نکالی؟ یا ان میں سے کوئی اس کا قائل ہے؟ واللہ اگر میں ایسا کروں تو اس کا بوجھ بار میرے ذمے ہے ان پر کچھ نہیں ۔ اس کے پڑوسیوں کو چھوڑ دو ۔ اسی قبیل سے وہ حدیث بھی ہے جسے مسند احمد لائے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میری جانب سے کوئی ایسی حدیث سنو کہ تمہارے دل اس کا انکار کریں اور تمہارے بدن اور بال اس سے علیحدگی کریں یعنی متاثر نہ ہوں اور تم سمجھ لو کہ وہ تم سے بہت دور ہے تو میں اس سے اس سے بھی زیادہ دور ہوں ۔ اس کی اسناد صحیح ہے ۔ حضرت مسروق کہتے ہیں کہ ایک عورت حضرت عبداللہ بن مسعود کے پاس آئی اور کہنے لگی کیا آپ بالوں میں جوڑ لگانے کو منع کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں ۔ اس نے کہا آپ کے گھر کی بعض عورتیں تو ایسا کرتی ہیں آپ نے فرمایا اگر ایسا ہو تو میں نے اللہ کے نیک بندے کی وصیت کی حفاظت نہیں کی ۔ میرا ارادہ نہیں کہ جس چیز سے تمہیں روکوں اس کے برعکس خود کروں ۔ حضرت ابو سلیمان ضبی کہتے ہیں کہ ہمارے پاس امیر المومنین حضرت عمر بن عبد العزیز کے رسالے آتے تھے جن میں اوامر ونواہی لکھے ہوئے ہوتے تھے اور آخر میں یہ لکھا ہوتا تھا کہ میں بھی اس میں ہی ہوں جو اللہ کے نیک بندے نے فرمایا کہ میری توفیق اللہ ہی کے فضل سے ہے ۔ اسی پر میرا توکل ہے اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں ۔