Surah

Information

Surah # 12 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 53 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 1, 2, 3, 7, from Madina
قَالَ هِىَ رَاوَدَتۡنِىۡ عَنۡ نَّـفۡسِىۡ‌ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّنۡ اَهۡلِهَا‌ۚ اِنۡ كَانَ قَمِيۡصُهٗ قُدَّ مِنۡ قُبُلٍ فَصَدَقَتۡ وَهُوَ مِنَ الۡكٰذِبِيۡنَ‏ ﴿26﴾
یوسف نے کہا یہ عورت ہی مجھے پھسلا رہی تھی ، اور عورت کے قبیلے کے ہی کے ایک شخص نے گواہی دی کہ اگر اس کا کرتہ آگے سے پھٹا ہوا ہو تو عورت سچی ہے اور یوسف جھوٹ بو لنے والوں میں سے ہے ۔
قال هي راودتني عن نفسي و شهد شاهد من اهلها ان كان قميصه قد من قبل فصدقت و هو من الكذبين
[Joseph] said, "It was she who sought to seduce me." And a witness from her family testified. "If his shirt is torn from the front, then she has told the truth, and he is of the liars.
Yousuf ney kaha yeh aurat hi mujhay phusla rahi thi aur aurat kay qabeelay hi kay aik shaks ney gawahee di kay agar iss ka kurta aagay say phata hua ho to aurat sachi hai aur yousuf jhoot bolney walon mein say hai.
یوسف نے کہا : یہ خود تھیں جو مجھے ورغلا رہی تھیں ، اور اس عورت کے خاندان ہی میں سے ایک گواہی دینے والے نے یہ گواہی دی کہ : اگر یوسف کی قمیص سامنے کی طرف سے پھٹی ہو تو عورت سچ کہتی ہے ، اور وہ جھوٹے ہیں ۔
کہا اس نے مجھ کو لبھایا کہ میں اپنی حفاظت نہ کروں ( ف۷۰ ) اور عورت کے گھر والوں میں سے ایک گواہ نے ( ف۷۱ ) گواہی دی اگر ان کا کر ُتا آگے سے چرا ہے تو عورت سچی ہے اور انہوں نے غلط کہا ( ف۷۲ )
یوسف ( علیہ السلام ) نے کہا یہی مجھے پھانسنے کی کوشش کر رہی تھی ۔ اس عورت کے اپنے کنبہ والوں میں سے ایک شخص نے﴿قرینے کی﴾ شہادت پیش کی 24 کہ اگر یوسف ( علیہ السلام ) کا قمیص آگے سے پھٹا ہو تو عورت سچی ہے اور یہ جھوٹا ،
یوسف ( علیہ السلام ) نے کہا: ( نہیں بلکہ ) اس نے خود مجھ سے مطلب براری کے لئے مجھے پھسلانا چاہا اور ( اتنے میں خود ) اس کے گھر والوں میں سے ایک گواہ نے ( جو شیر خوار بچہ تھا ) گواہی دی کہ اگر اس کا قمیض آگے سے پھٹا ہوا ہے تو یہ سچی ہے اور وہ جھوٹوں میں سے ہے
سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :24 اس معاملہ کی نوعیت یہ سمجھ میں آتی ہے کہ صاحب خانہ کے ساتھ خود اس عورت کے بھائی بندوں میں سے بھی کوئی شخص آ رہا ہوگا اور اس نے یہ قضیہ سن کر کہا ہوگا کہ جب یہ دونوں ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہیں اور موقع کا گواہ کوئی نہیں ہے تو قرینہ کی شہادت سے اس معاملہ کی یوں تحقیق کی جا سکتی ہے بعض روایات میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ موادت پیش کرنے والا ایک شیر خوار بچہ تھا جو وہاں پنگھوڑے میں لیٹا ہوا تھا اور خدا نے اسے گویائی عطا کر کے اس سے یہ شہادت دلوائی ۔ لیکن یہ روایت نہ تو کسی صحیح سند سے شہادت ہے اور نہ اس معاملے میں خواہ مخواہ معجزے سے مدد لینے کی کوئی ضرورت ہی محسوس ہوتی ہے ۔ اس شاہد نے قرینے کی جس شہادت کی طرف توجہ دلائی ہے وہ سراسر ایک معقول شہادت ہے اور اس کو دیکھنے سے بیک نظر معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ مخص ایک معاملہ فہم اور جہاندیدہ آدمی تھا جو صورت معاملہ سامنے آتے ہی اس کی تہہ کو پہنچ گیا ۔ بعید نہیں کہ وہ کوئی جج یا مجسٹریٹ ہو ۔ ( مفسرین کے ہاں شیر خوار بچے کی شہادت کا قصہ دراصل یہودی روایات سے آیا ہے ۔ ملاحظہ ہو اقتباسات تلمود ازپال اسحاق ہرشون ، لندن ، سن ١۸۸۰ ۔ صفحہ ۲۵٦