Surah

Information

Surah # 12 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 53 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 1, 2, 3, 7, from Madina
وَرَاوَدَتۡهُ الَّتِىۡ هُوَ فِىۡ بَيۡتِهَا عَنۡ نَّـفۡسِهٖ وَغَلَّقَتِ الۡاَبۡوَابَ وَقَالَتۡ هَيۡتَ لَـكَ‌ؕ قَالَ مَعَاذَ اللّٰهِ‌ اِنَّهٗ رَبِّىۡۤ اَحۡسَنَ مَثۡوَاىَ‌ؕ اِنَّهٗ لَا يُفۡلِحُ الظّٰلِمُوۡنَ‏ ﴿23﴾
اس عورت نے جس کے گھر میں یوسف تھے یوسف کو بہلانا پھسلانا شروع کیا کہ وہ اپنے نفس کی نگرانی چھوڑ دے اور دروازے بند کر کے کہنے لگی لو آجاؤ یوسف نے کہا اللہ کی پناہ! وہ میرا رب ہے مجھے اس نے بہت اچھی طرح رکھا ہے ۔ بے انصافی کرنے والوں کا بھلا نہیں ہوتا ۔
و راودته التي هو في بيتها عن نفسه و غلقت الابواب و قالت هيت لك قال معاذ الله انه ربي احسن مثواي انه لا يفلح الظلمون
And she, in whose house he was, sought to seduce him. She closed the doors and said, "Come, you." He said, "[I seek] the refuge of Allah . Indeed, he is my master, who has made good my residence. Indeed, wrongdoers will not succeed."
Uss aurat ney jiss kay ghar mein yousuf thay yousuf ko behlana phuslana shuroo kiya kay woh apney nafs ki nigrani chor dey aur darwazay band ker kay kehney lagi lo aajao. Yousuf ney kaha Allah ki panah! Woh mera rab hai mujhay uss ney boht achi tarah rakha hai. Bey insafi kerney walon ka bhala nahi hota.
اور جس عورت کے گھر میں وہ رہتے تھے ، اس نے ان کو ورغلانے کی کوشش کی ، ( ١٤ ) اور سارے دروازوں کو بند کردیا ، اور کہنے لگی : آ بھی جاؤ! ۔ یوسف نے کہا : اللہ کی پناہ ! وہ میرا آقا ہے ، اس نے مجھے اچھی طرح رکھا ہے ۔ ( ١٥ ) سچی بات یہ ہے کہ جو لوگ ظلم کرتے ہیں انہیں فلاح حاصل نہیں ہوتی ۔
اور وہ جس عورت ( ف۵٦ ) کے گھر میں تھا اس نے اسے لبھایا کہ اپنا آپا نہ روکے ( ف۵۷ ) اور دروازے سب بند کردیے ( ف۵۸ ) اور بولی آؤ تمہیں سے کہتی ہوں ( ف۵۹ ) کہا اللہ کی پناہ ( ف٦۰ ) وہ عزیز تو میرا رب یعنی پرورش کرنے والا ہے اس نے مجھے اچھی طرح رکھا ( ف٦۱ ) بیشک ظالموں کا بھلا نہیں ہوتا ،
جس عورت کے گھر میں وہ تھا وہ اس پر ڈورے ڈالنے لگی اور ایک روز دروازے بند کر کے بولی آجا ۔ یوسف نے کہا خدا کی پناہ ، میرے رب نے تو مجھے اچھی منزلت بخشی﴿اور میں یہ کام کروں!﴾ ایسے ظالم کبھی فلاح نہیں پایا کرتے ۔ 21
اور اس عورت ( زلیخا ) نے جس کے گھر وہ رہتے تھے آپ سے آپ کی ذات کی شدید خواہش کی اور اس نے دروازے ( بھی ) بند کر دیئے اور کہنے لگی: جلدی آجاؤ ( میں تم سے کہتی ہوں ) ۔ یوسف ( علیہ السلام ) نے کہا: اﷲ کی پناہ! بیشک وہ ( جو تمہارا شوہر ہے ) میرا مربّی ہے اس نے مجھے بڑی عزت سے رکھا ہے ۔ بیشک ظالم لوگ فلاح نہیں پائیں گے
سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :21 عام طور پر مفسرین اور مترجمین نے یہ سمجھا ہے کہ یہاں ”میرے رب“ کا لفظ حضرت یوسف علیہ السلام نے اس شخص کے لیے استعمال کیا ہے جس کی ملازمت میں وہ اس وقت تھے اور ان کے اس جواب کا مطلب یہ تھا کہ میرے آقا نے تو مجھے ایسی اچھی طرح رکھا ہے ، پھر میں یہ نمک حرامی کیسے کرسکتا ہوں کہ اس کی بیوی سے زنا کروں ۔ لیکن مجھے اس ترجمہ و تفسیر سے سخت اختلاف ہے ۔ اگرچہ عربی زبان کے اعتبار سے یہ مفہوم لینے کی بھی گنجائش ہے ، کیونکہ عربی میں لفظ رب ”آقا“ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ، لیکن یہ بات ایک نبی کی شان سے بہت گری ہوئی ہے کہ وہ ایک گناہ سے باز رہنے میں اللہ تعالیٰ کے بجائے کسی بندے کا لحاظ کرے ۔ اور قرآن میں اس کی کوئی نظیر بھی موجود نہیں ہے کہ کسی نبی نے خدا کے سوا کسی اور کو اپنا رب کہا ۔ آگے چل کر آیات ٤١ ، ٤۲ ، ۵۰ میں ہم دیکھتے ہیں کہ سیدنا یوسف علیہ السلام اپنے اور مصریوں کے مسلک کا یہ فرق بار بار واضح فرماتے ہیں کہ ان کا رب تو اللہ ہے اور مصریوں نے بندوں کو اپنا رب بنا رکھا ہے ۔ پھر جب آیت کے الفاظ میں یہ مطلب لینے کی بھی گنجائش موجود ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نےربی کہہ کر اللہ کی ذات مراد لی ہو ، تو کیا وجہ ہے کہ ہم ایک ایسے معنی کو اختیار کریں جس میں صریحا قباحت کا پہلو نکلتا ہے ۔
زلیخا کی بد نیتی سے الزام تک عزیز مصر جس نے آپ کو خریدا تھا اور بہت اچھی طرح اولاد کے مثل رکھا تھا اپنی گھر والی سے بھی تاکیداً کہا تھا کہ انہیں کسی طرح تکلیف نہ ہو عزت و اکرام سے انہیں رکھو ۔ اس عورت کی نیت میں کھوٹ آ جاتی ہے ۔ جمال یوسف پر فریفتہ ہو جاتی ہے ۔ دروازے بھیڑ کر بن سنور کر برے کام کی طرف یوسف کو بلاتی ہے لیکن حضرت یوسف بڑی سختی سے انکار کر کے اسے مایوس کر دیتے ہیں ۔ آپ فرماتے ہیں کہ تیرا خاوند میرا سردار ہے ۔ اس وقت اہل مصر کے محاورے میں بڑوں کے لیے یہی لفظ بولا جاتا تھا ۔ آپ فرماتے ہیں تمہارے خاوند کی مجھ پر مہربانی ہے وہ میرے ساتھ سلوک و احسان سے پیش آتے ہیں ۔ پھر کیسے ممکن ہے کہ میں ان کی خیانت کروں ۔ یاد رکھو چیز کو غیر جگہ رکھنے والے بھلائی سے محروم ہو جاتے ہیں ۔ ( آیت ھیت لک ) کو بعض لوگ سریانی زبان کا لفظ کہتے ہیں بعض قطبی زبان کا بعض اسے غریب لفظ بتلاتے ہیں ۔ کسائی اسی قرأت کو پسند کرتے تھے اور کہتے تھے اہل حوران کا یہ لغت ہے جو حجاز میں آگیا ہے ۔ اہل حوران کے ایک عالم نے کہا ہے کہ یہ ہمارا لغت ہے ۔ امام ابن جریر نے اس کی شہادت میں شعر بھی پیش کیا ہے ۔ اس کے دوسری قرأت ھئت بھی ہے پہلی قرأت کے معنی تو آؤ کے تھے ، اس کے معنی میں تیرے لیے تیار ہوں بعض لوگ اس قرأت کا انکار ہی کرتے ہیں ۔ ایک قرأت ھئت بھی ہے ۔ یہ قرأت غریب ہے ۔ عام مدنی لوگوں کی یہی قرأت ہے ۔ اس پر بھی شہادت میں شعر پیش کیا جاتا ہے ۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں قاریوں کی قرأت یں قریب قریب ہیں پس جس طرح تم سکھائے گئے ہو پڑھتے رہو ۔ گہرائی سے اور اختلاف سے اور لعن طعن سے اور اعتراض سے بچو اس لفظ کے یہی معنی ہیں کہ آ اور سامنے ہو وغیرہ ۔ پھر آپ نے اس لفظ کو پڑھا کسی نے کہا اسے دوسری طرح بھی پڑھتے ہیں آپ نے فرمایا درست ہے مگر میں نے تو جس طرح سیکھا ہے اسی طرح پڑھوں گا ۔ یعنی ھَیتَ نہ کہ ھِیتُ یہ لفظ تذکیر تانیث واحد تثنیہ جمع سب کے لیے یکساں ہوتا ہے ۔ جیسے ( آیت ھیت لک ھیت لکم ھیت لکماا ھیتا لکن ھیت لھن ) ۔