Surah

Information

Surah # 12 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 53 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 1, 2, 3, 7, from Madina
وَلَـقَدۡ هَمَّتۡ بِهٖ‌ۚ وَهَمَّ بِهَا‌ لَوۡلَاۤ اَنۡ رَّاٰ بُرۡهَانَ رَبِّهٖ‌ؕ كَذٰلِكَ لِنَصۡرِفَ عَنۡهُ السُّۤوۡءَ وَالۡـفَحۡشَآءَ‌ؕ اِنَّهٗ مِنۡ عِبَادِنَا الۡمُخۡلَصِيۡنَ‏ ﴿24﴾
اس عورت نے یوسف کی طرف کا قصد کیا اور یوسف اس کا قصد کرتے اگر وہ اپنے پروردگار کی دلیل نہ دیکھتے یونہی ہوا کہ ہم اس سے برائی اور بے حیائی دور کر دیں بیشک وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے تھا ۔
و لقد همت به و هم بها لو لا ان را برهان ربه كذلك لنصرف عنه السوء و الفحشاء انه من عبادنا المخلصين
And she certainly determined [to seduce] him, and he would have inclined to her had he not seen the proof of his Lord. And thus [it was] that We should avert from him evil and immorality. Indeed, he was of Our chosen servants.
Uss aurat ney yousuf ki taraf qasad kiya aur yousuf uss ka qasad kertay agar woh apney perwerdigar ki daleel na dekhtay yun hi hua iss wastay kay hum uss say buraee aur bey hayaee door ker den. Be-shak woh humaray chunay huye bandon mein say tha.
اس عورت نے تو واضح طور پر یوسف ( کے ساتھ برائی ) کا ارادہ کرلیا تھا ، اور یوسف کے دل میں بھی اس عورت کا خیال آچلا تھا ، اگر وہ اپنے رب کی دلیل کو نہ دیکھ لیتے ، ( ١٦ ) ہم نے ایسا اس لیے کیا تاکہ ان سے برائی اور بے حیائی کا رخ پھیر دیں ۔ بیشک وہ ہمارے منتخب بندوں میں سے تھے ۔
اور بیشک عورت نے اس کا ارادہ کیا اور وہ بھی عورت کا ارادہ کرتا اگر اپنے رب کی دلیل نہ دیکھ لیتا ( ف٦۲ ) ہم نے یوں ہی کیا کہ اس سے برائی اور بےحیائی کو پھیر دیں ( ف٦۳ ) بیشک وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے ہے ( ف٦٤ )
وہ اس کی طرف بڑھی اور یوسف بھی اس کی طرف بڑھتا اگر اپنے رب کی برہان نہ دیکھ لیتا ۔ 22 ایسا ہوا ، تاکہ ہم اس سے بدی اور بے حیائی کو دور کر دیں ، 23 درحقیقت وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے تھا ۔
۔ ( یوسف علیہ السلام نے انکار کر دیا ) اور بیشک اس ( زلیخا ) نے ( تو ) ان کا ارادہ کر ( ہی ) لیا تھا ، ( شاید ) وہ بھی اس کا قصد کر لیتے اگر انہوں نے اپنے رب کی روشن دلیل کو نہ دیکھا ہوتا ۔ ٭ اس طرح ( اس لئے کیا گیا ) کہ ہم ان سے تکلیف اور بے حیائی ( دونوں ) کو دور رکھیں ، بیشک وہ ہمارے چنے ہوئے ( برگزیدہ ) بندوں میں سے تھے
سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :22 برہان کے معنی ہیں دلیل اور حجت کے ۔ رب کی برہان سے مراد خدا کی سجھائی ہوئی دلیل ہے جس کی بنا پر حضرت یوسف علیہ السلام کی ضمیر نے ان کے نفس کو اس بات کا قائل کیا کہ اس عورت کی دعوت عیش قبول کرنا تجھے زیبا نہیں ہے ۔ اور وہ دلیل تھی کیا ؟ اسے پچھلے فقرے میں بیان کیا جاچکا ہے ، یعنی یہ کہ ”میرے رب نے تو مجھے یہ منزلت بخشی اور میں ایسا برا کام کروں ، ایسے ظالموں کو کبھی فلاح نصیب نہیں ہوا کرتی“ ۔ یہی وہ برہان حق تھی جس نے سیدنا یوسف علیہ السلام کو اس نوخیز جوانی کے عالم میں ایسے نازک موقع پر معصیت سے باز رکھا ۔ پھر یہ جو فرمایا کہ ” یوسف علیہ السلام بھی اس کی طرف بڑھتا اگر اپنے رب کی برہان نہ دیکھ لیتا “ تو اس سے عصمت انبیاء کی حقیقت پر بھی پوری روشنی پڑجاتی ہے ۔ نبی کی معصومیت کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اس سے گناہ اور لغزش و خطا کی قوت و استعداد سلب کر لی گئی ہے حتی کہ گناہ کا صدور اس کے امکان ہی میں نہیں رہا ہے ۔ بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ نبی اگرچہ گناہ کرنے پر قادر ہوتا ہے لیکن بشریت کی تمام صفات سے متصف ہونے کے باوجود ، اور جملہ انسانی جذبات ، احساسات اور خواہشات رکھتے ہوئے بھی وہ ایسا نیک نفس اور خدا ترس ہوتا ہے کہ جان بوجھ کر کبھی گناہ کا قصد نہیں کرتا ۔ وہ اپنے ضمیر میں اپنے رب کی ایسی ایسی زبردست حجتیں اور دلیلیں رکھتا ہے جن کے مقابلہ میں خواہش نفس کبھی کامیاب نہیں ہونے پاتی ۔ اور اگر نادانستہ اس سے کوئی لغزش سرزد ہو جاتی ہے تو اللہ تعالی فورا وحی جلی کے ذریعہ سے اس کی اصلاح فرما دیتا ہے ، کیونکہ اس کی لغزش تنہا ایک شخص کی لغزش نہیں ہے ، ایک پوری امت کی لغزش ہے ۔ وہ راہ راست سے بال برابر ہٹ جائے تو دنیا گمراہی میں میلوں دور نکل جائے ۔ سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :23 اس ارشاد کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ اس کا دلیل رب کو دیکھنا اور گناہ سے بچ جانا ہماری توفیق و ہدایت سے ہوا کیونکہ ہم اپنے اس منتخب بندے سے بدی اور بے حیائی کو دور کرنا چاہتے تھے ۔ دوسرا مطلب یہ بھی لیا جاسکتا ہے ، اور یہ زیادہ گہرا مطلب ہے کہ یوسف علیہ السلام کو یہ معاملہ جو پیش آیا تو یہ بھی دراصل ان کی تربیت کے سلسلہ میں ایک ضروری مرحلہ تھا ۔ ان کو بدی اور بے حیائی سے اپک کرنے اور ان کی طہارت نفس کو درجہ کمال پر پہنچانے کے لیے مصلحت الہٰی میں یہ ناگزیر تھا کہ ان کے سامنے معصیت کا ایک ایسا نازک موقع پیش آئے اور اس آزمائش کے وقت وہ اپنے ارادے کی پوری طاقت پرہیزگاری و تقوی کے پلڑے میں ڈال کر اپنے نفس کے برے میلانات کو ہمیشہ کے لیے قطعی طور پر شکست دے دیں ۔ خصوصیت کے ساتھ اس مخصوص طریقہ تربیت کے اختیار کرنے کی مصلحت اور اہمیت اس اخلاقی ماحول کو نگاہ میں رکھنے سے بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے جو اس وقت کی مصری سوسائٹی میں پایا جاتا تھا ۔ آگے رکوع ٤ میں اس ماحول کی جو ایک ذرا سی جھلک دکھائی گئی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت کے ”مہذب مصر“ میں بالعموم اور اس کے اونچے طبقے میں بالخصوص صنفی آزادی قریب قریب اسی پیمانے پر تھی جس پر ہم اپنے زمانے کے اہل مغرب اور مغرب زدہ طبقوں کو ”فائز“ پا رہے ہیں ۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو ایسے بگڑے ہوئے لوگوں میں رہ کر کام کرنا تھا ، اور کام بھی ایک معمولی آدمی کی حیثیت سے نہیں بلکہ فرمانروائے ملک کی حیثیت سے کرنا تھا ۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جو خواتین کرام ایک حسین غلام کے آگے بچھی جا رہی تھیں ، وہ ایک جوان اور خوبصورت فرمانروا کو پھانسنے اور بگاڑنے کے لیے کیا نہ کر گزرتیں ۔ اسی کی پیش بندی اللہ تعالیٰ نے اس طرح فرمائی کہ ایک طرف تو ابتدا ہی میں اس آزمائش سے گزار کر حضرت یوسف علیہ السلام کو پختہ کر دیا ، اور دوسری طرف خود خواتین مصر کو بھی ان سے مایوس کر کے ان کے سارے فتنوں کا دروازہ بند کر دیا ۔
