Surah

Information

Surah # 12 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 53 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 1, 2, 3, 7, from Madina
وَجَآءَ اِخۡوَةُ يُوۡسُفَ فَدَخَلُوۡا عَلَيۡهِ فَعَرَفَهُمۡ وَهُمۡ لَهٗ مُنۡكِرُوۡنَ‏ ﴿58﴾
یوسف کے بھائی آئے اور یوسف کے پاس گئے تو اس نے انہیں پہچان لیا اور انہوں نے اسے نہ پہچانا ۔
و جاء اخوة يوسف فدخلوا عليه فعرفهم و هم له منكرون
And the brothers of Joseph came [seeking food], and they entered upon him; and he recognized them, but he was to them unknown.
Yousuf kay bhai aaye aur yousuf kay pass gaye to uss ney unhen pehchan liya aur unhon ney ussay na pehchana.
اور ( جب قحط پڑا تو ) یوسف کے بھائی آئے ، اور ان کے پاس پہنچے ۔ ( ٣٧ ) تو یوسف نے انہیں پہچان لیا ، اور وہ یوسف کو نہیں پہچانے ۔ ( ٣٨ )
اور یوسف کے بھائی آئے تو اس کے پاس حاضر ہوئے تو یوسف نے انھیں ( ف۱٤٤ ) پہچان لیا اور وہ اس سے انجان رہے ( ف۱٤۵ )
یوسف ( علیہ السلام ) کے بھائی مصر آئے اور اس کے ہاں حاضر ہوئے ۔ 50 اس نے انہیں پہچان لیا مگر وہ اس سے ناآشنا تھے ۔ 51
اور ( قحط کے زمانہ میں ) یوسف ( علیہ السلام ) کے بھائی ( غلہ لینے کے لئے مصر ) آئے تو ان کے پاس حاضر ہوئے پس یوسف ( علیہ السلام ) نے انہیں پہچان لیا اور وہ انہیں نہ پہچان سکے
سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :50 یہاں پھر سات آٹھ برس کے واقعات درمیان میں چھوڑ کر سلسلہ بیان اس جگہ سے جوڑ دیا گیا ہے ۔ جہاں سے بنی اسرائیل کے مصر منتقل ہونے اور حضرت یعقوب علیہ السلام کو اپنے گم شدہ صاحبزادے کا پتہ ملنے کی ابتداء ہوتی ہے ۔ بیچ میں جو واقعات چھوڑ دیے گئے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ خواب والی پیش خبری کے مطابق حضرت یوسف علیہ السلام کی حکومت کے پہلے سات سال مصر میں انتہائی خوشحالی کے گزرے اور ان ایام میں انہوں نے آنے والے قحط کے لیے وہ تمام پیش بندیاں کرلیں جن کا مشورہ بادشاہ کے خواب کی تعبیر بتاتے وقت وہ دے چکے تھے ۔ اس کے بعد قحط کا دور شروع ہوا اور یہ قحط صرف مصر ہی میں نہ تھا بلکہ آس پاس کے ممالک بھی اس کی لپیٹ میں آگئے تھے ۔ شام ، فلسطین ، شرق اردن ، شمالی عرب ، سب جگہ خشک سالی کا دور دورہ تھا ۔ ان حالات میں حضرت یوسف علیہ السلام کے دانشمندانہ انتظام کی بدولت صرف مصر ہی وہ ملک تھا جہاں قحط کے باوجود غلہ کی فراط تھی ۔ اس لیے ہمسایہ ممالک کے لوگ مجبور ہوئے کہ غلہ حاصل کرنے کے لیے مصر کی طرف رجوع کریں ۔ یہی وہ موقع تھا جب فلسطین سے حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی غلہ خریدنے کے لیے مصر پہنچے ۔ غالبا حضرت یوسف علیہ السلام نے غلہ کی اس طرح ضابطہ بندی کی ہوگی کہ بیرونی ممالک میں خاص اجازت ناموں کے بغیر اور خاص مقدار سے زیادہ غلہ نہ جا سکتا ہوگا ۔ اس وجہ سے جب برادران یوسف علیہ السلام نے غیر ملک سے آکر غلہ حاصل کرنا چاہا ہوگا تو انہیں اس کے لیے خاص اجازت نامہ حاصل کرنے کی ضرورت پیش آئی ہوگی اور اس طرح حضرت یوسف علیہ السلام کے سامنے ان کی پیشی کی نوبت آئی ہوگی ۔ سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :51 برادران یوسف علیہ السلام کا آپ کو نہ پہچاننا کچھ بعید از قیاس نہیں ہے ۔ جس وقت انہوں نے آپ کو کنویں میں پھینکا تھا اس وقت آپ صرف سترہ سال کے لڑکے تھے ۔ اور اب آپ کی عمر ۳۸ سال کے لگ بھگ تھی ۔ اتنی طویل مدت آدمی کو بہت کچھ بدل دیتی ہے ۔ پھر یہ تو ان کے وہم گمان میں بھی نہ تھا کہ جس بھائی کو وہ کنویں میں پھینک گئے تھے وہ آج مصر کا مختار مطلق ہوگا ۔
کہتے ہیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے وزیر مصر بن کر سات سال تک غلے اور اناج کو بہترین طور پر جمع کیا ۔ اس کے بعد جب عام قحط سالی شروع ہوئی اور لوگ ایک ایک دانے کو ترسنے لگے تو آپ نے محتاجوں کو دینا شروع کیا ، یہ قحط علاقہ مصر سے نکل کر کنعان وغیرہ شہروں میں بھی پھیل گیا تھا ۔ آپ ہر بیرونی شخص کو اونٹ بھر کر غلہ عطا فرمایا کرتے تھے ۔ اور خود آپ کا لشکر بلکہ خود بادشاہ بھی دن بھر میں صرف ایک ہی مرتبہ دوپہر کے وقت ایک آدھ نوالہ کھا لیتے تھے اور اہل مصر کو پیٹ بھر کر کھلاتے تھے پس اس زمانے میں یہ بات ایک رحمت رب تھی ۔ یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے پہلے سال مال کے بدلے غلہ بیچا ۔ دوسرے سال سامان اسباب کے بدلے ، تیسرے سال بھی اور چوتھے سال بھی ۔ پھر خود لوگوں کی جان اور ان کی اولاد کے بدلے ۔ پس خود لوگ ان کے بچے اور ان کی کل ملیکت اور مال کے آپ مالک بن گئے ۔ لیکن اس کے بعد آپ نے سب کو آزاد کر دیا اور ان کے مال بھی ان کے حوالے کر دئے ۔ یہ روایت بنو اسرائیل کی ہے جسے ہم سچ جھوٹ نہیں کہہ سکتے ۔ یہاں یہ بیان ہو رہا ہے کہ ان آنے والوں میں برادران یوسف بھی تھے ۔ جو باپ کے حکم سے آئے تھے ۔ انہیں معلوم ہوا تھا کہ عزیز مصر مال متاع کے بدلے غلہ دیتے ہیں تو آپ نے اپنے دس بیٹوں کو یہاں بھیجا اور حضرت یوسف علیہ السلام کے سگے بھائی بنیامین کو جو آپ کے بعد حضرت یعقوب علیہ السلام کے نزدیک بہت ہی پیارے تھے اپنے پاس روک لیا ۔ جب یہ قافلہ اللہ کے نبی علیہ السلام کے پاس پہنچا تو آپ نے تو بہ یک نگاہ سب کو پہچان لیا لیکن انمیں سے ایک بھی آپ کو نہ پہچان سکا ۔ اس لئے کہ آپ ان سے بچپن میں ہی جدا ہو گئے تھے ۔ بھائیوں نے آپ کو سوداگروں کے ہاتھ بیچ ڈالا تھا انہیں کیا خبر تھی کہ پھر کیا ہوا ۔ اور یہ تو ذہن میں بھی نہ آ سکتا تھا کہ وہ بچہ جسے بحیثیت غلام بیچا تھا ۔ آج وہی عزیز مصر بن کر بیٹھا ہے ۔ ادھر حضرت یوسف علیہ السلام نے طرز گفتگو بھی ایسا اختیار کیا کہ انہیں وہم بھی نہ ہو ۔ ان سے پوچھا کہ تم لوگ میرے ملک میں کیسے آ گئے ؟ انہوں نے کہا یہ سن کر کہ آپ غلہ عطا فرماتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا مجھے تو شک ہوتا ہے کہ کہیں تم جاسوس نہ ہو ؟ انہوں نے کہا معاذ اللہ ہم جاسوس نہیں ۔ فرمایا تم رہنے والے کہاں کے ہو ؟ کہا کنعان کے اور ہمارے والد صاحب کا نام یعقوب نبی اللہ ہے ۔ آپ نے پوچھا تمہارے سوا ان کے اور لڑکے بھی ہیں ؟ انہوں نے کہا ہاں ہم بارہ بہائی تھے ۔ ہم میں جو سب سے چھوٹا تھا اور ہمارے باپ کی آنکھوں کا تارا تھا وہ تو ہلاک ہو گیا ۔ اسی کا ایک بھائی اور ہے ۔ اسے باپ نے ہمارے ساتھ نہیں بھیجا بلکہ اپنے پاس ہی روک لیا ہے کہ اس سے ذرا آپ کو اطمینان اور تسلی رہے ۔ ان باتوں کے بعد آپ نے حکم دیا کہ انہیں سرکاری مہمان سمجھا جائے اور ہر طرح حاظر مدارات کی جائے اور اچھی جگہ ٹھیرایا جائے ۔ اب جب انہیں غلہ دیا جانے لگا اور ان تھلیے بھر دئے گئے اور جتنے جانور ان کے ساتھ تھے وہ جتنا غلہ اٹھا سکتے تھے بھر دیا تو فرمایا دیکھو اپنی صداقت کے اظہار کے لئے اپنے اس بھائی کو جسے تم اس مرتبہ اپنے ساتھ نہ لائے اب اگر آؤ تو لیتے آنا دیکھو میں نے تم سے اچھا سلوک کیا ہے اور تمہاری بڑی خاطر تواضع کی ہے اس طرح رغبت دلا کر پھر دھمکا بھی دیا کہ اگر دوبارہ کے آنے میں اسے ساتھ نہ لائے تو میں تمہیں ایک دانہ اناج کا نہ دوں گا بلکہ تمہیں اپنے نزدیک بھی نہ آنے دوں گا ۔ انہوں نے وعدے کئے کہ ہم انہیں کہہ سن کر لالچ دکھا کر ہر طرح پوری کوشش کریں گے کہ اپنے اس بھائی کو بھی لائیں تاکہ بادشاہ کے سامنے ہم جھوٹے نہ پڑیں ۔ سدی رحمۃ اللہ علیہ تو کہتے ہیں کہ آپ نے تو ان سے رہن رکھ لیا کہ جب لاؤ گے تو یہ پاؤ گے ۔ لیکن یہ بات کچھ جی کو لگتی نہیں اس لئے کہ آپ نے تو انہیں واپسی کی بڑی رغبت دلائی اور بہت کچھ تمنا ظاہر کی ۔ جب بھائی کوچ کی تیاریاں کرنے لگے تو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے چالاک چاکروں سے اشارہ کیا کہ جو اسباب یہ لائے تھے اور جس کے عوض انہوں نے ہم سے غلہ لیا ہے وہ انہیں واپس کر دو لیکن اس خوبصورتی سے کہ انہیں معلوم تک نہ ہو ۔ ان کے کجاوں اور بوروں میں ان کی تمام چیزیں رکھ دو ۔ ممکن ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ آپ کو خیال ہوا ہو کہ اب گھر میں کیا ہوگا جسے لے کر یہ غلہ لینے کے لئے آئیں ۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ نے اپنے باپ اور بھائی سے اناج کا کچھ معاوضہ لینا مناسب نہ سمجھا ہو اور یہ بھی قرین قیاس ہے کہ آپ نے یہ خیال فرمایا ہو کہ جب یہ اپنا اسباب کھولیں گے اور یہ چیزیں اس میں پائیں گے تو ضروری ہے کہ ہماری یہ چیزیں ہمیں واپس دینے کو آئیں تو اس بہانے ہی بھائی سے ملاقات ہو جائے گی ۔