Surah

Information

Surah # 11 | Verses: 123 | Ruku: 10 | Sajdah: 0 | Chronological # 52 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 12, 17, 114, from Madina
قَالُوۡا يٰشُعَيۡبُ مَا نَفۡقَهُ كَثِيۡرًا مِّمَّا تَقُوۡلُ وَاِنَّا لَـنَرٰٮكَ فِيۡنَا ضَعِيۡفًا‌ ۚ وَلَوۡلَا رَهۡطُكَ لَرَجَمۡنٰكَ‌ وَمَاۤ اَنۡتَ عَلَيۡنَا بِعَزِيۡزٍ‏ ﴿91﴾
انہوں نے کہا اے شعیب! تیری اکثر باتیں تو ہماری سمجھ میں ہی نہیں آتیں اور ہم تجھے اپنے اندر بہت کمزور پاتے ہیں اگر تیرے قبیلے کا خیال نہ ہوتا تو ہم تجھے سنگسار کر دیتے اور ہم تو تجھے کوئی حیثیت والی ہستی نہیں گنتے ۔
قالوا يشعيب ما نفقه كثيرا مما تقول و انا لنرىك فينا ضعيفا و لو لا رهطك لرجمنك و ما انت علينا بعزيز
They said, "O Shu'ayb, we do not understand much of what you say, and indeed, we consider you among us as weak. And if not for your family, we would have stoned you [to death]; and you are not to us one respected."
Unhon ney kaha aey shoaib! Teri aksar baaten to humari samajh mein hi nahi aatin aur hum to tujhay apney andar boht kamzor patay hain agar teray qabeelay ka khayal na hota to hum to tujhay sangsaar ker detay aur hum tujhay koi heysiyat wali hasti nahi gintay.
وہ بولے : اے شعیب ! تمہاری بہت سی باتیں توہماری سمجھ ہی میں نہیں آتیں ، اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ تم ہمارے درمیان ایک کمزور آدمی ہو ، اور اگر تمہارا خاندان نہ ہوتا تو ہم تمہیں پتھر مار مار کر ہلاک کردیتے ۔ ہم پر تمہارا کچھ زور نہیں چلتا ۔
بولے اے شعیب! ہماری سمجھ میں نہیں آتیں تمہاری بہت سی باتیں اور بیشک ہم تمہیں اپنے میں کمزور دیکھتے ہیں ( ف۱۸٦ ) اور اگر تمہارا کنبہ نہ ہوتا ( ف۱۸۷ ) تو ہم نے تمہیں پتھراؤ کردیا ہوتا اور کچھ ہماری نگاہ میں تمہیں عزت نہیں ،
انہوں نے جواب دیا اے شعیب ، تیری بہت سی باتیں تو ہماری سمجھ ہی میں نہیں آتیں ۔ 102 اور ہم دیکھتے ہیں کہ تو ہمارے درمیان ایک بے زور آدمی ہے ، تیری برادری نہ ہوتی تو ہم کبھی کا تجھے سنگسار کر چکے ہوتے ، تیرا بل بوتا تو اتنا نہیں ہے کہ ہم پر بھاری ہو ۔ 103
وہ بولے: اے شعیب! تمہاری اکثر باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں اور ہم تمہیں اپنے معاشرے میں ایک کمزور شخص جانتے ہیں ، اور اگر تمہارا کنبہ نہ ہوتا تو ہم تمہیں سنگ سار کر دیتے اور ( ہمیں اسی کا لحاظ ہے ورنہ ) تم ہماری نگاہ میں کوئی عزت والے نہیں ہو
