اور یوسف ( علیہ السلام ) کے بھائیوں نے ( جو موقع پر آگئے تھے اسے اپنا بھگوڑا غلام کہہ کر انہی کے ہاتھوں ) بہت کم قیمت گنتی کے چند درہموں کے عوض بیچ ڈالا کیونکہ وہ راہ گیر اس ( یوسف علیہ السلام کے خریدنے ) کے بارے میں ( پہلے ہی ) بے رغبت تھے ( پھر راہ گیروں نے اسے مصر لے جا کر بیچ دیا )
سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :15
اس معاملہ کی سادہ صورت یہ معلوم ہوتی ہے کہ برادران یوسف علیہ السلام حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں میں پھینک کر چلے گئے تھے بعد میں قافلے والوں نے آکر ان کو وہاں سے نکالا اور مصر لے جاکر بیچ دیا ۔ مگر بائیبل کا بیان ہے کہ برادران یوسف علیہ السلام نے بعد میں اسماعیلیوں کے ایک قافلے کو دیکھا اور چاہا کہ یوسف علیہ السلام کو کنویں سے نکال ان کے ہاتھ بیچ دیں ۔ لیکن اس پہلے ہی مدین کے سوداگر انہیں کنویں سے نکال چکے تھے ۔ ان سوداگروں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو بیس روپے میں اسماعیلیوں کے ہاتھ بیچ ڈالا ۔ پھر آگے چل کر بائیبل کے مصنفین یہ بھول جاتے ہیں کہ اوپر وہ اسماعیلیوں کے ہاتھ حضرت یوسف علیہ السلام کو فروخت کرا چکے ہیں ۔ چنانچہ وہ اسماعیلیوں کے بجائے پھر مدین ہی کے سوداگروں سے مصر میں انہیں دوبارہ فروخت کراتے ہیں ( ملاحظہ ہو کتاب پیدائش باب ۳۷ ۔ آیت ۲۵ تا ۲۸ و آیت ۳٦ ) ۔ اس کے برعکس تلمود کا بیان ہے کہ مدین کے سوداگروں نے یوسف علیہ السلام کو کنویں سے نکال کر اپنا غلام بنا لیا ۔ پھر برادران یوسف علیہ السلام نے حضرت یوسف علیہ السلام کو ان کے قبضہ میں دیکھ کر ان سے جھگڑا کیا ۔ آخرکار انہوں نے ۲۰ درہم قیمت ادا کر کے برادران یوسف علیہ السلام کو راضی کیا ۔ پھر انہوں نے بیس ہی درہم میں یوسف علیہ السلام کو اسماعیلیوں کے ہاتھ بیچ دیا اور اسماعیلیوں نے مصر لے جاکر انہیں فروخت کیا ۔ یہیں سے مسلمانوں میں یہ روایت مشہور ہوئی ہے کہ برادران یوسف علیہ السلام نے حضرت یوسف علیہ السلام کو فروخت کیا تھا ۔ لیکن واضح رہنا چاہیے کہ قرآن اس روایت کی تائید نہیں کرتا ۔