Surah

Information

Surah # 12 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 53 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 1, 2, 3, 7, from Madina
وَكَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوۡسُفَ فِى الۡاَرۡضِ‌ۚ يَتَبَوَّاُ مِنۡهَا حَيۡثُ يَشَآءُ‌ ؕ نُصِيۡبُ بِرَحۡمَتِنَا مَنۡ نَّشَآءُ‌ۚ وَلَا نُضِيۡعُ اَجۡرَ الۡمُحۡسِنِيۡنَ‏ ﴿56﴾
اسی طرح ہم نے یوسف ( علیہ السلام ) کو ملک کا قبضہ دے دیا ۔ کہ وہ جہاں کہیں چاہے رہے سہے ہم جسے چاہیں اپنی رحمت پہنچا دیتے ہیں ۔ ہم نیکوکاروں کا ثواب ضائع نہیں کرتے ۔
و كذلك مكنا ليوسف في الارض يتبوا منها حيث يشاء نصيب برحمتنا من نشاء و لا نضيع اجر المحسنين
And thus We established Joseph in the land to settle therein wherever he willed. We touch with Our mercy whom We will, and We do not allow to be lost the reward of those who do good.
Issi tarah hum ney yousuf ( alh-e-salam ) ko mulk ka qabza dey diya. Kay woh jahan kahin chahaiye rahey sahey hum jisay chahayen apni rehmat phoncha detay hain. Hum neko kaaron ka sawab zaya nahi kertay.
اور اس طرح ہم نے یوسف کو ملک میں ایسا اقتدار عطا کیا کہ وہ اس میں جہاں چاہیں اپنا ٹھکانا بنائیں ۔ ہم اپنی رحمت جس کو چاہتے ہیں پہنچاتے ہیں اور نیک لوگوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتے ۔
اور یوں ہی ہم نے یوسف کو اس ملک پر قدرت بخشی اس میں جہاں چاہے رہے ( ف۱٤۱ ) ہم اپنی رحمت ( ف۱٤۲ ) جسے چاہیں پہنچائیں اور ہم نیکوں کا نیگ ( اَجر ) ضائع نہیں کرتے ،
اس طرح ہم نے اس سرزمین میں یوسف ( علیہ السلام ) کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کی ۔ وہ مختار تھا کہ اس میں جہاں چاہے اپنی جگہ بنائے ۔ 48 ہم اپنی رحمت سے جس کو چاہتے ہیں نوازتے ہیں ، نیک لوگوں کا اجر ہمارے ہاں مارا نہیں جاتا ،
اور اس طرح ہم نے یوسف ( علیہ السلام ) کو ملک ( مصر ) میں اقتدار بخشا ( تاکہ ) اس میں جہاں چاہیں رہیں ۔ ہم جسے چاہتے ہیں اپنی رحمت سے سرفراز فرماتے ہیں اور نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں کرتے
سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :48 اس سے پہلے جو توضیحات گزر چکی ہیں ان کی روشنی میں دیکھا جائے تو صاف نظر آئے گا کہ یہ کوئی نوکری کی درخواست نہیں تھی جو کسی طالب جاہ نے وقت کے بادشاہ کی اشارہ پاتے ہی جھٹ سے پیش کر دی ہو ۔ درحقیقت یہ اس انقلاب کا دروازہ کھولنے کے لیے آخری ضرب تھی جو حضرت یوسف علیہ السلام کی اخلاقی طاقت سے پچھلے دس بارہ سال کے اندر نشونما پاکر ظہور کے لیے تیار ہوچکا تھا اور اب جس کا فتح باب صرف ایک ٹھونکے ہی کا محتاج تھا ۔ حضرت یوسف علیہ السلام آزمائشوں کے ایک طویل سلسلے سے گزر کر آرہے تھے ۔ اور یہ آزمائشیں کسی گمنامی کے گوشے میں پیش نہیں آئی تھیں بلکہ بادشاہ سے لے کر عام شہریوں تک مصر کا بچہ بچہ ان سے واقف تھا ۔ ان آزمائشوں میں انہوں نے ثابت کر دیا تھا کہ وہ امانت ، راستبازی ، حلم ، ضبط نفس ، عالی ظرفی ، ذہانت و فراست اور معاملہ فہمی میں کم از کم اپنے زمانہ کے لوگوں کے درمیان تو اپنا نظیر نہیں رکھتے ۔ ان کی شخصیت کے یہ اوصاف اس طرح کھل چکے تھے کہ کسی کو ان سے انکار کی مجال نہ رہی تھی ۔ زبانیں ان کی شہادت دے چکی تھیں ۔ دل ان سے مسخر ہو چکے تھے ۔ خود بادشاہ ان کے آگے ہتھیار ڈال چکا تھا ۔ ان کا ” حفیظ “ اور ”علیم “ ہونا اب محض ایک دعویٰ نہ تھا بلکہ ایک ثابت شدہ واقعہ تھا جس پر سب ایمان لاچکے تھے ۔ اب اگر کچھ کسر باقی تھی تو وہ صرف اتنی کہ حضرت یوسف علیہ السلام خود حکومت کے ان اختیارات کو اپنے ہاتھ میں لینے پر رضامندی ظاہر کریں جن کے لیے بادشاہ اور اس کے اعیان سلطنت اپنی جگہ بخوبی جان چکے تھے کہ ان سے زیادہ موزوں آدمی اور کوئی نہیں ہے ۔ چنانچہ یہی وہ کسر تھی جو انہوں نے اپنے اس فقرے سے پوری کر دی ۔ ان کی زبان سے اس مطالبے کے نکلتے ہی بادشاہ اور اس کی کونسل نے جس طرح اسے بسروچشم قبول کیا وہ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ پھل اتنا پک چکا تھا کہ اب ٹوٹنے کے لیے ایک اشارے ہی کا منتظر تھا ۔ ( تلمود کا بیان ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو حکومت کے اختیارات سونپنے کا فیصلہ تنہا بادشاہ ہی نے نہیں کیا تھا بلکہ پوری شاہی کونسل نے بالاتفاق اس کے حق میں رائے دی تھی ) ۔ یہ اختیارات جو حضرت یوسف علیہ السلام نے مانگے اور ان کو سونپے گئے ان کی نوعیت کیا تھی؟ ناواقف لوگ یہاں ” خزائن ارض“ کے الفاظ اور آگے چل کر غلہ کی تقسیم کا ذکر دیکھ کر قیاس کرتے ہیں کہ شاید یہ افسر خزانہ ، یا افسر مال ، یا قحط کمشنر ، یا وزیر مالیات ، یا وزیر غذائیات کی قسم کا کوئی عہدہ ہوگا ۔ لیکن قرآن ، بائیبل ، اور تلمود کی متفقہ شہادت ہے کہ درحقیقت حضرت یوسف علیہ السلام سلطنت مصر کے مختار کل ( رومی اصطلاح میں ڈکٹیٹر ) بنائے گئے تھے اور ملک کا سیاہ و سپید سب کچھ ان کے اختیار میں دے دیا گیا تھا ۔ قرآن کہتا ہے کہ جب حضرت یعقوب علیہ السلام مصر پہنچے ہیں اس وقت حضرت یوسف علیہ السلام تخت نشین تھے ( ورفع ابویہ علی العرش ) ۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی اپنی زبان سے نکلا ہوا یہ فقرہ قرآن میں منقول ہے کہ” اے میرے رب ، تو نے مجھے بادشاہی عطا کی“ ( رَبَّ قداٰتَیتنی مِنَ الملک ) ۔ پیالے کی چوری کے موقع پر سرکاری ملازم حضرت یوسف علیہ السلام کے پیالے کو بادشاہ کا پیالہ کہتے ہیں ۔ اور اللہ تعالی مصر پر ان کے اقتدار کی کیفیت یہ بیان فرماتا ہے کہ ساری سرزمین مصر ان کی تھی ( یتبوأ مِنھا حیث یشآء ) ۔ رہی بائیبل تو وہ شہادت دیتی ہے کہ فرعون نے یوسف علیہ السلام سے کہا: ” سو تو میرے گھر کا مختار ہوگا اور میری ساری رعایا تیرے حکم پر چلے گی فقط تخت کا مالک ہونے کے سبب سے میں بزرگ تر ہوں گا ……… اور تیرے حکم کے بغیر کوئی آدمی اس سارے ملک مصر میں اپنا ہاتھ یا پاؤں نہ ہلانے پائے گا ۔ اور فرعون نے یوسف علیہ السلام کا نام ضَفِنَات فَعِیحَ ( دنیا کا نجات دہندہ ) رکھا “ ۔ ( پیدائش ٤١:۳۹ - ٤۵ ) اور تلمود کہتی ہے کہ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے مصر سے واپس جاکر اپنے والد سے حاکم مصر ( یوسف علیہ السلام ) کی تعریف کرتے ہوئے بیان کیا: ” اپنے ملک کے باشندوں پر اس کا اقتدا سب سے بالا ہے ۔ اس کے حکم پر وہ نکلتے اور اسی کے حکم پر وہ داخل ہوتے ہیں ۔ اس کی زبان سارے ملک پر فرمانروائی کرتی ہے ۔ کسی معاملہ میں فرعون کے اذن کی ضرورت نہیں ہوتی“ ۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے یہ اختیارات کس غرض کے لیے مانگے تھے؟ انہوں نے اپنی خدمات اس لیے پیش کی تھیں کہ ایک کافر حکومت کے نظام کو اس کے کافرانہ اصول و قوانین ہی پر چلائیں؟ یا ان کے پیش نظر یہ تھا کہ حکومت کا اقتدار اپنے ہاتھ میں لے کر ملک کے نظام تمدن و اخلاق و سیاست کو اسلام کے مطابق ڈھال دیں؟ اس سوال کا بہترین جواب وہ ہے جو علامہ زمخشری نے اپنی تفسیر ” کشاف “ میں دیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں: ” حضرت یوسف علیہ السلام نے اجعلنی علیٰ خزائن الارض جو فرمایا تو اس سے ان کی غرض صرف یہ تھی کہ ان کو اللہ تعالی کے احکام جاری کرنے اور حق قائم کرنے اور عدل پھیلانے کا موقع مل جائے اور وہ اس کام کو انجام دینے کی طاقت حاصل کرلیں جس کے لیے انبیاء علیہم السلام بھیجے جاتے ہیں ۔ انہوں نے بادشاہی کی محبت اور دنیا کے لالچ میں یہ مطالبہ نہیں کیا تھا بلکہ یہ جانتے ہوئے کیا تھا کہ کوئی دوسرا شخص ان کے سوا ایسا نہیں ہے جو اس کام کو انجام دے سکے“ ۔ اور سچ یہ ہے کہ یہ سوال دراصل ایک اور سوال پیدا کرتا ہے جو اس سے بھی زیادہ اہم اور بنیادی سوال ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام آیا پیغمبر بھی تھے یا نہیں؟ اگر پیغمبر تھے تو کیا قرآن میں ہم کو پیغمبری کا یہی تصور ملتا ہے کہ اسلام کا داعی خود نظام کفر کو کافرانہ اصولوں پر چلانے کے لیے اپنی خدمات پیش کرے؟ بلکہ یہ سوال اس پر بھی ختم نہیں ہوتا ، اس سے بھی زیادہ نازک اور سخت ایک دوسرے سوال پر جاکر ٹھیرتا ہے ، یعنی یہ کہ حضرت یوسف علیہ السلام ایک راستباز آدمی بھی تھے یا نہیں؟ اگر راستباز تھے تو کیا ایک راستباز انسان کا یہی کام ہے کہ قید خانے میں تو وہ اپنی پیغمبرانہ دعوت کا آغاز اس سوال سے کرے کہ ” بہت سے رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے“ ، اور بار بار اہل مصر پر بھی واضح کر دے کہ تمہارے ان بہت سے متفرق خود ساختہ خداؤں میں سے ایک یہ شاہ مصر بھی ہے ، اور صاف صاف اپنے مشن کا بنیادی عقیدہ یہ بیان کرے کہ ” فرمانروائی کا اقتدار خدائے واحد کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے“ ، مگر جب عملی آزمائش کا وقت آئے تو وہی شخص خود اس نظام حکومت کا خادم ، بلکہ ناظم اور محافظ اور پشت پناہ تک بن جائے جو شاہ مصر کی ربوبیت میں چل رہا تھا اور جس کا بنیادی نظریہ ” فرمانروائی کے اختیارات خدا کے لیے نہیں بلکہ بادشاہ کے لیے ہیں “ تھا ؟ حقیقت یہ ہے کہ اس مقام کی تفسیر میں دورالخطاط کے مسلمانوں نے کچھ اسی ذہنیت کا اظہار کیا ہے جو کچھ یہودیوں کی خصوصیت تھی ۔ یہ یہودیوں کا حال تھا کہ جب وہ ذہنی و اخلاقی پستی میں مبتلا ہوئے تو پچھلی تاریخ میں جن جن بزرگوں کی سیرتیں ان کو بلندی پر چڑھنے کا سبق دیتی تھیں ان سب کو وہ نیچے گرا کر اپنے مرتبے پر اتار لائے تاکہ اپنے لیے اور زیادہ نیچے گرنے کا بہانہ پیدا کریں ۔ افسوس کہ یہی کچھ مسلمانوں نے بھی کیا ۔ انہیں کافر حکومتوں کی چاکری کرنی تھی ، مگر اس پستی میں گرتے ہوئے اسلام اور اس کے علمبرداروں کی بلندی دیکھ کر انہیں شرم آئی ، لہٰذا اس شرم کو مٹنے اور اپنے ضمیر کو راضی کرنے کے لیے یہ اپنے ساتھ اس جلیل القدر پیغمبر کو بھی خدمت کفر کی گہرائی میں لے گرے جس کی زندگی دراصل انہیں یہ سبق دے رہی تھی کہ اگر کسی ملک میں ایک اور صرف ایک مرد مومن بھی خالص اسلامی اخلاق اور ایمانی فراست و حکمت کا حامل ہو تو وہ تن تنہا مجرد اپنے اخلاق اور اپنی حکمت کے زور سے اسلامی انقلاب برپا کر سکتا ہے ، اور یہ کہ مومن کی اخلاقی طاقت ( بشرطیکہ وہ اس کا استعمال جانتا ہو اور اسے استعمال کرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہے ) فوج اور اسلحہ اور سروسامان کے بغیر بھی ملک فتح کر سکتی ہے اور سلطنتوں کو مسخر کر لیتی ہے ۔
زمین مصر میں یوں حضرت یوسف علیہ السلام کی ترقی ہوئی ۔ اب ان کے اختیار میں تھا کہ جس طرح چاہیں تصرف کریں ۔ جہاں چاہیں مکانات تعمیر کریں ۔ یا اس تنہائی اور قید کو دیکھئے یا اب اس اختیار اور آزادی کو دیکھئے ۔ سچ ہے رب جسے چاہے اپنی رحمت کا جتنا حصہ چاہے دے ۔ صابروں کا پھل لا کر ہی رہتا ہے ۔ بھائیوں کا دکھ سہا ، اللہ کی نافرمانی سے بچنے کے لئے عزیز مصر کی عورت سے بگاڑ لی اور قید خانے کی مصیبتیں برداشت کیں ۔ پس رحمت الہی کا ہاتھ بڑھا اور صبر کا اجر ملا ۔ نیک کاروں کی نیکیاں کبھی ضائع نہیں جاتیں ۔ پھر ایسے باایمان تقوی والے آخرت میں بڑے درجے اور اعلی ثواب پاتے ہیں ۔ یہاں یہ ملا ، وہاں کے ملنے کی تو کچھ نہ پوچھئے ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے بارے میں بھی قرآن میں آیا ہے کہ یہ دنیا کی دولت وسلطنت ہم نے تجھے اپنے احسان سے دی ہے اور قیامت کے دن بھی تیرے لئے ہمارے ہاں اچھی مہمانی ہے ۔ الغرض شاہ مصر ریان بن ولید نے سلطنت مصر کی وزارت آپ کو دی ، پہلے اسی عہدے پر اس عورت کا خاوند تھا ۔ جس نے آپ کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا تھا ، اسی نے آپ کو خرید لیا تھا ۔ آخر شاہ مصر آپ کے ہاتھ پر ایمان لایا ۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ آپ کے خریدنے والے کا نام اطغر تھا ۔ یہ انہی دنوں میں انتقال کر گیا ۔ اس کے بعد باشاہ نے اس کی زوجہ راعیل سے حضرت یوسف علیہ السلام کا نکاح کر دیا ۔ جب آپ ان سے ملے تو فرمایا کہو کیا یہ تمہارے اس ارادے سے بہتر نہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ اے صدیق مجھے ملامت نہ کیجیئے آپ کو معلوم ہے کہ میں حسن وخوبصورتی والی دھن دولت والی عورت تھی میرے خاوند مردمی سے محروم تھے وہ مجھ سے مل ہی نہیں سکتے تھے ۔ ادھر آپ کو قدرت نے جس فیاضی سے دولت حسن کے ساتھ مالا مال کیا ہے وہ بھی ظاہر ہے ۔ پس مجھے اب ملامت نہ کیجئے ۔ کہتے ہیں کہ واقعی حضرت یوسف علیہ السلام نے انہیں کنواری پایا ۔ پھر ان کے بطن سے آپ کو دو لڑکے ہوئے افراثیم اور میضا ۔ افراثیم کے ہاں نون پیدا ہوئے جو حضرت یوشع کے والد ہیں اور رحمت نامی صاحبزادی ہوئی جو حضرت ایوب علیہ السلام کی بیوی ہیں ۔ حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عزیز کی بیوی راستے میں کھڑی تھیں جو حضرت یوسف علیہ السلام کی بیوی ہیں ۔ حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عزیز کی بیوی راستے میں کھڑی تھیں جب حضرت یوسف علیہ السلام کی سواری نکلی تو بےساختہ ان کے منہ سے نکل گیا کہ الحمد اللہ اللہ کی شان کے قربان جس نے اپنی فرمانبرداری کی وجہ سے غلاموں کو بادشاہی پر پہنچایا اور اپنی نافرمانی کی وجہ سے بادشاہوں کو غلامی پر لا اتارا ۔