Surah

Information

Surah # 12 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 53 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 1, 2, 3, 7, from Madina
يٰصَاحِبَىِ السِّجۡنِ اَمَّاۤ اَحَدُكُمَا فَيَسۡقِىۡ رَبَّهٗ خَمۡرًا‌ۚ وَاَمَّا الۡاٰخَرُ فَيُصۡلَبُ فَتَاۡكُلُ الطَّيۡرُ مِنۡ رَّاۡسِهٖ‌ؕ قُضِىَ الۡاَمۡرُ الَّذِىۡ فِيۡهِ تَسۡتَفۡتِيٰنِؕ‏ ﴿41﴾
اے میرے قید خانے کے رفیقو! تم دونوں میں سے ایک تو اپنے بادشاہ کو شراب پلانے پر مقرر ہو جائے گا لیکن دوسرا سولی پر چڑھایا جائے گا اور پرندے اس کا سر نوچ نوچ کھائیں گے تم دونوں جس کے بارے میں تحقیق کر رہے تھے اس کام کا فیصلہ کر دیا گیا ہے ۔
يصاحبي السجن اما احدكما فيسقي ربه خمرا و اما الاخر فيصلب فتاكل الطير من راسه قضي الامر الذي فيه تستفتين
O two companions of prison, as for one of you, he will give drink to his master of wine; but as for the other, he will be crucified, and the birds will eat from his head. The matter has been decreed about which you both inquire."
Aey meray qaid khaney kay rafiqo! Tum dono mein say aik to apney badshah ko sharab pilaney per muqarrar hojayega lekin doosra sooli per charhaya jayega aur parinday uss ka sir noch noch khayen gay tum dono jiss kay baray mein tehqeeq ker rahey thay uss kaam ka faisla ker diya gaya.
اے میرے قید خانے کے ساتھیو ! ( اب اپنے خوابوں کی تعبیر سنو ) تم میں سے ایک کا معاملہ تو یہ ہے کہ وہ ( قید سے آزاد ہوکر ) اپنے آقا کو شراب پلائے گا ۔ رہا دوسرا تو اسے سولی دی جائے گی ، جس کے نتیجے میں پرندے اس کے سر کو ( نوچ کر ) کھائیں گے ۔ جس معاملے میں تم پوچھ رہے تھے ، اس کا فیصلہ ( اسی طرح ) ہوچکا ہے ۔
اے قید خانہ کے دونوں ساتھیو! تم میں ایک تو اپنے رب ( بادشاہ ) کو شراب پلائے گا ( ف۱۱۰ ) رہا دوسرا ( ف۱۱۱ ) وہ سو ُلی دیا جائے گا تو پرندے اس کا سر کھائیں گے ( ف۱۱۲ ) حکم ہوچکا اس بات کا جس کا تم سوال کرتے تھے ( ف۱۱۳ )
اے زنداں کے ساتھیو ، تمہارے خواب کی تعبیر یہ ہے کہ تم میں سے ایک تو اپنے رب ﴿شاہِ مصر﴾ کو شراب پلائے گا ، رہا دوسرا تو اسے سولی پر چڑھایا جائے گا اور پرندے اس کا سر نوچ نوچ کر کھائیں گے ۔ فیصلہ ہوگیا اس بات کا جو تم پوچھ رہے تھے ۔ 34
اے میرے قید خانہ کے دونوں ساتھیو! تم میں سے ایک ( کے خواب کی تعبیر یہ ہے کہ وہ ) اپنے مربّی ( یعنی بادشاہ ) کو شراب پلایا کرے گا ، اور رہا دوسرا ( جس نے سر پر روٹیاں دیکھی ہیں ) تو وہ پھانسی دیا جائے گا پھر پرندے اس کے سر سے ( گوشت نوچ کر ) کھائیں گے ، ( قطعی ) فیصلہ کر دیا گیا جس کے بارے میں تم دریافت کرتے ہو
سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :34 یہ تقریر جو اس پورے قصے کی جان ہے اور خود قرآن میں بھی توحید کی بہترین تقریروں میں سے ہے ، بائیبل اور تلمود میں کہیں اس کی طرف ادنی اشارہ تک نہیں ہے ۔ وہ حضرت یوسف علیہ السلام کو محض ایک دانشمند اور پرہیزگار آدمی کی حیثیت سے پیش کرتی ہیں ۔ مگر قرآن صرف یہی نہیں کہ ان کی سیرت کے ان پہلوؤں کو بھی بائیبل اور تلمود کی بہ نسبت بہت زیادہ روشن کر کے پیش کرتا ہے ، بلکہ اس کے علاوہ وہ ہم کو یہ بھی بتاتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام اپنا ایک پیغمبرانہ مشن رکھتے تھے اور اس کی دعوت و تبلیغ کا کام انہوں نے قید خانہ ہی میں شروع کر دی تھی ۔ یہ تقریر ایسی نہیں ہے کہ اس پر سے یونہی سرسری طور پر گزر جائے ۔ اس کے متعدد پہلو ایسے ہیں جن پر توجہ اور غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے: ( ١ ) یہ پہلا موقع ہے جبکہ حضرت یوسف علیہ السلام ہم کو دین حق کی تبلیغ کرتے نظر آتے ہیں ۔ اس سے پہلے ان کی داستان حیات کے جوابات قرآن نے پیش کیے ہیں ان میں صرف اخلاق فاضلہ کی مختلف خصوصیات مختلف مرحلوں پر ابھرتی رہی ہیں مگر تبلیغ کا کوئی نشان وہاں نہیں پایا جاتا ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پہلے مراحل محض تیاری اور تربیت کے تھے ۔ نبوت کا کام عملا اس قید خانے کے مرحلے میں ان کے سپرد کیا گیا ہے اور نبی کی حیثیت سے یہ ان کی پہلی تقریر دعوت ہے ۔ ( ۲ ) یہ بھی پہلا موقع ہے کہ انہوں نے لوگوں کے سامنے اپنی اصلیت ظاہر کی ۔ اس سے پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ نہایت صبر و شکر کے ساتھ ہر اس حالت کو قبول کرتے رہے جو ان کو پیش آئی ۔ جب قافلے والوں نے ان کو پکڑ کر غلام بنایا ، جب وہ مصر گئے ، جب انہیں عزیز مصر کے ہاتھ فروخت کیا گیا ، جب انہیں جیل بھیجا گیا ، ان میں سے کسی موقع پر بھی انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ میں ابراہیم و اسحاق علیہما السلام کا پوتا ہوں اور یعقوب علیہما السلام کا بیٹا ہوں ۔ ان کے باپ دادا کوئی غیر معروف لوگ نہ تھے ۔ قافلے والے خواہ اہل مدین ہوں یا اسماعیلی ، دونوں ان کے خاندان سے قریبی تعلق رکھنے والے ہی تھے ۔ اہل مصر بھی کم از کم حضرت ابراہیم علیہ السلام سے تو ناواقف نہ تھے ۔ ( بلکہ حضرت یوسف علیہ السلام جس انداز سے ان کا اور حضرت یعقوب اور اسحاق علیہما السلام کا ذکر کر رہے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تینوں بزرگوں کی شہرت مصر میں پہنچی ہوئی تھی ۔ لیکن حضرت یوسف علیہ السلام نے کبھی باپ دادا کا نام لے کر اپنے آپ کو ان حالات سے نکالنے کی کوشش نہ کی کہ جن میں وہ پچھلے چار پانچ سال کے دوران میں مبتلا ہوتے رہے ۔ غالبا وہ خود بھی اچھی طرح سمجھ رہے تھے کہ اللہ تعالی جو کچھ انہیں بنانا چاہتا ہے اس کے لیے ان کا ان حالات سے گزرنا ہی ضروری ہے ۔ مگر اب انہوں نے محض اپنی دعوت و تبلیغ کی خاطر اس حقیقت سے پردہ اٹھایا کہ میں کوئی نیا اور نرالا دین پیش نہیں کر رہا ہوں بلکہ میرا تعلق دعوت توحید کی اس عالمگیر تحریک سے ہے جس کے آئمہ ابراہیم و اسحاق و یعقوب علیہم السلام ہیں ۔ ایسا کرنا اس لیے ضروری تھا کہ داعی حق کبھی اس دعوے کے ساتھ نہیں اٹھا کرتا کہ وہ ایک نئی بات پیش کر رہا ہے جو اس سے پہلے کسی کو نہ سوجھی تھی ، بلکہ پہلے قدم ہی پر یہ بات کھول دیتا ہے کہ میں اس ازلی و ابدی حقیقت کی طرف بلا رہا ہوں جو ہمیشہ سے تمام اہل حق پیش کرتے رہے ہیں ۔ ( ۳ ) پھر حضرت یوسف علیہ السلام نے جس طرح اپنی تبلیغ کے لیے موقع نکالا اس میں ہم کو حکمت تبلیغ کا ایک اہم سبق ملتا ہے ۔ دو آدمی اپنا خواب بیان کرتے ہیں اور اپنی عقیدت مندی کا اظہار کرتے ہوئے اس کی تعبیر پوچھتے ہیں ۔ جواب میں آپ فرماتے ہیں کہ تعبیر تو میں تمہیں ضرور بتاؤں گا مگر پہلے یہ سن لو کہ اس علم کا ماخذ کیا ہے جس کی بنا پر میں تمہیں تعبیر دیتا ہوں ۔ اس طرح ان کی بات میں سے اپنی بات کہنے کا موقع نکال کر آپ ان کے سامنے اپنا دین پیش کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ فی الواقع کسی شخص کے دل میں اگر تبلیغ حق کی دھن سمائی ہوئی ہو اور وہ حکمت بھی رکھتا ہو تو کیسی خوبصورتی کے ساتھ وہ گفتگو کا رخ اپنی دعوت کی طرف پھیر سکتا ہے ۔ جسے دعوت کی دھن لگی ہوئی نہیں ہوتی اس کے سامنے تو مواقع پر مواقع آتے ہیں اور وہ کبھی محسوس نہیں کرتا کہ یہ موقع ہے اپنی بات کہنے کا ۔ مگر وہ جسے دھن لگی ہوئی ہوتی ہے وہ موقع کی تاک میں لگا رہتا ہے اور اسے پاتے ہی اپنا کام شروع کر دیتا ہے ۔ البتہ بہت فرق ہے حکیم کی موقع شناسی میں اور اس نادان مبلغ کی بھونڈی تبلیغ میں جو موقع و محل کا لحاظ کیے بغیر لوگوں کے کانوں میں زبردستی اپنی دعوت ٹھونسنے کی کوشش کرتا ہے اور پھر لیچڑپن اور جھگڑالو پن سے انہیں الٹا متنفر کر کے چھوڑتا ہے ۔ ( ٤ ) اس سے یہ بھی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ لوگوں کے سامنے دعوت دین پیش کرنے کا صحیح ڈھنگ کیا ہے ۔ حضرت یوسف علیہ السلام چھوٹتے ہی دین کے تفصیلی اصول اور ضوابط پیش کرنے شروع نہیں کر دیتے بلکہ ان کے سامنے دین کے اس نقطہ آغاز کو پیش کرتے ہیں جہاں سے اہل حق کا راستہ اہل باطل کے راستوں سے جدا ہوتا ہے ، یعنی توحید اور شرک کا فرق ۔ پھر اس فرق کو وہ ایسے معقول طریقے سے واضح کرتے ہیں کہ عقل عام رکھنے والا کوئی شخص اسے محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ خصوصیت کے ساتھ جو لوگ اس وقت ان کے مخاطب تھے ان کے دل و دماغ میں تو تیر کی طرح یہ بات اتر گئی ہوگی ، کیونکہ وہ نوکر پیشہ غلام تھے اور اپنے دل کی گہرائیوں میں اس بات کو خوب محسوس کر سکتے تھے کہ ایک آقا کا غلام ہونا بہتر ہے یا بہت سے آقاؤں کا ، اور سارے جہان کے آقا کی بندگی بہتر ہے یا بندوں کی بندگی ۔ پھر وہ یہ بھی نہیں کہتے کہ اپنا دین چھوڑو اور میرے دین میں آجاؤ ، بلکہ ایک عجیب انداز میں ان سے کہتے ہیں کہ دیکھو ، اللہ کا یہ کتنا بڑا فضل ہے کہ اس نے اپنے سوا ہم کو کسی کا بندہ نہیں بنایا مگر لوگ اس کا شکر ادا نہیں کرتے اور خواہ مخواہ خود گھڑ گھڑ کر اپنے رب بناتے اور ان کی بندگی کرتے ہیں ۔ پھر وہ اپنے مخاطبوں کے دین پر تنقید بھی کرتے ہیں ، مگر نہایت معقولیت کے ساتھ اور دل آزاری کے ہر شائبے کے بغیر ۔ بس اتنا کہنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ یہ معبود جن میں سے کسی کو تم ان داتا ، کسی کو خداوند نعمت ، کسی کو مالک زمین اور کسی کو رب دولت یا مختار صحت و مرض وغیرہ کہتے ہو ، یہ سب خالی خولی نام ہی ہیں ، ان ناموں کے پیچھے کوئی حقیقی ان داتائی و خداوندی اور مالکیت و ربوبیت موجود نہیں ہے ۔ اصل مالک اللہ تعالیٰ ہے جسے تم بھی کائنات کا خالق و رب تسلیم کرتے ہو ، اور اس نے ان میں سے کسی کے لیے بھی خداوندی اور معبودیت کی کوئی سند نہیں اتاری ہے ۔ اس نے تو فرمانروائی کے سارے حقوق اور اختیارات اپنے ہی لیے مخصوص رکھے ہیں اور اس کا حکم ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو ۔ ( ۵ ) اس سے یہ بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے قید خانے کی زندگی کے یہ آٹھ دس سال کس طرح گزارے ہوں گے ۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ قرآن میں چونکہ ان کے ایک ہی وعظ کا ذکر ہے اس لیے انہوں نے صرف ایک ہی دفعہ دعوت دین کے لیے زبان کھولی تھی ۔ مگر اول تو ایک پیغمبر کے متعلق یہ گمان کرنا ہی سخت بدگمانی ہے کہ وہ اپنے اصل کام سے غافل ہوگا ۔ پھر جس شخص کی تبلیغی دھن کا یہ حال تھا کہ دو آدمی تعبیر خواب پوچھتے ہیں اور وہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر دین کی تبلیغ شروع کر دیتا ہے اس کے متعلق یہ کیسے گمان کیا جاسکتا ہے کہ اس نے قید خانے کے یہ چند سال خاموش ہی گزار دیے ہوں گے ۔
خواب اور اس کی تعبیر اب اللہ کے برگزیدہ پیغمبر ان کے خواب کی تعبیر بتلا رہے ہیں لیکن یہ نہیں فرماتے کہ تیری خواب کی یہ تعبیر ہے اور تیرے خواب کی یہ تعبیر ہے تاکہ ایک رنجیدہ نہ ہو جائے اور موت سے پہلے اس پر موت کا بوجھ نہ پڑ جائے ۔ بلکہ مبہم کر کے فرماتے ہیں تم دو میں سے ایک تو اپنے بادشاہ کا ساقی بن جائے گا یہ دراصل یہ اس کے خواب کی تعبیر ہے جس نے شیرہ انگور تیار کرتے اپنے تئیں دیکھا تھا ۔ اور دوسرے جس نے اپنے سر پر روٹیاں دیکھی تھیں ۔ اس کے خواب کی تعبیر یہ دی کہ اسے سولی دی جائے گی اور پرندے اس کا مغز کھائیں گے ۔ پھر ساتھ ہی فرمایا کہ یہ اب ہو کر ہی رہے گا ۔ اس لیے کہ جب تک خواب کی تعبیر بیان نہ کی جائے وہ معلق رہتا ہے اور جب تعبیر ہو چکی وہ ظاہر ہو جاتا ہے ۔ کہتے ہیں کہ تعبیر سننے کے بعد ان دونوں نے کہا کہ ہم نے تو دراصل کوئی خواب دیکھا ہی نہیں ۔ آپ نے فرمایا اب تو تمہارے سوال کے مطابق ظاہر ہو کر ہی رہے گا ۔ اس سے ظاہر ہے کہ جو شخص خواہ مخواہ کا خواب گھڑ لے اور پھر اس کی تعبیر بھی دی دے دی جائے تو وہ لازم ہو جاتی ہے ۔ واللہ اعلم ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں خواب گویا پرندے کے پاؤں پر ہے جب تک اس کی تعبیر نہ دے دی جائے جب تعبیر دے دی گئی پھر وہ واقع ہو جاتا ہے مسند ابو یعلی میں مرفوعا مروی ہے کہ خواب کی تعبیر سب سے پہلے جس نے دی اس کے لیے ہے ۔