Surah

Information

Surah # 12 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 53 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 1, 2, 3, 7, from Madina
وَقَالَ الَّذِى اشۡتَرٰٮهُ مِنۡ مِّصۡرَ لِامۡرَاَتِهٖۤ اَكۡرِمِىۡ مَثۡوٰٮهُ عَسٰٓى اَنۡ يَّـنۡفَعَنَاۤ اَوۡ نَـتَّخِذَهٗ وَلَدًا‌ ؕ وَكَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوۡسُفَ فِى الۡاَرۡضِوَلِنُعَلِّمَهٗ مِنۡ تَاۡوِيۡلِ الۡاَحَادِيۡثِ‌ؕ وَاللّٰهُ غَالِبٌ عَلٰٓى اَمۡرِهٖ وَلٰـكِنَّ اَكۡثَرَ النَّاسِ لَا يَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿21﴾
مصر والوں میں سے جس نے اسے خریدا تھا اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ اسے بہت عزت و احترام کے ساتھ رکھو ، بہت ممکن ہے کہ یہ ہمیں فائدہ پہنچائے یا اسے ہم اپنا بیٹا ہی بنا لیں ، یوں ہم نے مصر کی سرزمین پر یوسف کا قدم جما دیا ، کہ ہم اسے خواب کی تعبیر کا کچھ علم سکھا دیں ۔ اللہ اپنے ارادے پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ بے علم ہوتے ہیں ۔
و قال الذي اشترىه من مصر لامراته اكرمي مثوىه عسى ان ينفعنا او نتخذه ولدا و كذلك مكنا ليوسف في الارض و لنعلمه من تاويل الاحاديث و الله غالب على امره و لكن اكثر الناس لا يعلمون
And the one from Egypt who bought him said to his wife, "Make his residence comfortable. Perhaps he will benefit us, or we will adopt him as a son." And thus, We established Joseph in the land that We might teach him the interpretation of events. And Allah is predominant over His affair, but most of the people do not know.
Misir walon mein say jiss ney ussay khareeda tha uss ney apni biwi say kaha issay boht izzat-o-ehtram kay sath rakho boht mumkin hai kay yeh humen faeeda phonchaye ya issay hum apna beta hi bana len yun to hum ney misir ki sir zamin yousuf ka qadam jama diya kay hum ussay khuwab ki tabeer ka kuch ilm sikha den. Allah apney iraday per ghalib hai lekin aksar log bey ilm hotay hain.
اور مصر کے جس آدمی نے انہیں خریدا ، اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ : اس کو عزت سے رکھنا ۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ ہمیں فائدہ پہنچائے گا ، یا پھر ہم اسے بیٹا بنا لیں گے ، ( ١٣ ) اس طرح ہم نے اس سرزمین میں یوسف کے قدم جمائے تاکہ انہیں باتوں کا صحیح مطلب نکالنا سکھائیں ، اور اللہ کو اپنے کام پر پورا قابو حاصل ہے ، لیکن بہت سے لوگ نہیں جانتے ۔
اور مصر کے جس شخص نے اسے خریدا وہ اپنی عورت سے بولا ( ف٤۹ ) انھیں عزت سے رکھو ( ف۵۰ ) شاید ان سے ہمیں نفع پہنچے ( ف۵۱ ) یا ان کو ہم بیٹا بنالیں ( ف۵۲ ) اور اسی طرح ہم نے یوسف کو اس زمین میں جماؤ ( رہنے کا ٹھکانا ) دیا اور اس لیے کہ اسے باتوں کا انجام سکھائیں ۰ف۵۳ ) اور اللہ اپنے کام پر غالب ہے مگر اکثر آدمی نہیں جانتے ،
مصر میں جس شخص نے اسے خریدا 16 اس نے اپنی بیوی 17 سے کہا اس کو اچھی طرح رکھنا ، بعید نہیں کہ یہ ہمارے لیے مفید ثابت ہو یا ہم اسے بیٹا بنا لیں ۔ 18 اس طرح ہم نے یوسف کے لیے اس سرزمین میں قدم جمانے کی صورت نکالی اور اسے معاملہ فہمی کی تعلیم دینے کا انتظام کیا ۔ 19
اور مصر کے جس شخص نے اسے خریدا تھا ( اس کا نام قطفیر تھا اور وہ بادشاہِ مصر ریان بن ولید کا وزیر خزانہ تھا اسے عرف عام میں عزیزِ مصر کہتے تھے ) اس نے اپنی بیوی ( زلیخا ) سے کہا: اسے عزت و اکرام سے ٹھہراؤ! شاید یہ ہمیں نفع پہنچائے یا ہم اسے بیٹا بنا لیں ، اور اس طرح ہم نے یوسف ( علیہ السلام ) کو زمین ( مصر ) میں استحکام بخشا اور یہ اس لئے کہ ہم اسے باتوں کے انجام تک پہنچنا ( یعنی علمِ تعبیرِ رؤیا ) سکھائیں ، اور اﷲ اپنے کام پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے
سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :16 بائیبل میں اس شخص کا نام فوطیفار لکھا ہے ۔ قرآن مجید آگے چل کر اسے ”عزیز“ کے لقب سے یاد کرتا ہے ، اور پھر ایک دوسرے موقع پر یہی لقب حضرت یوسف علیہ السلام کے لیے بھی استعمال کرتا ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص مصر میں کوئی بہت بڑا عہدہ دار یا صاحب منصب تھا ، کیونکہ ”عزیز“ کے معنی ایسے بااقتدار شخص کے ہیں جس کی مزاحمت نہ کہ جاسکتی ہو ۔ بائیبل اور تلمود کا بیان ہے کہ وہ شاہی جلوداروں ( باڈی گارڈ ) کا افسر تھا ، اور ابن جریر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ شاہی خزانے کا افسر تھا ۔ سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :17 تلمود میں اس عورت کا نام زَلِیخا ( Zeliha ) لکھا ہے اور یہیں سے یہ نام مسلمانوں کی روایات میں مشہور ہوا ۔ مگر یہ جو ہمارے ہاں عام شہرت ہے کہ بعد میں اس عورت سے حضرت یوسف علیہ السلام کا نکاح ہوا ، اس کی کوئی اصل نہیں ہے ، نہ قرآن میں اور نہ اسرائیلی تاریخ میں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک نبی کے مرتبے سے یہ بات بہت فروتر ہے کہ وہ کسی ایسی عورت سے نکاح کرے جس کی بدچلنی کا اس کو ذاتی تجربہ ہوچکا ہو ۔ قرآن مجید میں یہ قاعدہ کلیہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ اَلخَبِیثٰتُ لِلخَبِیثِینَ وَالخَبِیثُونَ للخَبِیثٰتِ وَالطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِینَ وَالطَّیِّبُونَ لِلطَّیِّبٰتِ ۔ بری عورتیں برے مَردوں کے لیے ہیں اور برے مرد بری عورتوں کے لیے ۔ اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لیے ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لیے ۔ سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :18 تلمود کا بیان ہے کہ اس وقت حضرت یوسف علیہ السلام کی عمر ١۸ سال تھی اور فوطیفار ان کی شاندار شخصیت کو دیکھ کر ہی سمجھ گیا تھا کہ یہ لڑکا غلام نہیں ہے بلکہ کسی بڑے شریف خاندان کا چشم و چراغ ہے جسے حالات کی گردش یہاں کھینچ لائی ہے ۔ چنانچہ جب وہ انہیں خرید رہا تھا اسی وقت اس نے سوداگروں سے کہہ دیا تھا کہ یہ غلام نہیں معلوم ہوتا ، مجھے شبہہ ہوتا ہے کہ شاید تم اسے کہیں سے چرا لائے ہو ۔ اسی بنا پر فوطیفار نے ان سے غلاموں کا سا برتاؤ نہیں کیا بلکہ انہیں اپنے گھر اور اپنی کل املاک کا مختار بنا دیا ۔ بائیبل کا بیان ہے کہ ” اس نے اپنا سب کچھ یوسف علیہ السلام کے ہاتھ میں چھوڑ دیا اور سوا روٹی کے جسے وہ کھا لیتا تھا اسے اپنی کسی چیز کا ہوش نہ تھا “ ۔ ( پیدائش ۳۹ - ٦ ) سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :19 حضرت یوسف علیہ السلام کی تربیت اس وقت تک صحرا میں نیم خانہ بدوشی اور گلہ بانی کے ماحول میں ہوئی تھی ۔ کنعان اور شمالی عرب کے علاقے میں اس وقت نہ کوئی منظم ریاست تھی اور نہ تمدن و تہذیب نے کوئی بڑی ترقی کی تھی ۔ کچھ آزاد قبائل تھے جو وقتا فوقتا ہجرت کرتے رہتے تھے ، اور بعض قبائل نے مختلف علاقوں میں مستقل سکونت اختیار کر کے چھوٹی چھوٹی ریاستیں بھی بنالی تھیں ۔ ان لوگوں کا حال مصر کے پہلو میں قریب قریب وہی تھا جو ہماری شمال مغربی سرحد پر آزاد علاقہ کے پٹھان قبائل کا ہے ۔ یہاں حضرت یوسف علیہ السلام کو جو تعلیم و تربیت ملی تھی اس میں بدویانہ زندگی کے محاسن اور خانوادہ ابراہیمی کی خداپرستی و دینداری کے عناصر تو ضرور شامل تھے ، مگر اللہ تعالیٰ اس وقت کے سب سے زیادہ متمدن اور ترقی یافتہ ملک ، یعنی مصر میں ان سے جو کام لینا چاہتا تھا ، اور اس لے لیے جس واقفیت ، جس تجربے اور جس بصیرت کی ضرورت تھی ، اس کے نشونما کا کوئی موقع بدوی زندگی میں نہ تھا ۔ اس لیے اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے یہ انتظام فرمایا کہ انہیں سلطنت مصر کے ایک بڑے عہدہ دار کے ہاں پہنچا دیا اور اس نے ان کی غیر معمولی صلاحیتوں کو دیکھ کر انہیں اپنے گھر اور اپنی جاگیر کا مختار کل بنا دیا ۔ اس طرح یہ موقع پیدا ہوگا کہ ان کی وہ تمام قابلیتیں پوری طرح نشونما پاسکیں جواب تک بروئے کار نہیں آئی تھیں اور انہیں ایک چھوٹی جاگیر کے انتظام سے وہ تجربہ حاصل ہو جائے جو آئندہ ایک بڑی سلطنت کا نظم و نسق چلانے کے لیے درکار تھا ۔ اسی مضمون کی طرف اس آیت میں اشارہ فرمایا گیا ہے ۔
بازار مصر سے شاہی محل تک رب کا لطف بیان ہو رہا ہے کہ جس نے آپ کو مصر میں خریدا ، اللہ نے اس کے دل میں آپ کی عزت و وقعت ڈال دی ۔ اس نے آپ کے نورانی چہرے کو دیکھتے ہی سمجھ لیا کہ اس میں خیر و صلاح ہے ۔ یہ مصر کا وزیر تھا ۔ اس کا نام قطفیر تھا ۔ کوئی کہتا ہے اطفیر تھا ۔ اس کے باپ کا نام دوحیب تھا ۔ یہ مصر کے خزانوں کا داروغہ تھا ۔ مصر کی سلطنت اس وقت ریان بن ولید کے ہاتھ تھی ۔ یہ عمالیق میں سے ایک شخص تھا ۔ ۔ عزیز مصر کی بیوی صاحبہ کا نام راعیل تھا ۔ کوئی کہتا ہے زلیخا تھا ۔ یہ رعابیل کی بیٹی تھیں ۔ ابن عباس کا بیان ہے کہ مصر میں جس نے آپ کو خریدا اس کا نام مالک بن ذعربن قریب بن عنق بن مدیان بن ابراہیم تھا ۔ واللہ اعلم ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں سب سے زیادہ دوربین اور دور رس اور انجام پر نظریں رکھنے والے اور عقلمندی سے تاڑنے والے تین شخص گزرے ہیں ۔ ایک تو یہی عزیز مصر کہ بیک نگاہ حضرت یوسف کو تاڑ لیا گیا اور جاتے ہی بیوی سے کہا کہ اسے اچھی طرح آرام سے رکھو ۔ دوسری وہ بچی جس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بیک نگاہ جان لیا اور جا کر باپ سے کا کہ اگر آپ کو آدمی کی ضرورت ہے تو ان سے معاملہ کر لیجئے یہ قوی اور باامانت شخص ہے ۔ تیسرے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کہ آپ نے دنیا سے رخت ہوتے ہوئے خلافت حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے شخص کو سونپی ۔ یہاں اللہ تعالیٰ اپنا ایک اور احسان بیان فرما رہا ہے کہ بھائیوں کے پھندے سے ہم نے چھڑایا پھر ہم نے مصر میں لا کر یہاں کی سرزمین پر ان کا قدم جما دیا ۔ کیونکہ اب ہمارا یہ ارادہ پورا ہونا تھا کہ ہم اسے تعبیر خواب کا کچھ علم عطا فرمائیں ۔ اللہ کے ارادہ کو کون ٹال سکتا ہے ۔ کون روک سکتا ہے؟ کون خلاف کر سکتا ہے؟ وہ سب پر غالب ہے ۔ سب اس کے سامنے عاجز ہیں جو وہ چاہتا ہے ہو کر ہی رہتا ہے جو ارادہ کرتا ہے کر چکتا ہے ۔ لیکن اکثر لوگ علم سے خالی ہوتے ہیں ۔ اس کی حکمت کو مانتے ہیں نہ اس کی حکمت کو جانتے ہیں نہ اس کی باریکیوں پر ان کی نگاہ ہوتی ہے ۔ نہ وہ اس کی حکمتوں کو سمجھ سکتے ہیں ۔ جب آپ کی عقل کامل ہوئی جب جسم اپنی نشو و نما تمام کر چکا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت عطا فرمائی اور اس سے آپ کو مخصوص کیا ۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہم نیک کاروں کو اسی طرح بھلا بدلہ دیتے ہیں ۔ کہتے ہیں اس سے مراد تینتیس برس کی عمر ہے ۔ یا تیس سے کچھ اوپر کی یا بیس کی یا چالیس کی یا پچیس کی یا تیس کی یا اٹھارہ کی ۔ یا مراد جوانی کو پہنچنا ہے اور اس کے سوا اور اقوال بھی ہیں واللہ اعلم