Surah

Information

Surah # 12 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 53 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 1, 2, 3, 7, from Madina
ثُمَّ بَدَا لَهُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَا رَاَوُا الۡاٰيٰتِ لَيَسۡجُنُـنَّهٗ حَتّٰى حِيۡنٍ‏ ﴿35﴾
پھر ان تمام نشانیوں کے دیکھ لینے کے بعد بھی انہیں یہی مصلحت معلوم ہوئی کہ یوسف کو کچھ مدت کے لئے قید خانہ میں رکھیں ۔
ثم بدا لهم من بعد ما راوا الايت ليسجننه حتى حين
Then it appeared to them after they had seen the signs that al-'Azeez should surely imprison him for a time.
Phir inn tamam nishaniyon ko dekh lenay kay baad unhen yehi maslehat maloom hui kay yousuf ko kuch muddat kay liye qaid khanay mein rakhen.
پھر ان لوگوں نے ( یوسف کی پاکدامنی کی ) بہت سی نشانیاں دیکھ لینے کے بعد بھی مناسب یہی سمجھا کہ انہیں ایک مدت تک قید خانے بھیج دیں ۔ ( ٢٣ )
پھر سب کچھ نشانیاں دیکھ دکھا کر پچھلی مت انھیں یہی آئی کہ ضرور ایک مدت تک اسے قیدخانہ میں ڈالیں ( ف۹٤ )
پھر ان لوگوں کو یہ سوجھی کہ ایک مدّت کے لیے اسے قید کر دیں حالانکہ وہ ﴿اس کی پاکدامنی اور خود اپنی عورتوں کے برے اطوار کی ﴾ صریح نشانیاں دیکھ چکے تھے ۔ 30 ؏ ٤
پھر انہیں ( یوسف علیہ السلام کی پاک بازی کی ) نشانیاں دیکھ لینے کے بعد بھی یہی مناسب معلوم ہوا کہ اسے ایک مدت تک قید کر دیں ( تاکہ عوام میں اس واقعہ کا چرچا ختم ہو جائے )
سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :30 اس طرح حضرت یوسف علیہ السلام کا قید میں ڈالا جانا درحقیقت ان کی اخلاقی فتح اور مصر کے پورے طبقہ امراء وحکام کی اخلاقی شکست کا اتمام و اعلان تھا ۔ اب حضرت یوسف علیہ السلام کوئی غیر معروف اور گمنام آدمی نہ رہے تھے ۔ سارے ملک میں ، اور کم از کم دارالسلطنت میں تو عام و خاص سب ان سے واقف ہو چکے تھے ۔ جس شخص کی دلفریب شخصیت پر ایک دو نہیں ، اکثر و بیشتر بڑے گھرانوں کی خواتین فریفتہ ہوں ، اور جس کے فتنہ روزگار حسن سے اپنے گھر بگڑتے دیکھ کر مصر کے حکام نے اپنی خیریت اسی میں دیکھی ہو کہ اسے قید کر دیں ، ظاہر ہے کہ ایسا شخص چھپا نہیں رہ سکتا تھا ۔ یقینا گھر گھر اس کا چرچا پھیل گیا ہوگا ۔ عام طور پر لوگ اس بات سے بھی واقف ہو گئے ہوں گے کہ یہ شخص کیسے بلند اور مضبوط اور پاکیزہ اخلاق کا انسان ہے ، اور یہ بھی جان گئے ہوں گے کہ اس شخص کو جیل اپنے کسی جرم پر نہیں بھیجا گیا ہے بلکہ اس لیے بھیجا گیا ہے کہ مصر کے امراء اپنی عورتوں کو قابو میں رکھنے کے بجائے اس بے گناہ کو جیل بھیج دینا زیادہ آسان پاتے تھے ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی شخص کو شرائط انصاف کے مطابق عدالت میں مجرم ثابت کیے بغیر ، بس یونہی پکڑ کر جیل بھیج دینا ، بے ایمان حکمرانوں کی پرانی سنت ہے ۔ اس معاملہ میں بھی آج کے شیاطین چار ہزار برس پہلے کے اشرار سے کچھ بہت زیادہ مختلف نہیں ہیں ۔ فرق اگر ہے تو بس یہ کہ وہ” جمہوریت“ کا نام نہیں لیتے تھے ، اور یہ اپنے ان کرتوتوں کے ساتھ یہ نام بھی لیتے ہیں ۔ وہ قانون کے بغیر اپنی غیر قانونی حرکتیں کیا کرتے تھے ، اور یہ ہر ناروا زیادتی کے لیے پہلے ایک” قانون “ بنا لیتے ہیں ۔ وہ صاف صاف اپنی اغراض کے لیے لوگوں پر دست درازی کرتے تھے اور یہ جس پر ہاتھ ڈالتے ہیں اس کے متعلق دنیا کو یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس نے ان کو نہیں بلکہ ملک اور قوم کو خطرہ تھا ۔ غرض وہ صرف ظالم تھے ۔ یہ اس کے ساتھ جھوٹے اور بے حیا بھی ہیں ۔
جیل خانہ اور یوسف علیہ السلام حضرت یوسف علیہ السلام کی پاک دامنی کا راز سب پر کھل گیا ۔ لیکن تاہم ان لوگوں نے مصلحت اسی میں دیکھی کہ کچھ مدت تک حضرت یوسف علیہ السلام کو جیل خانہ مییں رکھیں ۔ بہت ممکن ہے کہ اس میں ان سب نے یہ مصلحت سوچی ہو کہ لوگوں میں یہ بات پھیل گئی ہے کہ عزیز کی بیوی اس کی چاہت میں مبتلا ہے ۔ جب ہم یوسف کو قید کر دیں گے وہ لوگ سمجھ لیں گے کہ قصور اسی کا تھا اسی نے کوئی ایسی نگاہ کی ہوگی ۔ یہی وجہ تھی کہ جب شاہ مصر نے آپ کو قید خانے سے آزاد کرنے کے لیے اپنے پاس بلوایا تو آپ نے وہیں سے فرمایا کہ میں نہ نکلوں گا جب تک میری برات اور میری پاکدامنی صاف طور پر ظاہر نہ ہو جائے اور آپ حضرات اس کی پوری تحقیق نہ کرلیں جب تک بادشاہ نے ہر طرح کے گواہ سے بلکہ خود عزیز کی بیوی سے پوری تحقیق نہ کر لی اور آپ کا بےقصور ہونا ، ساری دنیا پر کھل نہ گیا آپ جیل خانے سے باہر نہ نکلے ۔ پھر آپ باہر آئے جب کہ ایک دل بھی ایسا نہ تھا جس میں صدیق اکبر ، نبی اللہ پاکدامن اور معصوم رسول اللہ حضرت یوسف علیہ الصلواۃ والسلام کی طرف سے ذرا بھی بد گمانی ہو ۔ قید کرنے کی بڑی وجہ یہی تھی کہ عزیز کی بیوی کی رسوائی نہ ہو ۔