یوسف علیہ السلام کے تقدس کا سبب سلف کی ایک جماعت سے تو اس آیت کے بارے میں وہ مروی ہے جو ابن جریر وغیرہ لائے ہیں اور کہا گیا ہے کہ یوسف علیہ السلام کا قصد اس عورت کے ساتھ صرف نفس کا کھٹکا تھا ۔ بغوی کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ عزوجل کا فرمان ہے کہ جب میرا کوئی بندہ نیکی کا ارادہ کرے تو تم اس کی نیکی لکھ لو ۔ اور جب اس نیکی کو کر گزرے تو اس جیسی دس گنی نیکی لکھ لو ۔ اور اگر کسی برائی کا ارادہ کرے اور پھر اسے نہ کرے تو اس کے لیے نیکی لکھ لو ۔ کیونکہ اس نے میری وجہ سے اس برائی کو چھوڑا ہے ۔ اور اگر اس برائی کو ہی کر گزرے تو اس کے برابر اسے لکھ لو ۔ اس حدیث کے الفاظ اور بھی کئی ایک ہیں اصل بخاری ، مسلم میں بھی ہے ۔ ایک قول ہے کہ حضرت یوسف نے اسے مارنے کا قصد کیا تھا ۔ ایک قول ہے کہ اسے بیوی بنانے کی تمنا کی تھی ۔ ایک قول ہے کہ آپ قصد کرتے اگر اگر دلیل نہ دیکھتے لیکن چونکہ دلیل دیکھ لی قصد نہیں فرمایا ۔ لیکن اس قول میں عربی زبان کی حیثیت سے کلام ہے جسے امام ابن جریر وغیرہ نے بیان فرمایا ہے ۔ یہ تو تھے اقوال قصد یوسف کے متعلق ۔ وہ دلیل جو آپ نے دیکھی اس کے متعلق بھی اقوال ملاحظہ فرمائیے ۔ کہتے ہیں اپنے والد حضرت یعقوب کو دیکھا کہ گویا وہ اپنی انگلی منہ میں ڈالے کھڑے ہیں ۔ اور حضرت یوسف کے سینے پر آپ نے ہاتھ مارا ۔ کہتے ہیں اپنے سردار کی خیالی تصویر سامنے آگئی ۔ کہتے ہیں آپ کی نظر چھت کی طرف اٹھ گئی دیکھتے ہیں کہ اس پر یہ آیت لکھی ہوئی ہے ( آیت لا تقربو الزنی انہ کان فاحشتہ و مقتا و ساء سبیلا ) خبردار زنا کے قریب بھی نہ بھٹکنا وہ بڑی بےحیائی کا اور اللہ کے غضب کا کام ہے اور وہ بڑا ہی برا راستہ ہے ۔ کہتے ہیں تین آیتیں لکھی ہوئی تھیں ایک تو ( وَاِنَّ عَلَيْكُمْ لَحٰفِظِيْنَ 10۝ۙ ) 82- الإنفطار:10 ) تم پر نگہبان مقرر ہیں ۔ دوسری ( وَمَا تَكُوْنُ فِيْ شَاْنٍ وَّمَا تَتْلُوْا مِنْهُ مِنْ قُرْاٰنٍ وَّلَا تَعْمَلُوْنَ مِنْ عَمَلٍ اِلَّا كُنَّا عَلَيْكُمْ شُهُوْدًا اِذْ تُفِيْضُوْنَ فِيْه 61؀ ) 10- یونس:61 ) تم جس حال میں ہو اللہ تمہارے ساتھ ہے ۔ تیسری ( اَفَمَنْ هُوَ قَاۗىِٕمٌ عَلٰي كُلِّ نَفْسٍۢ 33؁ ) 13- الرعد:33 ) اللہ ہر شخص کے ہر عمل پر حاضر ناظر ہے کہتے ہیں کہ چار آیتیں لکھی پائی تین وہی جو اوپر ہیں اور ایک حرمت زنا کی جو اس سے پہلے ہے ۔ کہتے ہیں کہ کوئی آیت دیوار پر ممانعت زنا کے بارے میں لکھی ہوئی پائی ۔ کہتے ہیں ایک نشان تھا جو آپ کے ارادے سے آپ کو روک رہا تھا ۔ ممکن ہے وہ صورت یعقوب ہو ۔ اور ممکن ہے اپنے خریدنے والے کی صورت ہو ۔ اور ممکن ہے آیت قرآنی ہو کوئی ایسی صاف دلیل نہیں کہ کسی خاص ایک چیز کے فیصلے پر ہم پہنچ سکیں ۔ پس بہت ٹھیک راہ ہمارے لیے یہی ہے کہ اسے یونہی مطلق چھوڑ دیا جائے جیسے کہ اللہ کے فرمان میں بھی اطلاق ہے ( اسی طرح قصد کو بھی ) پھر فرماتا ہے ہم نے جس طرح اس وقت اسے ایک دلیل دکھا کر برائی سے بچا لیا ، اسی طرح اس کے اور کاموں میں بھی ہم اس کی مدد کرتے رہے اور اسے برائیوں اور بےحیائیوں سے محفوظ رکھتے رہے ۔ وہ تھا بھی ہمارا برگزیدہ پسندیدہ بہترین اور مخلص بندہ ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر درود و سلام نازل ہوں ۔