Surah

Information

Surah # 12 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 53 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 1, 2, 3, 7, from Madina
وَجَآءَتۡ سَيَّارَةٌ فَاَرۡسَلُوۡا وَارِدَهُمۡ فَاَدۡلٰى دَلۡوَهٗ‌ ؕ قَالَ يٰبُشۡرٰى هٰذَا غُلٰمٌ‌ ؕ وَاَسَرُّوۡهُ بِضَاعَةً  ‌ؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌۢ بِمَا يَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿19﴾
اور ایک قافلہ آیا اور انہوں نے اپنے پانی لانے والے کو بھیجا اس نے اپنا ڈول لٹکا دیا کہنے لگا واہ واہ خوشی کی بات ہے یہ تو ایک لڑکا ہے انہوں نے اسے مال تجارت قرار دے کر چھپا دیا اور اللہ تعالٰی اس سے باخبر تھا جو وہ کر رہے تھے ۔
و جاءت سيارة فارسلوا واردهم فادلى دلوه قال يبشرى هذا غلم و اسروه بضاعة و الله عليم بما يعملون
And there came a company of travelers; then they sent their water drawer, and he let down his bucket. He said, "Good news! Here is a boy." And they concealed him, [taking him] as merchandise; and Allah was knowing of what they did.
Aur aik qafila aaya aur unhon ney apney pani laney walay ko bheja uss ney apna dol latkaya kehney laga waah waah khushi ki baat hai yeh to aik larka hai unhon ney issay maal-e-tijarat qarar dey ker chupa diya aur Allah Taalaa iss say ba khabar tha jo woh ker rahey thay.
اور ( دوسری طرف جس جگہ انہوں نے یوسف کو کنویں میں ڈالا تھا ، وہاں ) ایک قافلہ آیا ۔ قافلے کے لوگوں نے ایک آدمی پانی لانے کے لیے بھیجا ، اور اس نے اپنا ڈول ( کنویں میں ) ڈالا تو ( وہاں یوسف ( علیہ السلام ) کو دیکھ کر ) پکار اٹھا : لو خوشخبری سنو ! یہ تو ایک لڑکا ہے ۔ ( ١١ ) اور قافلے والوں نے انہیں ایک تجارت کا مال سمجھ کر چھپا لیا ، اور جو کچھ وہ کر رہے تھے ، اللہ کو اس کا پورا پورا علم تھا ۔
اور ایک قافلہ آیا ( ف٤۳ ) انہوں نے اپنا پانی لانے والا بھیجا ( ف٤٤ ) تو اس نے اپنا ڈول ڈال ( ف٤۵ ) بولا آہا کیسی خوشی کی بات ہے یہ تو ایک لڑکا ہے اور اسے ایک پونجی بناکر چھپالیا ( ف٤٦ ) اور اللہ جانتا ہے جو وہ کرتے ہیں ،
ادھر ایک قافلہ آیا اور اس نے اپنے سقّے کو پانی لانے کے لیے بھیجا ۔ سقّے نے جو کنویں میں ڈول ڈالا تو ﴿یوسف کو دیکھ کر ﴾ پکار اٹھا مبارک ہو ، یہاں تو ایک لڑکا ہے ۔ ان لوگوں نے اس کو مالِ تجارت سمجھ کر چھپا لیا ، حالانکہ جو کچھ وہ کر رہے تھے خدا اس سے با خبر تھا ۔
اور ( ادھر ) راہ گیروں کا ایک قافلہ آپہنچا تو انہوں نے اپنا پانی بھرنے والا بھیجا سو اس نے اپنا ڈول ( اس کنویں میں ) لٹکایا ، وہ بول اٹھا: خوشخبری ہو یہ ایک لڑکا ہے ، اور انہوں نے اسے قیمتی سامانِ تجارت سمجھتے ہوئے چھپا لیا ، اور اﷲ ان کاموں کو جو وہ کر رہے تھے خوب جاننے والا ہے
کنویں سے بازار مصر تک بھائی تو حضرت یوسف کو کنویں میں ڈال کر چل دیئے ۔ یہاں تین دن آپ کو اسی اندھیرے کنویں میں اکیلے گذر گئے ۔ محمد بن اسحاق کا بیان ہے کہ اس کنویں میں گرا کر بھائی تماشا دیکھنے کے لیے اس کے آس پاس ہی دن بھر پھرتے رہے کہ دیکھیں وہ کیا کرتا ہے اور اس کے ساتھ کیا کیا جاتا ہے؟ قدرت اللہ کی کہ ایک قافلہ وہیں سے گزرا ۔ انہوں نے اپنے سقے کو پانی کے لے بھیجا ۔ اس نے اسی کونے میں ڈول ڈالا ، حضرت یوسف علیہ السلام نے اس کی رسی کو مضبوط تھام لیا اور بجائے پانی کے آپ باہر نکلے ۔ وہ آپ کو دیکھ کر باغ باغ ہو گیا رہ نہ سکا با آواز بلند کہہ اٹھا کہ لو سبحان اللہ یہ تو نوجوان بچہ آگیا ۔ دوسری قرأت اس کی یابشرای بھی ہے ۔ سدی کہتے ہیں بشریٰ سقے کے بھیجنے والے کا نام بھی تھا اس نے اس کا نام لے کر پکار کر خبر دی کہ میرے ڈول میں تو ایک بچہ آیا ہے ۔ لیکن سدی کا یہ قول غریب ہے ۔ اس طرح کی قرآت پر بھی وہی معنی ہو سکتے ہیں اس کی اضافت اپنے نفس کی طرف ہے اور یائے اضافت ساقط ہے ۔ اسی کی تائید قرآت یا بشرای سے ہوتی ہے جیسے عرب کہتے یانفس اصبری اور یا غلام اقبل اضافت کے حرف کو ساقط کر کے ۔ اس وقت کسرہ دینا بھی جائز ہے اور رفع دینا بھی ۔ پس وہ اسی قبیل سے ہے اور دوسری قرآت اس کی تفسیر ہے ۔ واللہ اعلم ۔ ان لوگوں نے آپ کو بحیثیت پونجی کے چھپا لیا قافلے کے اور لوگوں پر اس راز کا ظاہر نہ کیا بلکہ کہہ دیا کہ ہم نے کنویں کے پاس کے لوگوں سے اسے خریدا ہے ، انہوں نے ہمیں اسے دے دیا ہے تاکہ وہ بھی اپنا حصہ نہ ملائیں ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد یہ بھی ہے کہ برادران یوسف نے شناخت چھپائی اور حضرت یوسف نے بھی اپنے آپ کو ظاہر نہ کیا کہ ایسا نہ ہو یہ لوگ کہیں مجھے قتل ہی نہ کردیں ۔ اس لیے چپ چاپ بھائیوں کے ہاتھوں آپ بک گئے ۔ سقے سے انہوں نے کہا اس نے آواز دے کر بلا لیا انہوں نے اونے پونے یوسف علیہ السلام کو ان کے ہاتھ بیچ ڈالا ۔ اللہ کچھ ان کی اس حرکت سے بےخبر نہ تھا وہ خوب دیکھ بھال رہا تھا وہ قادر تھا کہ اس وقت اس بھید کو ظاہر کر دے لیکن اس کی حکمتیں اسی کے ساتھ ہیں اس کی تقدیر یونہی یعنی جاری ہوئی تھی ۔ خلق و امرا اسی کا ہے وہ رب العالمین برکتوں والا ہے اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ایک طرح تسکین دی گئی ہے کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ قوم آپ کو دکھ دے رہی ہے میں قادر ہوں کہ آپ کو ان سے چھڑا دوں انہیں غارت کردوں لیکن میرے کام حکمت کے ساتھ ہیں دیر ہے اندھیر نہیں بےفکر رہو ، عنقریب غالب کروں گا اور رفتہ رفتہ ان کو پست کردوں گا ۔ جیسے کہ یوسف اور ان کے بھائیوں کے درمیان میری حکمت کا ہاتھ کام کرتا رہا ۔ یہاں تک کا آخر انجام حضرت یوسف کے سامنے انہیں جھکنا پڑا اور ان کے مرتبے کا اقرار کرنا پڑا ۔ بہت تھوڑے مول پر بھائیوں نے انہیں بیچ دیا ۔ ناقص چیز کے بدلے بھائی جیسا بھائی دے دیا ۔ اور اس کی بھی انہیں کوئی پرواہ نہ تھی بلکہ اگر ان سے بالکل بلا قیمت مانگا جاتا تو بھی دے دیتے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مطلب یہ ہے کہ قافلے والوں نے اسے بہت کم قیمت پر خریدا ۔ لیکن یہ کچھ زیادہ درست نہیں اس لیے کہ انہوں نے تو اسے دیکھ کر خوشیاں منائی تھی اور بطور پونجی اسے پوشیدہ کر دیا تھا ۔ پس اگر انہیں اس کی بےرغبتی ہوتی تو وہ ایسا کیوں کرتے؟ پس ترجیح اسی بات کو ہے کہ یہاں مراد بھائیوں کا حضرت یوسف کو گرے ہوئے نرخ پر بیچ ڈالنا ہے ۔ نجس سے مراد حرام اور ظلم بھی ہے ۔ لیکن یہاں وہ مراد نہیں لی گئی ۔ کیونکہ اس قیمت کی حرمت کا علم تو ہر ایک کو ہے ۔ حضرت یوسف علیہ السلام نبی بن نبی بن نبی خلیل الرحمن علیہ السلام تھا ۔ پس آپ تو کریم بن کریم بن کریم بن کریم تھے ۔ پس یہاں مراد نقص کم تھوڑی اور کھوٹی بلکہ برائے نام قیمت پر بیچ ڈالنا ہے باوجود اس کے وہ ظلم و حرام بھی تھا ۔ بھائی کو بیچ رہے ہیں اور وہ بھی کوڑیوں کے مول ۔ چند درہموں کے بدلے بیس یا بائیس یا چالیس درہم کے بدلے ۔ یہ دام لے کر آپس میں بانٹ لیے ۔ اور اس کی انہیں کوئی پرواہ نہ تھی انہیں نہیں معلوم تھا کہ اللہ کے ہاں ان کی کیا قدر ہے؟ وہ کیا جانتے تھے کہ یہ اللہ کے نبی بننے والے ہں ۔ حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اتنا سب کچھ کرنے پر بھی صبر نہ ہوا قافلے کے پیچھے ہو لئے اور ان سے کہنے لگے دیکھو اس غلام میں بھاگ نکلنے کی عادت ہے ، اسے مضبوط باندھ دو ، کہیں تمہارے ہاتھوں سے بھی بھاگ نہ جائے ۔ اسی طرح باندھے باندھے مصر تک پہنچے اور وہاں آپ کو بازار میں لیجا کر بیچنے لگے ۔ اس وقت حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا مجھے جو لے گا وہ خوش ہو جائے گا ۔ پس شاہ مصر نے آپ کو خرید لیا وہ تھا بھی مسلمان ۔