Surah

Information

Surah # 12 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 53 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 1, 2, 3, 7, from Madina
وَدَخَلَ مَعَهُ السِّجۡنَ فَتَيٰنِ‌ؕ قَالَ اَحَدُهُمَاۤ اِنِّىۡۤ اَرٰٮنِىۡۤ اَعۡصِرُ خَمۡرًا‌ ۚ وَقَالَ الۡاٰخَرُ اِنِّىۡۤ اَرٰٮنِىۡۤ اَحۡمِلُ فَوۡقَ رَاۡسِىۡ خُبۡزًا تَاۡكُلُ الطَّيۡرُ مِنۡهُ‌ ؕ نَبِّئۡنَا بِتَاۡوِيۡلِهٖ ۚ اِنَّا نَرٰٮكَ مِنَ الۡمُحۡسِنِيۡنَ‏ ﴿36﴾
اس کے ساتھ ہی دو اور جوان بھی جیل خانے میں داخل ہوئے ، ان میں سے ایک نے کہا کہ میں نے خواب میں اپنے آپ کو شراب نچوڑتے دیکھا ہے ، اور دوسرے نے کہا میں نے اپنے آپ کو دیکھا ہے کہ میں اپنے سر پر روٹی اٹھائے ہوئے ہوں جسے پرندے کھا رہے ہیں ، ہمیں آپ اس کی تعبیر بتائیے ، ہمیں تو آپ خوبیوں والے شخص دکھائی دیتے ہیں ۔
و دخل معه السجن فتين قال احدهما اني ارىني اعصر خمرا و قال الاخر اني ارىني احمل فوق راسي خبزا تاكل الطير منه نبنا بتاويله انا نرىك من المحسنين
And there entered the prison with him two young men. One of them said, "Indeed, I have seen myself [in a dream] pressing wine." The other said, "Indeed, I have seen myself carrying upon my head [some] bread, from which the birds were eating. Inform us of its interpretation; indeed, we see you to be of those who do good."
Uss kay sath do aur jawan bhi qaid khanay mein dakhil huye inn mein say aik ney kaha kay mein ney khuwab mein apney aap ko sharab nichortay dekha hai aur doosray ney kaha mein ney apney aap ko dekha hai kay mein apney sir per roti uthaye huye hun jisay parinday kha rahey hain humen aap iss ki tabeer batiye humen to aap khoobiyon walay shaks dikhaee detay hain.
اور یوسف کے ساتھ دو اور نوجوان قید خانے میں داخل ہوئے ۔ ( ٢٤ ) ان میں سے ایک نے ( ایک دن یوسف سے ) کہا کہ : میں ( خواب میں ) اپنے آپ کو دیکھتا ہوں کہ میں شراب نچوڑ رہا ہوں ۔ اور دوسرے نے کہا کہ : میں ( خواب میں ) یوں دیکھتا ہوں کہ میں نے اپنے سر پر روٹی اٹھائی ہوئی ہے ( اور ) پرندے اس میں سے کھا رہے ہیں ۔ ذرا ہمیں اس کی تعبیر بتاؤ ، ہمیں تم نیک آدمی نظر آتے ہو ۔
اور اس کے ساتھ قیدخانہ میں دو جوان داخل ہوئے ( ف۹۵ ) ان میں ایک ( ف۹٦ ) بولا میں نے خواب میں دیکھا کہ ( ف۹۷ ) شراب نچوڑتا ہوں اور دوسرا بولا ( ف۹۸ ) میں نے خواب دیکھا کہ میرے سر پر کچھ روٹیاں ہیں جن میں سے پرند کھاتے ہیں ، ہمیں اس کی تعبیر بتایے ، بیشک ہم آپ کو نیکو کار دیکھتے ہیں ( ف۹۹ )
