Surah

Information

Surah # 12 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 53 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 1, 2, 3, 7, from Madina
قَالَ رَبِّ السِّجۡنُ اَحَبُّ اِلَىَّ مِمَّا يَدۡعُوۡنَنِىۡۤ اِلَيۡهِ‌ۚ وَاِلَّا تَصۡرِفۡ عَنِّىۡ كَيۡدَهُنَّ اَصۡبُ اِلَيۡهِنَّ وَاَكُنۡ مِّنَ الۡجٰهِلِيۡنَ‏ ﴿33﴾
یوسف علیہ ا لسلام نے دعا کی اے میرے پروردگار! جس بات کی طرف یہ عور تیں مجھے بلا رہی ہیں اس سے تو مجھے جیل خانہ بہت پسند ہے ، اگر تو نے ان کا فن فریب مجھ سے دور نہ کیا تو میں ان کی طرف مائل ہو جاؤں گا اور بالکل نادانوں میں جا ملوں گا ۔
قال رب السجن احب الي مما يدعونني اليه و الا تصرف عني كيدهن اصب اليهن و اكن من الجهلين
He said, "My Lord, prison is more to my liking than that to which they invite me. And if You do not avert from me their plan, I might incline toward them and [thus] be of the ignorant."
Yousuf ( alh-e-salam ) ney dua ki kay aey meray perwerdigar! Jiss baat ki taraf yeh aurten mujhay bula rahi hain uss say to mujhay jail khana boht pasand hai agar tu ney inn ka fun fareb mujh say door na kiya to mein to inn ki taraf maeel hojaonga aur bilkul na danon mein ja milon ga.
یوسف نے دعا کی کہ : یا رب ! یہ عورتیں مجھے جس کام کی دعوت دے رہی ہیں ، اس کے مقابلے میں قید خانہ مجھے زیادہ پسند ہے ۔ ( ٢٢ ) اور اگر تو نے مجھے ان کی چالوں سے محفوظ نہ کیا تو میرا دل بھی ان کی طرف کھنچنے لگے گا ، اور جو لوگ جہالت کے کام کرتے ہیں ، ان میں میں بھی شامل ہوجاؤں گا ۔
یوسف نے عرض کی اے میرے رب! مجھے قید خانہ زیادہ پسند ہے اس کام سے جس کی طرف یہ مجھے بلاتی ہیں اور اگر تو مجھ سے ان کا مکر نہ پھیرے گا ( ف۹۲ ) تو میں ان کی طرف مائل ہوں گا اور نادان بنوں گا ،
یوسف ( علیہ السلام ) نے کہا ” اے میرے ربّ! قید مجھے منظور ہے بہ نسبت اس کے کہ میں وہ کام کروں جو یہ لوگ مجھ سے چاہتے ہیں ۔ اور اگر تو نے ان کی چالوں کو مجھ سے دفع نہ کیا تو میں ان کے دام میں پھنس جاؤں گا اور جاہلوں میں شامل ہو رہوں 28 گا
۔ ( اب زنانِ مصر بھی زلیخا کی ہم نوا بن گئی تھیں ) یوسف ( علیہ السلام ) نے ( سب کی باتیں سن کر ) عرض کیا: اے میرے رب! مجھے قید خانہ اس کام سے کہیں زیادہ محبوب ہے جس کی طرف یہ مجھے بلاتی ہیں اور اگر تو نے ان کے مکر کو مجھ سے نہ پھیرا تو میں ان کی ( باتوں کی ) طرف مائل ہو جاؤں گا اور میں نادانوں میں سے ہو جاؤں گا
سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :28 یہ آیات ہمارے سامنے ان حالات کا ایک عجیب نقشہ پیش کرتی ہیں جن میں اس وقت حضرت یوسف علیہ السلام مبتلا تھے ۔ انیس بیس سال کا ایک خوبصورت نوجوان ہے جو بدویانہ زندگی سے بہترین تندرستی اور بھری جوانی لیے ہوئے آیا ہے ۔ غریبی ، جلاوطنی اور جبری غلامی کے مراحل سے گزرنے کے بعد قسمت اسے دنیا کی سب سے بڑی متمدن سلطنت کے پایہ تخت میں ایک بڑے رئیس کے ہاں لے آئی ہے ۔ یہاں پہلے تو خود اس گھر کی بیگم یہ اس کے پیچھے پڑ جاتی ہے جس سے اس کا شب و روز کا سابقہ ہے ۔ پھر اس کے حسن کا چرچا سارے دارالسلطنت میں پھیلتا ہے اور شہر بھر کے امیر گھرانوں کی عورتیں اس پر فریفتہ ہو جاتی ہیں ۔ اب ایک طرف وہ ہے اور دوسری طرف سیکڑوں خوبصورت جال ہیں جو ہر وقت ہر جگہ اسے پھانسنے کے لیے پھیلے ہوئے ہیں ۔ ہر طرح کی تدبیر یں اس کے جذبات کو بھڑکانے اور اس کے زہد کو توڑنے کے لیے کی جارہی ہیں ۔ جدھر جاتا ہے یہی دیکھتا ہے کہ گناہ اپنی ساری خوشنمائیوں اور دلفریبیوں کے ساتھ دروازے کھولے اس کا منتظر کھڑا ہے ۔ کوئی تو فجور کے مواقع خود ڈھونڈھتا ہے ، مگر یہاں خود مواقع اس کو ڈھونڈ رہے ہیں اور اس تاک میں لگے ہوئے ہیں کہ جس وقت بھی اس کے دل میں برائی کی طرف ادنیٰ میلان پیدا ہو وہ فورا اپنے آپ کو اس کے سامنے پیش کر دیں ۔ رات دن کے چوبیس گھنٹے وہ اس خطرے میں بسر کر رہا ہے کہ کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی اس کے ارادے کی بندش میں کچھ ڈھیل آجائے تو وہ گناہ کے ان بے شمار دروازوں میں سے کسی میں داخل ہو سکتا ہے جو اس کے انتظار میں کھلے ہوئے ہیں ۔ اس حالت میں یہ خدا پرست نوجوان جس کامیابی کے ساتھ ان شیطانی تر غیبات کا مقابلہ کرتا ہے وہ بجائے خود کچھ کم قابل تعریف نہیں ہے ۔ مگر ضبط نفس کے اس حیرت انگیز کمال پر عرفانِ نفس اور طہارت فکر کا مزید کمال یہ ہے کہ اس پر بھی اس کے دل میں کبھی یہ متکبرانہ خیال نہیں آتا کہ واہ رے میں ، کیسی مضبوط ہے میری سیرت کہ ایسی ایسی حسین اور جوان عورتیں میری گرویدہ ہیں اور پھر بھی میرے قدم نہیں پھسلتے ۔ اس کے بجائے وہ اپنی بشری کمزوریوں کا خیال کر کے کانپ اٹھتا ہے اور نہایت عاجزی کے ساتھ خدا سے مدد کی التجا کرتا ہے کہ اے رب ، میں ایک کمزور انسان ہوں ، میرا اتنا بل بوتا کہاں کہ ان بے پناہ ترغیبات کا مقابلہ کر سکوں ، تو مجھے سہارا دے اور مجھے بچا ، ڈرتا ہوں کہ کہیں میرے قدم پھسل نہ جائیں ۔ درحقیقت یہ حضرت یوسف علیہ السلام کی اخلاقی تربیت کا اہم ترین اور نازک ترین مرحلہ تھا ۔ دیانت ، امانت ، عفت ، حق شناسی ، راست روی ، انضباط ، اور توازن ذہنی کی غیر معمولی صفات جو اب تک ان کے اندر چھپی ہوئی تھیں اور جن سے وہ خود بھی بے خبر تھے ، وہ سب کی سب اس شدید آزمائش کے دور میں ابھر آئیں ، پورے زور کے ساتھ کام کرنے لگیں اور انہیں خود بھی معلوم ہوگیا کہ ان کے اندر کون کون سی قوتیں موجود ہیں اور وہ ان سے کیا کام لے سکتے ہیں ۔