Surah

Information

Surah # 12 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 53 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 1, 2, 3, 7, from Madina
وَاسۡتَبَقَا الۡبَابَ وَقَدَّتۡ قَمِيۡصَهٗ مِنۡ دُبُرٍ وَّاَلۡفَيَا سَيِّدَهَا لَدَا الۡبَابِ‌ؕ قَالَتۡ مَا جَزَآءُ مَنۡ اَرَادَ بِاَهۡلِكَ سُوۡۤءًا اِلَّاۤ اَنۡ يُّسۡجَنَ اَوۡ عَذَابٌ اَلِيۡمٌ‏ ﴿25﴾
دونوں دروازے کی طرف دوڑے اور اس عورت نے یوسف کا کرتہ پیچھے کی طرف سے کھینچ کر پھاڑ ڈالا اور دروازے کے پاس ہی عورت کا شوہر دونوں کو مل گیا ، تو کہنے لگی جو شخص تیری بیوی کے ساتھ برا ارادہ کرے بس اس کی سزا یہی ہے کہ اسے قید کر دیا جائے یا اور کوئی دردناک سزادی جائے ۔
و استبقا الباب و قدت قميصه من دبر و الفيا سيدها لدا الباب قالت ما جزاء من اراد باهلك سوءا الا ان يسجن او عذاب اليم
And they both raced to the door, and she tore his shirt from the back, and they found her husband at the door. She said, "What is the recompense of one who intended evil for your wife but that he be imprisoned or a painful punishment?"
Dono darwazay ki taraf doray aur uss aurat ney yousuf ka kurta peechay ki taraf say kheench ker phaar dala aur darwazay kay pass hi aurat ka shohar dono ko mill gaya to kehney lagi jo shaks teri biwi kay sath bura irada keray bus uss ki saza yehi hai kay ussay qaid ker diya jaye ya aur koi dard naak saza di jaye.
اور دونوں آگے پیچھے دروازے کی طرف دوڑتے ، اور ( اس کشمکش میں ) اس عورت نے ان کے قمیص کو پیچھے کی طرف سے پھاڑ ڈالا ۔ ( ١٧ ) اتنے میں دونوں نے اس عورت کے شوہر کو دروازے پر کھڑا پایا ۔ اس عورت نے فورا ( بات بنانے کے لیے اپنے شوہر سے ) کہا کہ : جو کوئی تمہاری بیوی کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے ، اس کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ اسے قید کردیا جائے ، یا کوئی اور دردناک سزا دی جائے؟
اور دونوں دروازے کی طرف دوڑے ( ف٦۵ ) اور عورت نے اس کا کر ُتا پیچھے سے چیر لیا اور دونوں کو عورت کا میاں ( ف٦٦ ) دروازے کے پاس ملا ( ف٦۷ ) بولی کیا سزا ہے اس کی جس نے تیری گھر والی سے بدی چاہی ( ف٦۸ ) مگر یہ کہ قید کیا جائے یا دکھ کی مار ( ف٦۹ )
آخرکار یوسف اور وہ آگے پیچھے دروازے کی طرف بھاگے اور اس نے پیچھے سے یوسف کا قمیص ﴿کھینچ کر ﴾ پھاڑ دیا ۔ دروازے پر دونوں نے اس کے شوہر کو موجود پایا ۔ اسے دیکھتے ہی عورت کہنے لگی کیا سزا اس شخص کی جو تیری گھر والی پر نیّت خراب کرے؟ اس کے سوا اور کیا سزا ہو سکتی ہے کہ وہ قید کیا جائے یا اسے سخت عذاب دیا جائے؟
اور دونوں دروازے کی طرف ( آگے پیچھے ) دوڑے اور اس ( زلیخا ) نے ان کا قمیض پیچھے سے پھاڑ ڈالا اور دونوں نے اس کے خاوند ( عزیزِ مصر ) کو دروازے کے قریب پا لیا وہ ( فورًا ) بول اٹھی کہ اس شخص کی سزا جو تمہاری بیوی کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے اور کیا ہو سکتی ہے سوائے اس کے کہ وہ قید کر دیا جائے یا ( اسے ) درد ناک عذاب دیا جائے ۔
