Surah

Information

Surah # 12 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 53 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 1, 2, 3, 7, from Madina
قَالُوۡۤا اِنۡ يَّسۡرِقۡ فَقَدۡ سَرَقَ اَخٌ لَّهٗ مِنۡ قَبۡلُ‌ ۚ فَاَسَرَّهَا يُوۡسُفُ فِىۡ نَفۡسِهٖ وَلَمۡ يُبۡدِهَا لَهُمۡ‌ ۚ قَالَ اَنۡـتُمۡ شَرٌّ مَّكَانًا ‌ۚ وَاللّٰهُ اَعۡلَمُ بِمَا تَصِفُوۡنَ‏ ﴿77﴾
انہوں نے کہا اگر اس نے چوری کی ( تو کوئی تعجب کی بات نہیں ) اس کا بھائی بھی پہلے چوری کر چکا ہے یوسف ( علیہ السلام ) نے اس بات کو اپنے دل میں رکھ لیا اور ان کے سامنے بالکل ظاہر نہ کیا ۔ کہا کہ تم بدتر جگہ میں ہو اور جو تم بیان کرتے ہو اسے اللہ ہی خوب جانتا ہے ۔
قالوا ان يسرق فقد سرق اخ له من قبل فاسرها يوسف في نفسه و لم يبدها لهم قال انتم شر مكانا و الله اعلم بما تصفون
They said, "If he steals - a brother of his has stolen before." But Joseph kept it within himself and did not reveal it to them. He said, "You are worse in position, and Allah is most knowing of what you describe."
Enhon ney kaha kay agar iss ney chori ki ( to koi tajjub ki baat nahi ) iss ka bhai bhi pehlay chori ker chuka hai yousuf ( alh-e-salam ) ney iss baat ko apney dil mein rakh liya aur inn kay samney bilkul zahir na kiya. Kaha kay tum bad tar jagah mein ho aur jo tum biyan kertay ho ussay Allah hi khoob janta hai.
۔ ( بہرحال ) وہ بھائی بولے کہ : اگر اس ( بنیامین ) نے چوری کی ہے تو ( کچھ تعجب نہیں ، کیونکہ ) اس کا ایک بھائی اس سے پہلے بھی چوری کرچکا ہے ۔ ( ٥١ ) اس پر یوسف نے ان پر ظاہر کیے بغیر چپکے سے ( دل میں ) کہا کہ : تم تو اس معاملے میں کہیں زیادہ برے ہو ۔ ( ٥٢ ) اور جو بیان تم دے رہے ہو ، اللہ اس کی حقیقت خوب جانتا ہے ۔
بھائی بولے اگر یہ چوری کرے ( ف۱۷۹ ) تو بیشک اس سے پہلے اس کا بھائی چوری کرچکا ہے ( ف۱۸۰ ) تو یوسف نے یہ بات اپنے دل میں رکھی اور ان پر ظاہر نہ کی ، جی میں کہا تم بدتر جگہ ہو ( ف۱۸۱ ) اور اللہ خوب جانتا ہے جو باتیں بناتے ہو ،
ان بھائیوں نے کہا یہ چوری کرے تو کچھ تعجّب کی بات نہیں ، اس سے پہلے اس کا بھائی ﴿یوسف ( علیہ السلام ) ﴾ بھی چوری کر چکا ہے ۔ 61 یوسف ( علیہ السلام ) ان کی یہ بات سن کر پی گیا ، حقیقت ان پر نہ کھولی ، بس ﴿زیرِ لب﴾ اتنا کہہ کر رہ گیا کہ بڑے ہی برے ہو تم لوگ ، ﴿میرے منہ در منہ مجھ پر﴾ جو الزام تم لگا رہے ہو اس کی حقیقت خدا خوب جانتا ہے ۔