قید خانہ میں 31 دو غلام اور بھی اس کے ساتھ داخل ہوئے ۔ 32 ایک روز ان میں سے ایک نے اس سے کہا میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں شراب کشِید کر رہا ہوں ۔ دوسرے نے کہا میں نے دیکھا کہ میرے سر پر روٹیاں رکھی ہیں اور پرندے ان کو کھا رہے ہیں ۔ دونوں نے کہا ہمیں اس کی تعبیر بتائیے ، ہم دیکھتے ہیں کہ آپ ایک نیک آدمی ہیں ۔ 33
اور ان کے ساتھ دو جوان بھی قید خانہ میں داخل ہوئے ۔ ان میں سے ایک نے کہا: میں نے اپنے آپ کو ( خواب میں ) دیکھا ہے کہ میں ( انگور سے ) شراب نچوڑ رہا ہوں ، اور دوسرے نے کہا: میں نے اپنے آپ کو ( خواب میں ) دیکھا ہے کہ میں اپنے سر پر روٹیاں اٹھائے ہوئے ہوں ، اس میں سے پرندے کھا رہے ہیں ۔ ( اے یوسف! ) ہمیں اس کی تعبیر بتائیے ، بیشک ہم آپ کو نیک لوگوں میں سے دیکھ رہے ہیں
سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :31 غالبا اس وقت جب کہ حجرت یوسف علیہ السلام قید کیے گئے ان کی عمر بیس اکیس سال سے زیادہ نہ ہوگی ۔ تلمود میں بیان کیا گیا ہے کہ قید خانے سے چھوٹ کر جب وہ مصر کے فرمانروا ہوئے تو ان کی عمر تیس سال تھی ، اور قرآن کہتا ہے کہ قید خانے میں وہ بضع سنین یعنی کئی سال رہے ۔ بضع کا اطلاق عربی زبان میں دس تک کے عدد کے لیے ہوتا ہے ۔ سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :32 یہ دو غلام جو قید خانہ میں حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ داخل ہوئے تھے ان کے متعلق بائیبل کی روایت ہے کہ ان میں سے ایک شاہ مصر کے ساقیوں کا سردار تھا اور دوسرا شاہی نان بائیوں کا افسر ۔ تلمود کا بیان ہے کہ ان دونوں کو شاہ مصر نے اس قصور پر جیل بھیجا تھا کہ ایک دعوت کے موقع پر روٹیوں میں کچھ کر کراہٹ پائی گئی تھی اور شراب کے ایک گلاس میں مکھی نکل آئی تھی! سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :33 اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ قید خانے میں حضرت یوسف علیہ السلام کس نگاہ سے دیکھے جاتے تھے ۔ اوپر جن واقعات کا ذکر گزر چکا ہے ان کو پیش نظر رکھنے سے یہ بات قابل تعجب نہیں رہتی کہ ان دوقیدیوں نے آخر حضرت یوسف علیہ السلام ہی سے آکر اپنے خواب کی تعبیر کیوں پوچھی اور ان کی خدمت میں یہ نذر عقیدت کیوں پیش کہ کہ اِنَّا نَرٰکَ مِنَ المُحسِنِینَ ۔ جیل کے اندر اور باہر سب لوگ جانتے تھے کہ یہ شخص کوئی مجرم نہیں ہے بلکہ ایک نہایت نیک نفس آدمی ہے ، سخت ترین آزمائشوں میں اپنی پر ہیزگاری کا ثبوت دے چکا ہے ، آج پورے ملک میں اس سے زیادہ نیک انسان کوئی نہیں ہے ، حتٰی کہ ملک کے مذہبی پیشواؤں میں بھی اس کی نظیر مفقود ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ نہ صرف قیدی ان کو عقیدت کی نگاہ سے دیکھتے تھے بلکہ قید خانے کے حکام اور اہلکار تک ان کے معتقد ہو گئے تھے ۔ چنانچہ بائیبل میں ہے کہ ” قید خانے کی داروغہ نے سب قیدیوں کو جو قید میں تھے یوسف علیہ السلام کے ہاتھ میں سونپا اور جو کچھ وہ کرتے اسی حکم سے کرتے تھے ، اور قید خانے کا داروغہ سب کاموں کی طرف سے جو اس کے ہاتھ میں تھے بے فکر تھا “ ۔ ( پیدائش ۳۹:۲۳ ، ۲۲ )
