Surah

Information

Surah # 12 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 53 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 1, 2, 3, 7, from Madina
وَقَالَ نِسۡوَةٌ فِى الۡمَدِيۡنَةِ امۡرَاَتُ الۡعَزِيۡزِ تُرَاوِدُ فَتٰٮهَا عَنۡ نَّـفۡسِهٖ‌ۚ قَدۡ شَغَفَهَا حُبًّا‌ ؕ اِنَّا لَـنَرٰٮهَا فِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍ‏ ﴿30﴾
اور شہر کی عورتوں میں چرچا ہونے لگا کہ عزیز کی بیوی اپنے ( جوان ) غلام کو اپنا مطلب نکالنے کے لئے بہلانے پھسلانے میں لگی رہتی ہے ، ان کے دل میں یوسف کی محبت بیٹھ گئی ہے ، ہمارے خیال میں تو وہ صریح گمراہی میں ہے ۔
و قال نسوة في المدينة امرات العزيز تراود فتىها عن نفسه قد شغفها حبا انا لنرىها في ضلل مبين
And women in the city said, "The wife of al-'Azeez is seeking to seduce her slave boy; he has impassioned her with love. Indeed, we see her [to be] in clear error."
Aur shehar ki aurton mein charcha honey laga kay aziz ki biwi apney ( jawan ) ghulam ko apna matlab nikalney kay liye behlaney phuslaney mein lagi rehti hai inn kay dil mein yousuf ki mohabbat beth gaee hai humaray khayal mein to woh sarreh gumrahi mein hai.
اور شہر میں کچھ عورتیں یہ باتیں کرنے لگیں کہ : عزیز کی بیوی اپنے نوجوان غلام کو ورغلا رہی ہے ۔ اس نوجوان کی محبت نے اسے فریفتہ کرلیا ہے ۔ ہمارے خیال میں تو یقینی طور پر وہ کھلی گمراہی میں مبتلا ہے ۔
اور شہر میں کچھ عورتیں بولیں ( ف۷۹ ) کہ عزیز کی بی بی اپنے نوجوان کا دل لبھاتی ہے بیشک ان کی محبت اس کے دل میں پَیر گئی ( سماگئی ) ہے ہم تو اسے صریح خود رفتہ پاتے ہیں ( ف۸۰ )
شہر کی عورتیں آپس میں چرچا کرنے لگیں کہ عزیز کی بیوی اپنے نوجوان غلام کے پیچھے پڑی ہوئی ہے ، محبّت نے اسے بے قابو کر رکھا ہے ، ہمارے نزدیک تو وہ صریح غلطی کر رہی ہے ۔
اور شہر میں ( اُمراء کی ) کچھ عورتوں نے کہنا ( شروع ) کر دیا کہ عزیز کی بیوی اپنے غلام کو اس سے مطلب براری کے لئے پھسلاتی ہے ، اس ( غلام ) کی محبت اس کے دل میں گھر کر گئی ہے ، بیشک ہم اسے کھلی گمراہی میں دیکھ رہی ہیں
داستان عشق اور حسینان مصر اس داستان کی خبر شہر میں ہوئی ، چرچے ہو نے لگے ، چند شریف زادیوں نے نہایت تعجب و حقارت سے اس قصے کو دوہرایا کہ دیکھو عزیر کی بیوی ہے اور ایک غلام پر جان دے رہی ہے ، اس کی محبت کو اپنے دل میں جمائے ہوئے ہے ۔ شغف کہتے ہیں حد سے گذری ہوئی قاتل محبت کو اور شغف اس سے کم درجے کی ہوتی ہے ۔ دل کے پردوں کو عورتیں شغاف کہتی ہیں ۔ کہتے ہیں کہ عزیز کی بیوی صریح غلطی میں پڑی ہوئی ہے ۔ ان غیبتوں کا پتہ عزیز کی بیوی کو بھی چل گیا ۔ یہاں لفظ مکر اس لیے بولا گیا ہے کہ بقول بعض خود ان عورتوں کا یہ فی الواقع ایک کھلا مکر تھا ۔ انہیں تو دراصل حسن یوسف کے دیدار کی تمنا تھی یہ تو صرف ایک حیلہ بنایا تھا ۔ عزیز کی بیوی بھی ان کی چال سمجھ گئی اور پھر اس میں اس نے اپنی معزوری کی مصلحت بھی دیکھی تو ان کے پاس اسی وقت بلاوا بھیج دیا کہ فلاں وقت آپ کی میرے ہاں دعوت ہے ۔ اور ایک مجلس ، محفل ، اور بیٹھک درست کر لی جس میں پھل اور میوہ بہت تھا ۔ اس نے تراش تراش کر چھیل چھیل کر کھانے کے لیے ایک ایک تیز چاقو سب کے ہاتھ میں دیدیا یہ تھا ان عورتوں کے دھوکہ کا جواب انہوں نے اعتراض کر کے جمال یوسف دیکھنا چاہا اس نے آپ کو معذور ظاہر کرنے اور ان کے مکر کو ظاہر کرنے کے لیے انہیں خود زخمی کر دیا اور خود ان ہی کے ہاتھ سے حضرت یوسف علیہ السلام سے کہا کہ آپ آئے ۔ انہیں اپنی مالکہ کا حکم ماننے سے کیسے انکار ہو سکتا تھا ؟ اسی وقت جس کمرے میں تھے وہاں سے آگئے ۔ عورتوں کی نگاہ جو آپ کے چہرے پر پڑی تو سب کی سب دہشت زدہ رہ گئیں ۔ ہیبت و جلال اور رعب حسن سے بےخود ہوگئیں اور بجائے اس کے کہ ان تیز چلنے والی چھریوں سے پھل کٹتے ان کے ہاتھ اور انگلیاں کٹنے لگیں ۔ حضرت زیدبن اسلم کہتے ہیں کہ ضیافت باقاعدہ پہلے ہو چکی تھی اب تو صرف میوے سے تواضع ہو رہی تھی ۔ میٹھے ہاتھوں میں تھے ، چاقو چل رہے تھے جو اس نے کہا یوسف کو دیکھنا چاہتی ہو؟ سب یک زبان ہو کر بول اُٹھیں ہاں ہاں ضرور ۔ اسی وقت حضرت یوسف سے کہلوا بھیجا کہ تشریف لائیے ۔ آپ آئے پھر اس نے کہا جائیے آپ چلے گئے ۔ آتے جاتے سامنے سے پیچھے سے ان سب عورتوں نے پوری طرح آپ کو دیکھا دیکھتے ہی سب سکتے میں آگئیں ہوش حواس جاتے رہے بجائے لیموں کاٹنے کے اپنے ہاتھ کاٹ لیے ۔ اور کوئی احساس تک نہ ہوا ہاں جب حضرت یوسف چلے گئے تب ہوش آیا اور تکلیف محسوس ہوئی ۔ تب پتہ چلا کہ بجائے پھل کے ہاٹھ کاٹ لیا ہے ۔ اس پر عزیز کی بیوی نے کہا دیکھا ایک ہی مرتبہ کے جمال نے تو تمہیں ایسا از خود رفتہ کر دیا پھر بتاؤ میرا کیا حال ہو گا عورتوں نے کہا واللہ یہ انسان نہیں ۔ یہ تو فرشتہ ہے اور فرشتہ بھی بڑے مرتبے والا ۔ آج کے بعد ہم کبھی تمہیں ملامت نہ کریں گی ۔ ان عورتوں نے حضرت یوسف جیسا تو کہاں ان کے قریب ان کے مشابہ بھی کوئی شخص نہیں دیکھا تھا ۔ آپ کو آدھا حسن قدرت نے عطا فرما رکھا تھا ۔ چنانچہ معراج کی حدیث میں ہے کہ تیسرے آسمان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات حضرت یوسف علیہ السلام سے ہوئی جنہیں آدھا حسن دیا گیا تھا ۔ اور روایت میں ہے کہ حضرت یوسف اور آپ کی والدہ صاحبہ کو آدھا حسن قدرت کی فیاضیوں نے عنایت فرمایا تھا ۔ اور روایت میں تہائی حسن یوسف کو اور آپ کی والدہ کو دیا گیا تھا ۔ آپ کا چہرہ بجلی کی طرح روشن تھا ۔ جب کبھی کوئی عورت آپ کے پاس کسی کام کے لیے آتی تو آپ اپنا منہ ڈھک کر اس سے بات کرتے کہ کہیں وہ فتنے میں نہ پڑ جائے اور روایت میں ہے کہ حسن کے تین حصے کئے گئے تمام لوگوں میں دو حصے تقسیم کئے گئے اور ایک حصہ صرف آپ کو اور آپ کی ماں کو دیا گیا ۔ یا جن کی دو تہائیاں ان ماں بیٹے کو ملیں اور ایک تہائی میں دنیا کے تمام لوگ اور روایت میں ہے کہ حسن کے دو حصے کئے گئے ایک حصے میں حضرت یوسف اور آپ کی والدہ حضرت سارہ اور ایک حصے میں دنیا کے اور سب لوگ ۔ سہیلی میں ہے کہ آپ کو حضرت آدم کا آدھا حسن دیا گیا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو اپنے ہاتھ سے کمال صورت کا نمونہ بنایا تھا اور بہت ہی حسین پیدا کیا تھا ۔ آپ کی اولاد میں آپ کا ہم پلہ کوئی نہ تھا اور حضرت یوسف کو ان کا آدھا حسن دیا گیا تھا ۔ پس ان عورتوں نے آپ کو دیکھ کر ہی کہا کہ معاذ للہ یہ انسان نہیں ذی عزت فرشتہ ہے ۔ اب عزیز کی بیوی نے کہا بتلاؤ اب تو تم مجھے عذر والی سمجھو گی؟ اس کا جمال و کمال کیا ایسا نہیں کہ صبر و برداشت چھین لے؟ میں نے اسے ہر چند اپنی طرف مائل کرنا چاہا لیکن یہ میرے قبضے میں نہیں آیا اب سمجھ لو کہ جہاں اس میں یہ بہترین ظاہری خوبی ہے وہاں عصمت و عفت کی یہ باطنی خوبی بھی بےنظیر ہے ۔ پھر دھمکانے لگی کہ اگر میری بات یہ نہ مانے گا تو اسے قید خانہ بھگتنا پڑے گا ۔ اور میں اس کو بہت ذلیل کروں گی ۔ اس وقت حضرت یوسف علیہ السلام نے ان کے اس ڈھونگ سے اللہ کی پناہ طلب کی اور دعا کی کہ یا اللہ مجھے جیل خانے جانا پسند ہے مگر تو مجھے ان کے بد ارادوں سے محفوظ رکھ ایسا نہ ہو کہ میں کسی برائی میں پھنس جاؤ ۔ اے اللہ تو اگر مجھے بچا لے تب تو میں بچ سکتا ہوں ورنہ مجھ میں اتنی قوت نہیں ۔ مجھے اپنے کسی نفع نقصان کا کوئی اختیار نہیں ۔ تیری مدد اور تیرے رحم و کرم کے بغیر نہ میں کسی گناہ سے رک سکوں نہ کسی نیکی کو کر سکوں ۔ اے باری تعالیٰ میں تجھ سے مدد طلب کرتا ہوں ، تجھی پر بھروسہ رکھتا ہوں ۔ تو مجھے میرے نفس کے حوالے نہ کردے کہ میں ان عورتوں کی طرف جھک جاؤں اور جاہلوں میں سے ہو جاؤں ۔ اللہ تعالیٰ کریم و قادر نے آپ کی دعا قبول فرما لی اور آپ کو بال بال بچا لیا ، عصمت عفت عطا فرمائی ، اپنی حفاظت میں رکھا اور برائی سے آپ بچے ہی رہے ۔ باوجود بھرپور جوانی کے باوجود بے انداز حسن و خوبی کے ، باوجود ہر طرح کے کمال کے ، جو آپ میں تھا ، آپ اپنی خواہش نفس کی بےجا تکمیل سے بچتے رہے ۔ اور اس عورت کی طرف رخ بھی نہ کیا جو رئیس زادی ہے ۔ رئیس کی بیوی ہے ، ان کی مالک ہے ، پھر بہت ہی خوبصورت ہے ، جمال کے ساتھ ہی مال بھی ہے ، ریاست بھی ہے ، وہ اپنی بات کے ماننے پر انعام و اکرام کا اور نہ ماننے پر جیل کا اور سخت سزا کا حکم سنا رہی ہے ۔ لیکن آپ کے دل میں اللہ کے خوف سمندر موجزن ہے ، آپ اپنے اس دنیوی آرام کو اور اس عیش اور لذت کو نام رب پر قربان کرتے ہیں اور قید و بند کو اس پر ترجیح دیتے ہیں کہ اللہ کے عذابوں سے بچ جائیں اور آخرت میں ثواب کے مستحق بن جائیں ۔ بخاری مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سات قسم کے لوگ ہیں جہیں اللہ تعالیٰ عزوجل اپنے سائے تلے سایہ دے گا جس دن کوئی سایہ سوا اس کے سائے کے نہ ہوگا ۔ ( ١ ) مسلمان عادل بادشاہ ( ٢ ) وہ جوان مرد و عورت جس نے اپنی جوانی اللہ کی عبادت میں گزاری ( ٣ ) وہ شخص جس کا دل مسجد میں اٹکا ہوا ہو جب مسجد سے نکلے مسجد کی دھن میں رہے یہاں تک کہ پھر وہاں جائے ( ٤ ) وہ دو شخص جو آپس میں محض اللہ کے لیے محبت رکھتے ہیں اسی پر جمع ہوتے ہیں اور اسی پر جدا ہوتے ہیں ( ٥ ) وہ شخص جو صدقہ دیتا ہے لیکن اس پوشیدگی سے کہ دائیں ہاتھ کے خرچ کی خبر بائیں ہات کو نہیں ہوتی ( ٦ ) وہ شخص جسے کوئی جاہ و منصب والی جمال و صورت والی عورت اپنی طرف بلائے اور وہ کہہ دے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں ( ٧ ) وہ شخص جس نے تنہائی میں اللہ تعالیٰ کو یاد کیا پھر اس کی دونوں آنکھیں بہ نکلی ۔