انہوں نے کہا: اگر اس نے چوری کی ہے ( تو کوئی تعجب نہیں ) بیشک اس کا بھائی ( یوسف ) بھی اس سے پہلے چوری کر چکا ہے ، سو یوسف ( علیہ السلام ) نے یہ بات اپنے دل میں ( چھپائی ) رکھی اور اسے ان پر ظاہر نہ کیا ، ( دل میں ہی ) کہا: تمہارا حال نہایت برا ہے ، اور اﷲ خوب جانتا ہے جو کچھ تم بیان کر رہے ہو
٦۱ ۔ یہ انہوں نے اپنی خفت مٹانے کے لیے کہا ، پہلے کہہ چکے تھے کہ ہم لوگ چور نہیں ہیں ، اب جو دیکھا کہ مال ہمارے بھائی کی خرجی سے برآمد ہوگیا ہے تو فورا ایک جھوٹی بات بنا کر اپنے آپ کو اس بھائی سے الگ کر لیا اور اس کے ساتھ اس پہلے بھائی کو بھی لپیٹ لیا ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت یوسف کے پیچھے بن یمین کے ساتھ ان بھائیوں کا کیا سلوک رہا ہوگا اور کس بنا پر اس کی اور حضرت یوسف کی یہ خواہش ہوگی کہ وہ ان کے ساتھ نہ جائے ۔
بھائی کے شلیتے میں سے جام کا نکلنا دیکھ کر بات بنا دی کہ دیکھو اس نے چوری کی تھی اور یہی کیا اس کے بھائی یوسف نے بہی ایک مرتبہ اس سے پہلے چوری کر لی تھی ۔ وہ واقعہ یہ تھا کہ اپنے نانا کا بت چپکے سے اٹھا لائے تھے اور اسے توڑ دیا تھا ۔ یہ بھی مروی ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی ایک بڑی بہن تھیں ، جن کے پاس اپنے والد اسحاق علیہ السلام کا ایک کمر پٹہ تھا جو خاندان کے بڑے آدمی کے پاس رہا کرتا تھا ۔ حضرت یوسف علیہ السلام پیدا ہوتے ہی اپنی ان پھوپھی صاحبہ کی پرورش میں تھے ۔ انہیں حضرت یوسف علیہ السلام سے کمال درجے کی محبت تھی ۔ جب آپ کچھ بڑے ہو گئے تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے آپ کو لے جانا چاہا ۔ بہن صاحبہ سے درخواست کی ۔ لیکن بہن نے جدائی و ناقابل برداشت بیان کر کے انکار کر دیا ۔ ادھر آپ کے والد صاحب حضرت یعقوب علیہ السلام کے شوق کی بھی انتہا نہ تھی ، سر ہو گئے ۔ آخر بہن صاحبہ نے فرمایا اچھا کچھ دنوں رہنے دو پھر لے جانا ۔ اسی اثنا میں ایک دن انہوں نے وہی کمر پٹہ حضرت یوسف علیہ السلام کے کپڑوں کے نیچے چھپا دیا ، پھر تلاش شروع کی ۔ گھر بھر چھان مارا ، نہ ملا ، شور مچا ، آخر یہ ٹھری کہ گھر میں جو ہیں ، ان کی تلاشیاں لی جائیں ۔ تلاشیاں لی گئیں ۔ کسی کے پاس ہو تو نکلے آخر حضرت یوسف علیہ السلام کی تلاشی لی گئی ، ان کے پاس سے برآمد ہوا ۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کو خبر دی گئی ۔ اور ملت ابراہیمی کے قانون کے مطابق آپ اپنی پھوپھی کی تحویل میں کر دئے گئے ۔ اور پھوپھی نے اس طرح اپنے شوق کو پورا کیا ۔ انتقال کے وقت تک حضرت یوسف علیہ السلام کو نہ چھوڑا ۔ اسی بات کا طعنہ آج بھائی دے رہے ہیں ۔ جس کے جواب میں حضرت یوسف علیہ السلام نے چپکے سے اپنے دل میں کہا کہ تم بڑے خانہ خراب لوگ ہو اس کے بھائی کی چوری کا حال اللہ خوب جانتا ہے ۔