سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :25A
بائیبل میں اس قصے کو جس بھونڈے طریقہ سے بیان کیا گیا ہے ، وہ ملاحظہ ہو ،
تب اس عورت نے اس کا پیراہن پکڑ کر کہا کہ میرے ساتھ ہم بستر ہو ، وہ اپنا پیراہن اس کے ہاتھ میں چھوڑ کر بھاگا اور باہر نکل گیا ۔ جب اس نے دیکھا کہ وہ اپنا پیراہن اس کے ہاتھ میں چھوڑ کر بھاگ گیا تو اس نے اپنے گھر کے آدمیوں کو بلا کر ان سے کہا کہ دیکھو وہ ایک عبری کو ہم سے مذاق کرنے کے لیے ہمارے پاس لے آیا ہے ۔ یہ مجھ سے ہم بستر ہونے کو اندر گھس آیا اور میں بلند آواز سے چلانے لگی ۔ جب اس نے دیکھا کہ میں زور زور سے چلا رہی ہوں تو اپنا پیراہن میرے پاس چھوڑ کر بھاگا اور باہر نکل گیا ۔ اور وہ اس کا پیراہن اس کے آقا کے گھر لوٹنے تک اپنے پاس رکھے رہی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب اس کے آقا نے اپنی بیوی کی وہ باتیں جو اس نے اس سے کہیں سن لیں کہ تیرے غلام نے مجھ سے ایسا ایسا کیا تو اس کا غضب بھڑکا اور یوسف کے آقا نے اس کو لے کر قید خانے میں جہاں بادشاہ کے قیدی بند تھے ڈال دیا ( پیدائش39: 12 -20 )
خلاصہ اس عجیب وغریب روایت کا یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے جسم پر لباس کچھ اس قسم کا تھا کہ ادھر زلیخا نے اس پر ہاتھ ڈالا اور ادھر وہ پورا لباس خود بخود اتر کر اس کے ہاتھ میں آگیا ! پھر لطف یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام وہ لباس اس کے پاس چھوڑ کر یونہی برہنہ بھاگ نکلے اور ان کا لباس یعنی ان کے قصور کا ناقابل انکار ثبوت اس عورت کے پاس ہی رہ گیا ۔ اس کے بعد حضرت یوسف علیہ السلام کے مجرم ہونے میں آخر کون شک کر سکتا تھا
یہ تو ہے بائیبل کی روایت ۔ رہی تلمود تو اس کا بیان ہے کہ فوطیفار نے جب اپنی بیوی سے یہ شکایت سنی تو اس نے یوسف علیہ السلام کو خوب پٹوایا ، پھر ان کے خلاف عدالت میں استغاثہ دائر کیا اور حکام عدالت نے حضرت یوسف علیہ السلام کی قمیص کا جائزہ لے کر فیصلہ کیا کہ قصور عورت کا ہے ، کیونکہ قمیص پیچھے سے پھٹا ہے نہ کہ آگے سے ۔ لیکن یہ بات ہر صاحب عقل آدمی تھوڑے سے غور و تامل سے بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ قرآن کی روایت تلمود کی روایت سے زیادہ قرین قیاس ہے ۔ آخر کس طرح یہ باور کر لیا جائے کہ ایسا بڑا ایک ذی وجاہت آدمی اپنی بیوی پر اپنے غلام کی دست درازی کا معاملہ خود عدالت میں لے گیا ہوگا ۔ یہ ایک نمایاں ترین مثال ہے قرآن اور اسرائیلی روایات کے فرق کی جس سے مغربی مستشرقین کے اس الزام کی لغویت صاف واضح ہو جاتی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ قصے بنی اسرائیل سے نقل کر لیے ہیں ۔ سچ یہ ہے کہ قرآن نے تو ان کی اصلاح کی اور اصل واقعات دنیا کو بتائے ہیں ۔