Surah

Information

Surah # 11 | Verses: 123 | Ruku: 10 | Sajdah: 0 | Chronological # 52 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 12, 17, 114, from Madina
وَاَمَّا الَّذِيۡنَ سُعِدُوۡا فَفِى الۡجَـنَّةِ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالۡاَرۡضُ اِلَّا مَا شَآءَ رَبُّكَ‌ ؕ عَطَآءً غَيۡرَ مَجۡذُوۡذٍ‏ ﴿108﴾
لیکن جو نیک بخت کئے گئے وہ جنت میں ہونگے جہاں ہمیشہ رہیں گے جب تک آسمان و زمین باقی رہے مگر جو تیرا پروردگار چاہے یہ بے انتہا بخشش ہے ۔
و اما الذين سعدوا ففي الجنة خلدين فيها ما دامت السموت و الارض الا ما شاء ربك عطاء غير مجذوذ
And as for those who were [destined to be] prosperous, they will be in Paradise, abiding therein as long as the heavens and the earth endure, except what your Lord should will - a bestowal uninterrupted.
Lekin jo nek bakht kiye gaye woh jannat mein hongay jahan hamesha rahen gay jab tak aasman-o-zamin baqi rahey magar jo tera perwerdigar chahaye. Yeh bey inteha bakhsish hai.
اور جو لوگ خوشحال ہوں گے وہ جنت میں ہوں گے جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ، جب تک آسمان اور زمین قائم ہیں ، الا یہ کہ تمہارے رب ہی کو کچھ اور منظور ہو ۔ یہ ایک ایسی عطا ہوگی جو کبھی ختم ہونے میں نہیں آئے گی ۔
اور وہ جو خوش نصیب ہوئے وہ جنت میں ہیں ہمیشہ اس میں رہیں گے جب تک آسمان و زمین مگر جتنا تمہارے رب نے چاہا ( ف۲۱۷ ) یہ بخشش ہے کبھی ختم نہ ہوگی ،
رہے وہ لوگ جو نیک بخت نکلیں گے ، تو وہ جنّت میں جائیں گے اور وہاں ہمیشہ رہیں گے جب تک زمین و آسمان قائم ہیں ، اِلّا یہ کہ تیرا ربّ کچھ اور چاہے ۔ 109 ایسی بخشش ان کو ملے گی جس کا سلسلہ کبھی منقطع نہ ہوگا ۔
اور جو لوگ نیک بخت ہوں گے ( وہ ) جنت میں ہوں گے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے جب تک آسمان اور زمین ( جو اس وقت ہوں گے ) قائم رہیں مگر یہ کہ جو آپ کا رب چاہے ، یہ وہ عطا ہوگی جو کبھی منقطع نہ ہوگی
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :109 یعنی ان لوگوں میں ہرگز شامل نہ ہو جو اللہ کی ذات میں ، اس کی صفات میں ، اس کے حقوق میں اور اس کے اختیارات میں کسی طور پر غیر اللہ کو شریک کرتے ہیں ۔ خواہ وہ غیر اللہ ان کا اپنا نفس ہو ، یا کوئی دوسرا انسان ہو ، یا انسانوں کا کوئی مجموعہ ہو ، یا کوئی روح ہو ، جن ہو ، فرشتہ ہو ، یا کوئی مادّی یا خیالی یا وہمی وجود ہو ۔ پس مطالبہ صرف اس ایجابی صورت ہی میں نہیں ہے کہ توحیدِ خالص کا راستہ پوری استقامت کے ساتھ اختیار کر ۔ بلکہ اس سلبی صورت میں بھی ہے کہ ان لوگوں سے الگ ہو جا جو کسی شکل اور ڈھنگ کرتے ہوں ۔ عقیدے ہی میں نہیں عمل میں بھی ، انفرادی طرزِ زندگی ہی میں نہیں اجتماعی نظام حیات میں بھی ، معبدوں اور پرستش گاہوں ہی میں نہیں درس گاہوں میں بھی ، عدالت خانوں میں بھی ، قانون سازی کی مجلسوں میں بھی ، سیاست کے ایوانوں میں بھی ، معیشت کے بازاروں میں بھی ، غرض ہر جگہ ان لوگوں کے طریقے سے اپنا طریقہ الگ کر لے جنہوں نے اپنے افکار و اعمال کا پورا نظام خدا پرستی اور ناخدا پرستی کی آمیزش پر قائم کر رکھا ہے ۔ توحید کا پیرو زندگی کے کسی پہلو اور کسی شعبے میں بھی شرک کی راہ چلنے والوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر نہیں چل سکتا ، کجا کہ آگے وہ ہوں اور پیچھے یہ اور پھر بھی اس کی توحید پرستی کے تقاضے اطمینان سے پورے ہوتے رہیں! پھر مطالبہ شرک جلی ہی سے پرہیز کا نہیں ہے بلکہ شرک خفی سے بھی کامل اور سخت اجتناب کا ہے ۔ بلکہ شرک خفی زیادہ خوفناک ہے اور اس سے ہوشیار رہنے کی اور بھی زیادہ ضرورت ہے ۔ بعض نادان لوگ ”شرک خفی“ کو ”شرک خفیف“ سمجھتے ہیں اور ان کا گمان یہ ہے کہ اس کا معاملہ اتنا اہم نہیں ہے جتنا شرک جلی کا ہے ۔ حالاں کہ خفی کے معنی خفیف کے نہیں ہیں ، پوشیدہ و مستور کے ہیں ۔ اب یہ سوچنے کی بات ہے کہ جو دشمن منہ کھول کر دن دہاڑے سامنے آجائے وہ زیادہ خطرناک ہے یا وہ جو آستین میں چھُا ہوا ہو یا دوست کے لباس میں معانقہ کر رہا ہو؟ بیماری وہ زیادہ مہلک ہے جس کی علامات بالکل نمایاں ہوں یا وہ جو مدتوں تک تندرستی کے دھوکے میں رکھ کر اندر ہی اندر صحت کی جڑ کھوکھلی کر تی رہے؟ جس شرک کو ہر شخص بیک نظر دیکھ کر کہہ دے کہ یہ شرک ہے ، اس سے تو دین توحید کا تصادم بالکل کھلا ہوا ہے ۔ مگر جس شرک کو سمجھنے کے لیے گہری نگاہ اور مقتضیات ِ توحید کا عمیق فہم درکار ہے وہ اپنی غیر مرئی جڑیں دین کے نظام میں اس طرح پھیلاتا ہے کہ عام اہل توحید کو ان کی خبر تک نہیں ہوتی اور رفتہ رفتہ ایسے غیر محسوس طریقے سے دین کے مغز کو کھا جاتا ہے کہ کہیں خطرے کا الارم بجنے کی نوبت ہی نہیں آتی ۔
انبیاء کے فرماں بردار اور جنت رسولوں کے تابعدار جنت میں رہیں گے ۔ جہاں سے کبھی نکلنا نہ ہوگا ۔ زمین و آسمان کی بقا تک ان کی بھی جنت میں بقا رہے گی مگر جو اللہ چاہے یعنی یہ بات بذاتہ واجب نہیں بلکہ اللہ کی مشیت اور اسکے ارادے پر ہے بقول ضحاک و حسن یہ بھی موحد گنہگاروں کے حق میں ہے وہ کچھ مدت جہنم میں گزار کر اس کے بعد وہاں سے نکالے جائیں گے یہ عطیہ ربانی ہے جو ختم نہ ہو گا ۔ نہ گھٹے گا یہ اس لیے فرمایا کہ کہیں ذکر مشیت سے یہ کھٹکا نہ گزرے کہ ہمیشگی نہیں ۔ جیسے کہ دوزخیوں کے دوام کے بعد بھی اپنی مشیت اور ارادے کی طرف رجوع کیا ہے ۔ سب اس کی حکمت و عدل ہے وہ ہر اس کام کو کر گزرتا ہے جس کا ارادہ کرے ۔ بخاری و مسلم میں ہے موت کو چت کبرے مینڈھے کی صورت میں لایا جائے گا اور اسے ذبح کر دیا جائے گا ۔ پھر فرما دیا جائے گا کہ اہل جنت تم ہمیشہ رہو گے اور موت نہیں اور جہنم والوں تمہارے لیے ہمیشگی ہے موت نہیں ۔