جیل خانہ میں بادشاہ کے باورچی اور ساقی سے ملاقات اتفاق سے جس روز حضرت یوسف علیہ السلام کو جیل خانہ جانا پڑا اسی دن باشاہ کا ساقی اور نان بائی بھی کسی جرم میں جیل خانے بھیج دیئے گئے ۔ ساقی کا نام بندار تھا اور باورچی کا نام بحلث تھا ۔ ان پر الزام یہ تھا کہ انہوں نے کھانے پینے میں بادشاہ کو زہر دینے کی سازش کی تھی ۔ قید خانے میں بھی نبی اللہ حضرت یوسف علیہ السلام کی نیکیوں کی کافی شہرت تھی ۔ سچائی ، امانت داری ، سخاوت ، خوش خلقی ، کثرت عبادت ، اللہ ترسی ، علم و عمل ، تعبیر خواب ، احسان و سلوک وغیرہ میں آپ مشہور ہوگئے تھے ۔ جیل خانے کے قیدیوں کی بھلائی ان کی خیر خواہی ان سے مروت و سلوک ان کے ساتھ بھلائی اور احسان ان کی دلجوئی اور دلداری ان کے بیماروں کی تیمارداری خدمت اور دوا دارو بھی آپ کا تشخص تھا ۔ یہ دونوں ہی ملازم حضرت یوسف علیہ السلام سے بہت ہی محبت کرنے لگے ۔ ایک دن کہنے لگے کہ حضرت ہمیں آپ سے بہت ہی محبت ہو گئی ہے ۔ آپ نے فرمایا اللہ تمہیں برکت دے ۔ بات یہ ہے کہ مجھے تو جس نے چاہا کوئی نہ کوئی آفت ہی مجھ پر لایا ۔ پھوپھی کی محبت ، باپ کا پیار ، عزیز کی بیوی کی چاہت ، سب مجھے یاد ہے ۔ اور اس کا نتیجہ میری ہی نہیں بلکہ تمہاری آنکھوں کے سامنے ہے ۔ اب دونوں نے ایک مرتبہ خواب دیکھا ساقی نے دیکھا کہ وہ انگور کا شیرہ نچوڑ رہا ہے ۔ ابن مسعود کی قرأت میں خمرا کے بدلے لفظ عنبا ہے ، اہل عمان انگور کو خمر کہتے ہیں ۔ اس نے دیکھا تھا کہ گویا اس نے انگور کی بیل بوئی ہے اس میں خوشے لگے ہیں ، اس نے توڑے ہیں ۔ پھر ان کا شیرہ نچوڑ رہا ہے کہ بادشاہ کو پلائے ۔ یہ خواب بیان کر کے آرزو کی کہ آپ ہمیں اس کی تعبیر بتلائیے ۔ اللہ کے پیغمبر نے فرمایا اس کی تعبیر یہ ہے کہ تمہیں تین دن کے بعد جیل خانے سے آزاد کر دیا جائے گا اور تم اپنے کام پر یعنی بادشاہ کی ساقی گری میں لگ جاؤ گے ۔ دوسرے نے کہا جناب میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں سر پر روٹی اٹھائے ہوئے ہوں اور پرندے آ آکر اس میں سے کھا رہے ہیں ۔ اکثر مفسرین کے نزدیک مشہور بات تو یہی ہے کہ واقعہ ان دونوں نے یہی خواب دیکھے تھے اور ان کی صحیح تعبیر حضرت یوسف علیہ السلام سے دریافت کی تھی ۔ لیکن حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ درحقیقت انہوں نے کوئی خواب تو نہیں دیکھا تھا ۔ لیکن حضرت یوسف علیہ السلام کی آزمائش کے لیے جھوٹے خواب بیان کر کے تعبیر طلب کی تھی ۔