Surah

Information

Surah # 12 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 53 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 1, 2, 3, 7, from Madina
وَقَالَ لِلَّذِىۡ ظَنَّ اَنَّهٗ نَاجٍ مِّنۡهُمَا اذۡكُرۡنِىۡ عِنۡدَ رَبِّكَ فَاَنۡسٰٮهُ الشَّيۡطٰنُ ذِكۡرَ رَبِّهٖ فَلَبِثَ فِى السِّجۡنِ بِضۡعَ سِنِيۡنَ‏ ﴿42﴾
اور جس کی نسبت یوسف کا گمان تھا کہ ان دونوں میں سے یہ چھوٹ جائے گا اس سے کہا کہ اپنے بادشاہ سے میرا ذکر بھی کر دینا پھر اسے شیطان نے اپنے بادشاہ سے ذکر کرنا بھلا دیا اور یوسف نے کئی سال قید خانے میں ہی کاٹے ۔
و قال للذي ظن انه ناج منهما اذكرني عند ربك فانسىه الشيطن ذكر ربه فلبث في السجن بضع سنين
And he said to the one whom he knew would go free, "Mention me before your master." But Satan made him forget the mention [to] his master, and Joseph remained in prison several years.
Aur jiss ki nisbat yousuf ka guman tha kay inn dono mein say yeh choot jayega uss say kaha kay apney badshah say mera ziker bhi ker dena phir ussay shetan ney apney badshah say ziker kerna bhula diya aur yousuf ney kaee saal qaid khaney mein hi kaatay.
اور ان دونوں میں سے جس کے بارے میں ان کا گمان تھا کہ وہ رہا ہوجائے گا ، اس سے یوسف نے کہا کہ : اپنے آقا سے میرا بھی تذکرہ کردینا ۔ ( ٢٧ ) پھر ہوا یہ کہ شیطان نے اس کو یہ بات بھلا دی کہ وہ اپنے آقا سے یوسف کا تذکرہ کرتا ۔ چنانچہ وہ کئی برس قید خانے میں رہے ۔
اور یوسف نے ان دونوں میں سے جسے بچتا سمجھا ( ف۱۱٤ ) اس سے کہا اپنے رب ( بادشاہ ) کے پاس میرا ذکر کرنا ( ف۱۱۵ ) تو شیطان نے اسے بھلا دیا کہ اپنے رب ( بادشاہ ) کے سامنے یوسف کا ذکر کرے تو یوسف کئی برس اور جیل خانہ میں رہا ( ف۱۱٦ )
پھر ان میں سے جس کے متعلق خیال تھا کہ وہ رہا ہو جائے گا اس سے یوسف ( علیہ السلام ) نے کہا کہ اپنے رب ﴿شاہِ مصر﴾ سے میرا ذکر کرنا ۔ مگر شیطان نے اسے ایسا غفلت میں ڈالا کہ وہ اپنے رب ﴿شاہِ مصر﴾ سے اس کا ذکر کرنا بھول گیا اور یوسف ( علیہ السلام ) کئی سال قید خانے میں پڑا رہا ۔ 35 ؏ ۵
اور یوسف ( علیہ السلام ) نے اس شخص سے کہا جسے ان دونوں میں سے رہائی پانے والا سمجھا کہ اپنے بادشاہ کے پاس میرا ذکر کر دینا ( شاید اسے یاد آجائے کہ ایک اور بے گناہ بھی قید میں ہے ) مگر شیطان نے اسے اپنے بادشاہ کے پاس ( وہ ) ذکر کرنا بھلا دیا نتیجۃً یوسف ( علیہ السلام ) کئی سال تک قید خانہ میں ٹھہرے رہے
سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :35 اس مقام کی تفسیر بعض مفسرین نے یہ کی ہے کہ ” شیطان نے حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنے رب ( یعنی اللہ تعالی ) کی یاد سے غافل کر دیا اور انہوں نے ایک بندے سے چاہا کہ وہ اپنے رب ( یعنی شاہ مصر ) سے ان کا تذکرہ کر کے ان کی رہائی کی کوشش کرے ، اس لیے اللہ تعالی نے ان کو یہ سزا دی کہ وہ کئی سال تک جیل میں پڑے رہے“ ۔ درحقیقت یہ تفسیر بالکل غلط ہے ۔ صحیح یہی ہے ، جیسا کہ علامہ ابن کثیر ، اور متقدمین میں سے مجاہد اور محمد بن اسحاق وغیرہ نے کہا ہے کہ فَاَنْسٰىهُ الشَّيْطٰنُ ذِكْرَ رَبِّهٖ کی ضمیر اس شخص کی طرف پھرتی ہے جس کے متعلق حضرت یوسف علیہ السلام کا گمان تھا کہ وہ رہائی پانے والا ہے ، اور اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ ” شیطان نے اسے اپنے آقا سے حضرت یوسف علیہ السلام کا ذکر کرنا بھلا دیا “ ۔ اس سلسلہ میں ایک حدیث بھی پیش کی جاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” اگر یوسف علیہ السلام نے وہ بات نہ کہی ہوتی جو انہوں نے کہی تو وہ قید میں کئی سال نہ پڑے رہتے“ ۔ لیکن علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ ” یہ حدیث جتنے طریقوں سے روایت کی گئی ہے وہ سب ضعیف ہیں ۔ بعض طریقوں سے یہ مرفوعا روایت کی گئی ہے اور ان میں سفیان بن وکیع اور ابراہیم بن یزید راوی ہیں جو دونوں ناقابل اعتماد ہیں ۔ اور بعض طریقوں سے یہ مرسلا روایت ہوئی ہے اور ایسے معاملات میں مرسلات کا اعتبار نہیں کیا جا سکتا“ ۔ علاوہ بریں روایت کے اعتبار سے بھی یہ بات باور کرنے کے قابل نہیں ہے کہ ایک مظلوم شخص کا اپنی رہائی کے لیے دنیوی تدبیر کرنا خدا سے غفلت اور توکل کے فقدان کی دلیل قرار دیا گیا ہوگا ۔
تعبیر بتا کر بادشاہ وقت کو اپنی یاد دہانی کی تاکید جسے حضرت یوسف نے اس کے خواب کی تعبیر کے مطابق اپنے خیال میں جیل خانہ سے آزاد ہونے والا سمجھا تھا اس سے در پردہ علیحدگی میں کہ وہ دوسرا یعنی باورچی نہ سنے فرمایا کہ بادشاہ کے سامنے ذرا میرا ذکر بھی کر دینا ۔ لیکن یہ اس بات کو بالکل ہی بھول گیا ۔ یہ بھی ایک شیطانی چال ہی تھی جس سے نبی اللہ علیہ السلام کئی سال تک قید خانے میں ہی رہے ۔ پس ٹھیک قول یہی ہے کہ فانساہ میں ہ کی ضمیر کا مرجع نجات پانے والا شخص ہی ہے ۔ گویا یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ ضمیر حضرت یوسف کی طرف پھرتی ہے ۔ ابن عباس سے مرفوعاً مروی ہے کہ نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یوسف یہ کلمہ نہ کہتے تو جیل خانے میں اتنی لمبی مدت نہ گزارتے ۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا اور سے کشادگی چاہی ۔ یہ روایت بہت ہی ضعیف ہے ۔ اس لیے کہ سفیان بن وکیع اور ابراہیم بن یزید دونوں راوی ضعیف ہیں ۔ حسن اور قتادہ سے مرسلاً مروی ہے ۔ گو مرسل حدیثیں کسی موقع پر قابل قبول بھی ہوں لیکن ایسے اہم مقامات پر ایسی مرسل روایتیں ہرگز احتجاج کے قابل نہیں ہو سکتیں واللہ اعلم ۔ بضع لفظ تین سے نو تک کے لیے آتا ہے ۔ حضرت وہب بن منبہ کا بیان ہے کہ حضرت ایوب بیماری میں سات سال تک مبتلا رہے اور حضرت یوسف قید خانے میں سات سال تک رہے اور بخت نصر کا عذاب بھی سات سال تک رہا ابن عباس کہتے ہیں مدت قید بارہ سال تھی ۔ ضحاک کہتے ہیں چودہ برس آپ نے قید خانے میں گزارے ۔