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :102 اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو زبردستی مومن بنانا چاہتے تھے اور اللہ تعالیٰ آپ کو ایسا کرنے سے روک رہا تھا ۔ دراصل اس فقرے میں وہی اندازِی بیان اختیار کیا گیا ہے جو قرآن میں بکثرت مقامات پر ہمیں ملتا ہے ، کہ خطاب بظاہر تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوتا ہے مگر اصل میں لوگوں کو وہ بات سنانی مقصود ہوتی ہے جو نبی کو خطاب کر کے فرمائی جاتی ہے یہاں جو کچھ کہنا مقصود ہے وہ یہ ہے کہ لوگو ، حجت اور دلیل سے ہدایت و ضلالت کا فرق کھول کر رکھ دینے اور راہِ راست صاف صاف دکھا دینے کا جو حق تھا وہ تو ہمارے نبی نے پورا پورا ادا کر دیا ہے ۔ اب اگر تم خود راست رو بننا چاہتے اور تمہارا سیدھی راہ پر آنا صرف اسی پر موقوف ہے کہ کوئی تمہیں زبر دستی راہِ راست پر لائے تو تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ نبی کے سپرد یہ کام نہیں کیا گیا ہے ۔ ایسا جبری ایمان اگر اللہ کو منظور ہوتا تو اس کے لیے اُسے نبی بھیجنے کی ضرورت ہی کیا تھی ، یہ کام تو وہ خود جب چاہتا کر سکتا تھا ۔ سورة هُوْد حاشیہ نمبر :103 یعنی جس طرح تمام نعمتیں تنہا اللہ کے اختیار میں ہیں اور کوئی شخص کسی نعمت کو بھی اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر نہ خود حاصل کر سکتا ہے نہ کسی دوسرے شخص کو بخش سکتا ہے ، اسی طرح یہ نعمت بھی کہ کوئی شخص صاحب ایمان ہو اور راہِ راست کی طرف ہدایت پائے اللہ کے اذن پر منحصر ہے ۔ کوئی شخص نہ اس نعمت کو اذنِ الہٰی کے بغیر خود پا سکتا ہے ، اور نہ کسی انسان کے اختیار میں یہ ہے کہ جس کو چاہے یہ نعمت عطا کردے ۔ پس نبی اگر سچے دل سے یہ چاہے بھی کہ لوگوں کو مومن بنا دے تو نہیں بنا سکتا ۔ اس لیے کہ اللہ کا اذن اور اس کوتوفیق درکار ہے ۔
قوم مدین کا جواب اور اللہ کا عتاب قوم مدین کے کہا کہ اے شعیب آپ کی اکثر باتیں ہماری سمجھ میں تو آتی نہیں ۔ اور خود آپ بھی ہم میں بے انتہا کمزور ہیں ۔ سعید و غیرہ کا قول ہے کہ آپ کی نگاہ کم تھی ۔ مگر آپ بہت ہی صاف گو تھے ، یہاں تک کہ آپ کو خطیب الانبیاء کا لقب حاصل تھا ۔ سدی کہتے ہیں اس وجہ سے کمزور کہا گیا ہے کہ آپ اکیلے تھے ۔ مراد اس سے آپ کی حقارت تھی ۔ اس لیے کہ آپ کے کنبے والے بھی آپ کے دین پر نہ تھے ۔ کہتے ہیں کہ اگر تیری برادری کا لحاظ نہ ہوتا تو ہم تو پتھر مار مار کر تیرا قصہ ہی ختم کر دیتے ۔ یا یہ کہ تجھے دل کھول کر برا کہتے ۔ ہم میں تیری کوئی قدر و منزلت ، رفعت وعزت نہیں ۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا بھائیو تم مجھے میری قرابت داری کی وجہ سے چھوڑ تے ہو ۔ اللہ کی وجہ سے نہیں چھوڑتے تو کیا تمہارے نزدیک قبیلے والے اللہ سے بھی بڑھ کر ہیں اللہ کے نبی کو برائی پہنچاتے ہوئے اللہ کا خوف نہیں کرتے افسوس تم نے کتاب اللہ کو پیٹھ پیچھے ڈال دیا ۔ اس کی کوئی عظمت و اطاعت تم میں نہ رہی ۔ خیر اللہ تعالیٰ تمہارے تمام حال احوال جانتا ہے وہ تمہیں پورا بدلہ دے گا ۔