Surah

Information

Surah # 12 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 53 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 1, 2, 3, 7, from Madina
فَبَدَاَ بِاَوۡعِيَتِهِمۡ قَبۡلَ وِعَآءِ اَخِيۡهِ ثُمَّ اسۡتَخۡرَجَهَا مِنۡ وِّعَآءِ اَخِيۡهِ‌ؕ كَذٰلِكَ كِدۡنَا لِيُوۡسُفَ‌ؕ مَا كَانَ لِيَاۡخُذَ اَخَاهُ فِىۡ دِيۡنِ الۡمَلِكِ اِلَّاۤ اَنۡ يَّشَآءَ اللّٰهُ‌ؕ نَرۡفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنۡ نَّشَآءُ‌ؕ وَفَوۡقَ كُلِّ ذِىۡ عِلۡمٍ عَلِيۡمٌ‏ ﴿76﴾
پس یوسف نے ان کے سامان کی تلاش شروع کی اپنے بھائی کے سامان کی تلاشی سے پہلے پھر اس پیمانہ کو اپنے بھائی کے سامان ( زنبیل ) سے نکالا ہم نے یوسف کے لئے اسی طرح یہ تدبیر کی اس بادشاہ کی قانون کی رو سے یہ اپنے بھائی کو نہ لے جاسکتا تھا مگر یہ کہ اللہ کو منظور ہو ہم جس کے چاہیں درجے بلند کر دیں ہر ذی علم پر فوقیت رکھنے والا دوسرا ذی علم موجود ہے ۔
فبدا باوعيتهم قبل وعاء اخيه ثم استخرجها من وعاء اخيه كذلك كدنا ليوسف ما كان لياخذ اخاه في دين الملك الا ان يشاء الله نرفع درجت من نشاء و فوق كل ذي علم عليم
So he began [the search] with their bags before the bag of his brother; then he extracted it from the bag of his brother. Thus did We plan for Joseph. He could not have taken his brother within the religion of the king except that Allah willed. We raise in degrees whom We will, but over every possessor of knowledge is one [more] knowing.
Pus yousuf ney inn kay saman ki talash kerna shuroo ki apney bhai kay saman ki talashi say pehlay phir uss paymaney ko apnay bhai kay saman ( zanbeel ) say nikala. Hum ney yousuf kay liye issi tarah yeh tadbeer ki. Uss badshah kay qanoon ki roo say yeh apney bhai ko na ley sakta tha magar yeh kay Allah ko manzoor ho. Hum jiss kay chahayen darjay buland ker den her zee ilm per foqiyat rakhney wala doosra zee ilm mojood hai.
چنانچہ یوسف نے اپنے ( سگے ) بھائی کے تھیلے سے پہلے دوسرے بھائیوں کے تھیلوں کی تلاشی شروع کی ، پھر اس پیالے کو اپنے ( سگے ) بھائی کے تھیلے میں سے برآمد کرلیا ۔ ( ٤٩ ) اس طرح ہم نے یوسف کی خاطر یہ تدبیر کی ۔ اللہ کی یہ مشیت نہ ہوتی تو یوسف کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ بادشاہ کے قانون کے مطابق اپنے بھائی کو اپنے پاس رکھ لیتے ، اور ہم جس کو چاہتے ہیں ، اس کے درجے بلند کردیتے ہیں ، اور جتنے علم والے ہیں ، ان سب کے اوپر ایک بڑا علم رکھنے والا موجود ہے ۔ ( ٥٠ )
