سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :52
اختصار بیان کی وجہ سے شاید کسی کو یہ سمجھنے میں دقت ہو کہ حضرت یوسف علیہ السلام جب اپنی شخصیت کو ان پر ظاہر نہ کرنا چاہتے تھے تو پھر ان کے سوتیلے بھائی کا ذکر کیسے آگیا اور اس کے لانے پر اس قدر اصرار کرنے کے کیا معنی تھے ، کیونکہ اس طرح تو راز فاش ہوا جاتا تھا ۔ لیکن تھوڑا سا غور کرنے سے بات صاف سمجھ میں آجاتی ہے ۔ وہاں غلے کی ضابطہ بندی تھی اور ہر شخص ایک مقرر مقدار غلہ ہی لے سکتا تھا ۔ غلہ لینے کے لیے یہ دس بھائی تھے ۔ مگر وہ اپنے والد اور اپنے گیارھویں بھائی کا حصہ بھی مانگتے ہوں گے ۔ اوپر حضرت یوسف علیہ السلام نے کہا ہوگا کہ تمہارے والد کے خود نہ آنے کے لیے تو یہ عذر معقول ہوسکتا ہے کہ وہ بہت بوڑھے اور نابینا ہیں ، مگر بھائی کے نہ آنے کا کیا معقول سبب ہو سکتا ہے؟ کہیں تم ایک فرضی نام سے زائد غلہ حاصل کرنے اور پھر ناجائز تجارت کرنے کی کوشش تو نہیں کر رہے ہو؟ انہوں نے جواب میں اپنے گھر کے کچھ حالات بیان کیے ہوں گے اور بتایا ہوگا کہ وہ ہمارا سوتیلا بھائی ہے اور بعض وجوہ سے ہمارے والد اس کو ہمارے ساتھ بھیجنے میں تأمل کرتے ہیں ۔ تب حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا ہوگا کہ خیر ، اس وقت تو ہم تمہاری زبان کا اعتبار کر کے تم کو پورا غلہ دیے دیتے ہیں ، مگر آئندہ اگر تم اس کو ساتھ نہ لائے تو تمہارا اعتبار جاتا رہے گا اور تمہیں یہاں سے کوئی غلہ نہ مل سکے گا ۔ اس حاکمانہ دھمکی کے ساتھ آپ نے ان کو اپنےاحسان اپنی مہمان نوازی سے بھی رام کرنے کی کوشش کی ، کیونکہ دل اپنے چھوٹے بھائی کو دیکھنے اور گھر کے حالات معلوم کرنے کے لیے بے تاب تھا ۔ یہ معاملہ کہ ایک سادہ سی صورت ہے جو ذرا غور کرنے سے خود بخود سمجھ میں آجاتی ہے ۔ اس صورت میں بائیبل کی اس مبالغہ آمیز داستان پر اعتماد کرنے کی کوئی ضرورت نہیں رہتی جو کتاب پیدائش کے باب ٤۲ ۔ ٤۳ میں بڑی رنگ آمیزی کے ساتھ پیش کی گئی ہے ۔