Surah

Information

Surah # 12 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 53 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 1, 2, 3, 7, from Madina
فَلَمَّا جَهَّزَهُمۡ بِجَهَازِهِمۡ جَعَلَ السِّقَايَةَ فِىۡ رَحۡلِ اَخِيۡهِ ثُمَّ اَذَّنَ مُؤَذِّنٌ اَ يَّـتُهَا الۡعِيۡرُ اِنَّكُمۡ لَسَارِقُوۡنَ‏ ﴿70﴾
پھر جب انہیں ان کا سامان اسباب ٹھیک ٹھاک کر کے دیا تو اپنے بھائی کے اسباب میں پانی پینے کا پیالہ رکھ دیا پھر ایک آواز دینے والے نے پکار کر کہا کہ اے قافلے والو! تم لوگ تو چور ہو ۔
فلما جهزهم بجهازهم جعل السقاية في رحل اخيه ثم اذن مؤذن ايتها العير انكم لسرقون
So when he had furnished them with their supplies, he put the [gold measuring] bowl into the bag of his brother. Then an announcer called out, "O caravan, indeed you are thieves."
Phir jab unhen unn ka saman asbaab theek thaak ker kay diya to apney bhai kay asbaab mein pani ka piyala rakh diya. Phir aik aawaz denay walay ney pukar ker kaha aey qafilay walo! Tum log to chor ho.
پھر جب یوسف نے ان کا سامان تیار کردیا تو پانی پینے کا پیالہ اپنے ( سگے ) بھائی کے کجاوے میں رکھوا دیا ، پھر ایک منادی نے پکار کر کہا کہ : اے قافلے والو ! تم چور ہو ، ( ٤٦ ) ۔
پھر جب ان کا سامان مہیا کردیا ( ف۱٦۷ ) پیالہ اپنے بھائی کے کجاوے میں رکھ دیا ( ف۱٦۸ ) پھر ایک منادی نے ندا کی اے قافلہ والو! بیشک تم چور ہو ،
جب یوسف ( علیہ السلام ) ان بھائیوں کا سامان لدوانے لگا تو اس نے اپنے بھائی کے سامان میں اپنا پیالہ رکھ دیا ۔ 56 پھر ایک پکارنے والے نے پکار کر کہا اے قافلے والو ، تم لوگ چور ہو ۔ 57
پھر جب ( یوسف علیہ السلام نے ) ان کا سامان انہیں مہیا کر دیا تو ( شاہی ) پیالہ اپنے بھائی ( بنیامین ) کی بوری میں رکھ دیا بعد ازاں پکارنے والے نے آواز دی: اے قافلہ والو! ( ٹھہرو ) یقیناً تم لوگ ہی چور ( معلوم ہوتے ) ہو
۵٦ ۔ پیالہ رکھنے کا فعل غالبا حضرت یوسف نے اپنے بھائی کی رضا مندی سے اور اس کے علم میں کیا تھا جیسا کہ اس سے پہلے والی آیت اشارہ کر رہی ہے ۔ حضرت یوسف اپنے مدتوں کے بچھڑے ہوئے بھائی کو ان ظالم سوتیلے بھائیوں کے پنجے سے چھڑانا چاہتے ہوں گے ، بھائی خود بھی ان ظالموں کے ساتھ واپس نہ جانا چاہتا ہوگا ، مگر علانیہ آپ کا اسے روکنبا اور اس کا رک جانا بغیر اس کے ممکن نہ تھا کہ حضرت یوسف اپنی شخصیت کو ظاہر کرتے ، اور اس کا اظہار اس موقع پر مصلحت کے خلاف تھا ، اس لیے دونوں بھائیوں میں مشہور ہوا ہوگا کہ اسے روکنے کی یہ تدبیر کی جائے ، اگرچہ تھوڑی دیر کے لیے اس میں بھائی کی سبکی تھی ، اس پر چوری کا دھبہ لگتا تھا ، لیکن بعد میں یہ دھبہ اس طرح بآسانی دھل سکتا تھا کہ دونوں بھائی اصل معاملہ کو دنیا پر ظاہر کردیں ۔ ۵۷ ۔ اس آیت میں اور بعد والی آیات میں بھی کہیں ایسا کوئی اشارہ موجود نہیں ہے جس سے یہ گمان کیا جاسکے کہ حضڑت یوسف نے اپنے ملازموں کو اس راز میں شریک کیا تھا اور انہیں خود یہ سکھایا تھا کہ قافلے والوں پر جھوٹا الزام لگاؤ ، واقعہ کی سادہ صورت جو سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ پیالہ خاموشی کے ساتھ رکھ دیا گیا ہوگا ، بعد میں جب سرکاری ملازموں نے اسے نہ پایا ہوگا تو قیاس کیا ہوگا کہ ہو نہ ہو یہ کام انہی قافلہ والوں میں سے کسی کا ہے جو یہاں ٹھہرے ہوئے تھے ۔
جب آپ اپنے بھائیوں کو حسب عادت ایک ایک اونٹ غلے کا دینے لگے اور ان کا اسباب لدنے لگا تو اپنے چالاک ملازموں سے چپکے سے اشارہ کر دیا کہ چاندی کا شاہی کٹورا بنیامین کے اسباب میں چپکے سے رکھ دیں ۔ بعض نے کہا ہے یہ کٹورا سونے کا تھا ۔ اسی میں پانی پیا جاتا تھا اور اسی سے غلہ بھر کے دیا جاتا تھا بلکہ ویسا ہی پیالہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس بھی تھا ۔ پس آپ کے ملازمین نے ہوشیاری سے وہ پیالہ آپ کے بھائی حضرت بنیامین کی خورجی میں رکھ دیا ۔ جب یہ چلنے لگے تو سنا کہ پیچھے سے منادی ندا کرتا آ رہا ہے کہ اے قافلے والو تم چور ہو ۔ ان کے کان کھڑے ، رک گئے ، ادھر متوجہ ہوئے اور پوچھا کہ آپ کی کیا چیز کھوئی گئی ہے ؟ جواب ملا کہ شاہی پیمانہ جس سے اناج ناپا جاتا تھا ، سنو شاہی اعلان ہے کہ اس کے ڈھونڈ لانے والے کو ایک بوجھ غلہ ملے گا اور میں خود ضامن ہوں ۔