تو اول ان کی خرُجیوں سے تلاشی شروع کی اپنے بھائی ( ف۱۷۲ ) کی خرُجی سے پہلے پھر اسے اپنے بھائی کی خرُجی سے نکال لیا ( ف۱۷۳ ) ہم نے یوسف کو یہی تدبیر بتائی ( ف۱۷٤ ) بادشاہی قانون میں اسے نہیں پہنچتا تھا کہ اپنے بھائی کو لے لے ( ف۱۷۵ ) مگر یہ کہ خدا چاہے ( ف۱۷٦ ) ہم جسے چاہیں درجوں بلند کریں ( ف۱۷۷ ) اور ہر علم والے اوپر ایک علم والا ہے ( ف۱۷۸ )
تب یوسف ( علیہ السلام ) نے اپنے بھائی سے پہلے ان کی خرجیوں کی تلاشی لینی شروع کی ، پھر اپنے بھائی کی خرجی سے گم شدہ چیز بر آمد کر لی ۔ ۔ ۔ ۔ اس طرح ہم نے یوسف ( علیہ السلام ) کی تائید اپنی تدبیر سے کی ۔ 59 اس کا یہ کام نہ تھا کہ بادشاہ کے دین﴿یعنی مصر کے شاہی قانون﴾ میں اپنے بھائی کو پکڑتا اِلّا یہ کہ اللہ ہی ایسا چاہے ۔ 60 ہم جس کے درجے چاہتے ہیں بلند کر دیتے ہیں ، اور ایک علم رکھنے والا ایسا ہے جو ہر صاحب علم سے بالاتر ہے ۔
پس یوسف ( علیہ السلام ) نے اپنے بھائی کی بوری سے پہلے ان کی بوریوں کی تلاشی شروع کی پھر ( بالآخر ) اس ( پیالے ) کو اپنے ( سگے ) بھائی ( بنیامین ) کی بوری سے نکال لیا ۔ یوں ہم نے یوسف ( علیہ السلام ) کو تدبیر بتائی ۔ وہ اپنے بھائی کو بادشاہِ ( مصر ) کے قانون کی رو سے ( اسیر بنا کر ) نہیں رکھ سکتے تھے مگر یہ کہ ( جیسے ) اﷲ چاہے ۔ ہم جس کے چاہتے ہیں درجات بلند کر دیتے ہیں ، اور ہر صاحبِ علم سے اوپر ( بھی ) ایک علم والا ہوتا ہے
۵۹ ۔ یہاں یہ امر غور طلب ہے کہ اس پورے سلسلہ واقعات میں وہ کون سی تدبیر ہے جو حضرت یوسف کی تائید میں براہ راست خدا کی طرف سے کی گئی؟ ظاہر ہے کہ پیالہ رکھنے کی تدبیر جو حضرت یوسف نے خود کی تھی ، یہ بھی ظاہر ہے کہ سرکاری ملازموں کا چوری کے شبہ میں قافلے والوں کو روکنا بھی حسب معمول وہ کام تھا جو ایسے مواقع پر سب سرکاری ملازم کیا کرتے ہیں ، پھر وہ خاص خدائی تدبیر کون سی ہے؟ اوپر کی آیات میں تلاش کرنے سے اس کے سوا کسی دوسری چیز کو اس کا مصداق نہیں ٹھہرایا جاسکتا کہ سرکاری ملازموں نے خلاف معمول خود مشتبہ ملزموں سے چور کی سزا پوچھی اور انہوں نے وہ سزا بتائی جو شریعت ابراہیمی کی رو سے چور کو دی جاتی تھی ، اس کے دو فائدے ہوئے ۔ ایک یہ کہ حضرت یوسف کو شریعت ابراہیمی پر عمل کا موقع مل گیا ، دوسرا یہ کہ بھائی کو حوالات میں بھیجنے کے بجائے اب وہ اسے اپنے پاس رکھ سکتے تھے ۔ ٦۰ ۔ یعنی یہ بات حضرت یوسف کی شان پیغمبری کے شایاں نہ تھی کہ وہ اپنے ایک ذاتی معاملہ میں شاہ مصر کے قانون پر عمل کرتے ، اپنے بھائی کو روک رکھنے کے لیے انہوں نے خود جو تدبیر کی تھی اس میں یہ خلل رہ گیا تھا کہ بھائی کو روکا تو ضرور جاسکتا تھا مگر شاہ مصر کے قانون تعزیرات سے کام لینا پڑتا ، اور یہ اس پیغمبر کی شان کے مطابق نہ تھا جس نے اختیارات حکومت غیر اسلامی قوانین کی جگہ اسلامی شریعت فانذ کرنے کے لیے اپنے ہاتھ میں لیے تھے ، اگر اللہ چاہتا تو اپنے نبی کو اس بد نما