الزام کی مدافعت اور بچے کی گواہی حضرت یوسف اپنے آپ کو بچانے کے لیے وہاں سے دروازے کی طرف دوڑے اور یہ عورت آپ کو پکڑنے کے ارادے سے آپ کے پیچھے بھاگی ۔ پیچھے سے کرتا اس کے ہاتھ میں آگیا ۔ زور سے اپنی طرف گھسیٹا ۔ جس سے حضرت یوسف پیچھے کی طرف گر جانے کی قریب ہوگئے لیکن آپ نے آگے کو زور لگا کر دوڑ جاری رکھی اس میں کرتا پیچھے سے بالکل بےطرح پھٹ گیا اور دونوں دروازے پر پہنچ گئے دیکھتے ہیں کہ عورت کا خاوند موجود ہے ۔ اسے دیکھتے ہی اس نے چال چلی اور فوراً ہی سارا الزام یوسف کے سر تھوپ دیا اور اپنی پاک دامنی بلکہ عصمت اور مظلومیت جتانے لگی ۔ سوکھا سامنہ بنا کر اپنے خاوند سے اپنی بپتا اور پھر پاکیزگی بیان کرتے ہوئے کہتی ہے فرمائیے حضور آپ کی بیوی سے جو بدکاری کا ارادہ رکھے اس کی کیا سزا ہونی چاہیے؟ قید سخت یا بری مار سے کم تو ہرگز کوئی سزا اس جرم کی نہیں ہو سکتی ۔ اب جب کہ حضرت یوسف نے اپنی آبرو کو خطرے میں دیکھا اور خیانت کی بدترین تہمت لگتی دیکھی تو اپنے اوپر سے الزام ہٹانے اور صاف اور سچی حقیقت کے ظاہر کر دینے کے لیے فرمایا کہ حقیقت یہ ہے کہ یہی میرے پیچھے پڑی تھیں ، میرے بھاگنے پر مجھے پکڑ رہی تھی ، یہاں تک کہ میرا کرتا بھی پھاڑ دیا ۔ اس عورت کے قبیلے سے ایک گواہ نے گواہی دی ۔ اور مع ثبوت و دلیل ان سے کہا کہ پھٹے ہوئے پیرہن کو دکھ لو اگر وہ سامنے کے رخ سے پھٹا ہوا ہے تو ظاہر ہے کہ عورت سچی ہے اور یہ جھوٹا ہے اس نے اسے اپنی طرف لانا چاہا اس نے اسے دھکے دیئے ۔ روکا منع کیا ہٹایا اس میں سامنے سے کرتا پھٹ گیا تو واقع قصور وار مرد ہے اور عورت جو اپنی بےگناہی بیان کرتی ہے وہ سچی ہے فی الواقع اس صورت میں وہ سچی ہے ۔ اور اگر اس کا کرتا پیچھے سے پھٹا ہوا پاؤ تو عورت کے جھوٹ اور مرد کے سچ ہو نے میں شبہ نہیں ۔ ظاہر ہے کہ عورت اس پر مائل تھی یہ اس سے بھاگا وہ دوڑی ، پکڑا ، کرتا ہاتھ میں آگیا اس نے اپنی طرف گھسیٹا اس نے اپنی جانب کھینچا وہ پیچھے کی طرف سے پھٹ گیا ۔ کہتے ہیں یہ گواہ بڑا آدمی تھا جس کے منہ پر داڑھی تھی یہ عزیز مصر کا خاص آدمی تھا اور پوری عمر کا مرد تھا ۔ اور زلیخا کے چچا کا لڑکا تھا زلیخا بادشاہ وقت ریان بن ولید کی بھانجی تھی پس ایک قول تو اس گواہ کے متعلق یہ ہے ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہ ایک چھوٹا سا دودھ پیتا گہوارے میں جھولتا بچہ تھا ۔ ابن جریر میں ہے کہ چار چھوٹے بچوں چھٹپن میں ہی کلام کیا ہے اس پوری حدیث میں ہے اس بچے کا بھی ذکر ہے اس نے حضرت یوسف صدیق کی پاک دامنی کی شہادت دی تھی ۔ ابن عباس فرماتے ہیں چار بچوں نے کلام کیا ہے ۔ فرعون کی لڑکی کی مشاطہ کے لڑکے نے ۔ حضرت یوسف کے گواہ نے ۔ جریج کے صاحب نے اور حضرت عیسٰی بن مریم علیہ السلام نے ۔ مجاہد نے تو ایک بالکل ہی غریب بات کہی ہے ۔ وہ کہتے ہیں وہ صرف اللہ کا حکم تھا کوئی انسان تھا ہی نہیں ۔ اسی تجویز کے مطابق جب زلیخا کے شوہر نے دیکھا تو حضرت یوسف کے پیراہن کو پیچھے کی جانب سے پھٹا ہوا دیکھا ۔ اس کے نزدیک ثابت ہو گیا کہ یوسف سچا ہے اور اس کی بیوی جھوٹی ہے وہ یوسف صدیق پر تہمت لگا رہی ہے تو بےساختہ اس کے منہ سے نکل گیا کہ یہ تو تم عورتوں کا فریب ہے ۔ اس نوجوان پر تم تہمت باندھ رہی ہو اور جھوٹا الزام رکھ رہی ہو ۔ تمہارے چلتر تو ہیں ہی چکر میں ڈال دینے والے ۔ پھر حضرت یوسف سے کہتا ہے کہ آپ اس واقعہ کو بھول جائیے ، جانے دیجئے ۔ اس نامراد واقعہ کا پھر سے ذکر ہی نہ کیجئے ۔ پھر اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ تم اپنے گناہ سے استغفار کرو نرم آدمی تھا نرم اخلاق تھے ۔ یوں سمجھ لیجئے کہ وہ جان رہا تھا کہ عورت معذور سمجھے جانے کے لائق ہے اس نے وہ دیکھا جس پر صبر کرنا بہت مشکل ہے ۔ اس لیے اسے ہدایت کر دی کہ اپنے برے ارادے سے توبہ کر ۔ سراسر تو ہی خطا وار ہے ۔ کیا خود اور الزام دوسروں کے سر رکھا ۔