غلطی میں مبتلا ہوجانے دیتا ، مگر اس نے یہ گوارا نہ کیا کہ یہ دھبہ اس کے دامن پر رہ جائے ، اس لیے اس نے براہ راست اپنی تدبیر سے یہ راہ نکال دی کہ اتفاقا برادران یوسف سے چور کی سزا پوچھ لی گئی اور انہوں نے اس کے لیے شریعت ابراہیمی کا قانون بیان کردیا ، یہ چیز اس لحاظ سے بالکل بر محل تھی کہ برادران یوسف مصری رعایا نہ تھے ، ایک آزاد علاقے سے آئے ہوئے لوگ تھے ، لہذا اگر وہ خود اپنے ہاں کے دستور کے مطابق اپنے آدمی کو اس شخص کی غلامی میں دینے کے لیے تیار تھے جس کامال اس نے چرایا تھا ، تو پھر مصری قانون تعزیرات سے اس معاملہ میں مدد لینے کی کوئی ضرورت ہی نہ تھی ، یہی وہ چیز ہے جس کو بعد کی دو آیتوں میں اللہ تعالی نے اپنے احسان اور اپنی علمی برتری سے تعبیر فرامیا ہے ، ایک بندے کے لیے اس سے بڑھ کر بلندی درجہ اور کیا ہوسکتی ہے ، اگر وہ کبھی بشری کمزوری کی بنا پر خود کسی لغزش میں مبتلا ہورہا ہو تو اللہ تعالی غیب سے اس کو بچانے کا انتظام فرما دے ۔ ایسا بلند مرتبہ صرف انہی لوگوں کو ملا کرتا ہے جو اپنی سعی و عمل سے بڑی بڑی آزمائشوں میں اپنا محسن ہونا ثابت کرچکے ہوتے ہیں ، اور اگرچہ حضرت یوسف صاحب علم تھے خود بہت دانشمندی کے ساتھ کام کرتے تھے ، مگر پھر بھی اس موقع پر ان کے علم میں ایک کسر رہ ہی گئی اور اسے اس ہستی نے پورا کیا جو ہر صاحب علم سے بالا تر ہے ۔ یہاں چند امور اور وضاحت طلب رہ جاتے ہیں جن پر ہم مختصر کلام کریں گے: ( ۱ ) عام طور پر اس آیت کا ترجمہ یہ کیا جاتا ہے کہ یوسف بادشاہ کے قانون کی رو سے اپنے بھائی کو نہ پکڑ سکتا تھا ۔ یعنی مَا كَانَ لِيَاْخُذَ کو مترجمین و مفسرین عدم قدرت کے معنی میں لیتے ہیں نہ کہ عدم صحت اور عدم مناسبت کے معنی میں ، لیکن اول تو یہ ترجمہ و تفسیر عربی محاورے اور قرآنی استعمالات دونوں کے لحاظ سے ٹھیک نہیں ہے ، کیونکہ عربی میں عموما ما کان لہ بمعنی ما ینبغی لہ ، ما صح لہ ، ما استقام لہ وغیرہ آتا ہے اور قرآن میں بھی یہ زیادہ تر اسی معنی میں آیا ہے ۔ مثلا ( آیت ) ماکان اللہ ان یتخذ من ولد ، ماکان لنا ان نشرک باللہ من شیء ، ما کان اللہ لیطلعکم علی الغیب ، ماکان اللہ لیضیع ایمانکم ، فما کان اللہ لیظلمھم ، ما کان اللہ لیذر المومنین علی ما انتم فیہ ، ما کان لمومن ان یقتل مومنا ۔ دوسرے اگر اس کے وہ معنی لیے جائیں جو مترجمین و مفسرین بالعموم بیان کرتے ہیں تو بات بالکل مہمل ہوجاتی ہے ، بادشاہ کے قانون میں چور کو نہ پکڑ سکنے کی آخر وجہ کیا ہوسکتی ہے؟ کیا دنیا میں کبھی کوئی سلطنت ایسی بھی رہی ہے جس کا قانون چور کو گرفتار کرنے کی اجازت نہ دیتا ہو؟ ( ۲ ) اللہ تعالی نے شاہی قانون کے لیے دین الملک کا لفظ استعمال کر کے خود اس مطلب کی طرف اشارہ فرما دیا ہے جو ما کان لیاخذ سے لیا جانا چاہیے ، ظاہر ہے کہ اللہ کا پیغمبر زمین میں دین اللہ جاری کرنے کے لیے مبعوث ہوا تھا نہ کہ دین الملک جاری کرنے کے لیے ، اگر حالات کی مجبوری سے اس کی حکومت میں اس وقت تک پوری طرح دین الملک کی جگہ دین اللہ جاری نہ ہوسکا تھا تب بھی کم از کم پیغمبر کا اپنا کام تو یہ نہ تھا کہ اپنے ایک شخصی معاملہ میں دین الملک پر عمل کرے ۔ لہذا حضرت یوسف کا دین الملک کے مطابق اپنے بھائی کو نہ پکڑنا اس بنا پر نہیں تھا کہ دین الملک میں ایسا کرنے کی گنجائش نہ تھی بلکہ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ پیغمبر ہونے کی حیثیت سے اپنی ذاتی حد تک دین اللہ پر عمل کرنا ان کا فرض تھا اور دین الملک کی پیروی ان کے لیے قطعا نامناسب تھی ۔ ( ۳ ) قانون ملکی ( Law of the Land ) کے لیے لفظ دین استعمال کر کے اللہ تعالی نے معنی دین کی وسعت پوری طرح واضح کردی ہے ، اس سے ان لوگوں کے تصور دین کی جڑ کٹ جاتی ہے جو انبیاء علیہم السلام کی دعوت کو صرف عام مذہبی معنوں میں خدائے واحد کی پوجا کرانے اور محض چند مذہبی مراسم و عقائد کی پابندی کرا لینے تک محدود سمجھتے ہیں ، اور یہ خیال کرتے ہیں کہ انسانی تمدن ، سیاست ، معیشت ، عدالت ، قانو اور ایسے ہی دوسرے دنیوی امور کا کوئی تعلق دین سے نہیں ہے ، یا اگر ہے بھی تو ان امور کے بارے میں دین کی ہدایات محض اختیاری سفارشات ہیں جن پر اگر عمل ہوجائے تو اچھا ہے ورنہ انسانوں کو اپنے بنائے ہوئے اصول و ضوابط قبول کرلینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ، یہ سراسر گمراہانہ تصور دین ، جس کا ایک مدت سے مسلمانوں میں چرچا ہے جو بہت بڑی حد تک مسلمانوں کو اسلامی نظام زندگی کے قیام کی سعی سے غافل کرنے کا ذمہ دار ہے جس کی بدولت مسلمان کفر و جاہلیت کے نظام زندگی پر نہ صرف راضی ہوئے بلکہ ایک نبی کی سنت سمجھ کر اس نظام کے پرزے بننے اور اس کو خود چلانے کے لیے بھی آمادہ ہوگئے ، اس آیت کی رو سے قطعا غلط ثابت ہوتا ہے ، یہاں اللہ تعالی صاف بتا رہا ہے کہ جس طرح نماز ، روزہ اور حج دین ہے اسی طرح وہ قانون بھی دین ہے جس پر سوسائٹی کا نظام اور ملک کا انتظام چلایا جاتا ہے ۔ لہذا ان الدین عند اللہ الاسلام اور ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ ، وغیرہ آیات میں جس دین کی اطاعت کا مطالبہ کیا گیا ہے اس سے مراد صرف نماز ، روزہ ہی نہیں بلکہ اسلام کا اجتماعی نظام بھی ہے جس سے ہٹ کر کسی دوسرے نظام کی پیروی خدا کے ہاں ہرگز مقبول نہیں ہوسکتی ۔ ( ٤ ) سوال کیا جاسکتا ہے کہ اس سے کم از کم یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ اس وقت تک مصر کی حکومت میں دین الملک ہی جاری تھا ، اب اگر اس حکومت کے حاکم اعلی حضرت یوسف ہی تھے ، جیسا کہ تم خود پہلے ثابت کرچکے ہو ، تو اس سے لازم آتا ہے کہ حضرت یوسف خدا کے پیغمبر ، خود اپنے ہاتھوں سے ملک میں دین الملک جاری کر رہے تھے ، اس کے بعد اگر اپنے ذاتی معاملہ میں حضرت یوسف نے دین الملک کے بجائے شریعت ابراہیمی پر عمل کیا بھی تو اس سے فرق کیا واقع ہوا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت یوسف مور تو دین اللہ جاری کرنے ہی پر تھے اور یہی ان کا پیغمبرانہ مشن اور ان کی حکومت کا مقصد تھا ، مگر ایک ملک کا نظام عملا ایک دن کے اندر نہیں بدل جایا کرتا ، آج اگر کوئی بالکیہ ہمارے اختیار میں ہو اور ہم اس میں اسلامی نظام قائم کرنے کی خالص نیت ہی سے اس کا انتظام اپنے ہاتھ میں لیں ، تب بھی اس کے نظام تمدن ، نظام معاشی ، نظام سیاست اور نظام عدالت و قانون کو بالفعل بدلتے بدلتے برسوں لگ جائیں گے اور کچھ مدت تک ہم کو اپنے انتظام میں بھی سابق قوانین برقرار رکھنے پڑیں گے ، کیا تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی عرب کے نظام زندگی میں پورا اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے نو دس سال لگے تھے ؟ اس دوران میں خاتم النبیین کی اپنی حکومت میں چند سال شراب نوشی ہوتی رہی ، سود لیا اور دیا جاتا رہا ، جاہلیت کا قانون میراث جاری رہا ، پرانے قوانین نکاح و طلاق برقرار رہے ، بیوع فاسدہ کی بہت سی صورتیں عمل میں آتی رہیں ، اور اسلامی قوانین دیوانی فوجداری بھی اول روز ہی بتمام و کمال نافذ نہیں ہوگئے ، پس اگر حضرت یوسف کی حکومت میں ابتدائی آٹھ نو سال تک سابق مصری بادشاہت کے کچھ قوانین چلتے رہے ہوں تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے اور اس سے یہ دلیل کیسے نکل آتی ہے کہ خدا کا پیغمبر مصر میں خدا کے دین کو نہیں بلکہ بادشاہ کے دین کو جاری کرنے پر مامور تھا ۔ رہی یہ بات کہ جب ملک میں دین الملک جاری تھا ہی تو آخر حضرت یوسف کی اپنی ذات کے لیے اس پر عمل کرنا کیوں شایان شان نہ تھا ، تو یہ سوال بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ پر غور کرنے سے بآسانی حل ہوجاتا ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت کے ابتدائی دور میں جب تک قوانین اسلامی جاری نہ ہوئے تھے ، لوگ پرانے طریقے کے مطابق شراب پیتے رہے ، مگر کیا حضور نے بھی پی؟ لوگ سود لیتے دیتے تھے ، مگر کیا آپ نے بھی سودی لین دین کیا ؟ لوگ متعہ کرتے رہے اور جمع بین الاختین کرتے رہے ، مگر کیا حضور نے بھی ایسا کیا ؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ داعی اسلامی کا عملی مجبوریوں کی بنا پر احکام اسلامی کے اجراء میں تدریج سے کام لینا اور چیز ہے اور اس کا خود اس تدریج کے دور میں جاہلیت کے طریقوں پر عمل کرنا اور چیز ، تدریج کی رخصتیں دوسروں کے لیے ہیں ، داعی کا اپنا یہ کام نہیں ہے کہ خود ان طریقوں میں سے کسی پر عمل کرے جن کے مٹانے پر وہ مامور ہوا ہے ۔