Surah

Information

Surah # 12 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 53 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 1, 2, 3, 7, from Madina
قَالُوۡا يٰۤاَيُّهَا الۡعَزِيۡزُ اِنَّ لَهٗۤ اَبًا شَيۡخًا كَبِيۡرًا فَخُذۡ اَحَدَنَا مَكَانَهٗۚ اِنَّا نَرٰٮكَ مِنَ الۡمُحۡسِنِيۡنَ‏ ﴿78﴾
انہوں نے کہا اے عزیز مصر! اس کے والد بہت بڑی عمر کے بالکل بوڑھے شخص ہیں آپ اس کے بدلے ہم میں سے کسی کو لے لیجئے ، ہم دیکھتے ہیں کہ آپ بڑے نیک نفس ہیں ۔
قالوا يايها العزيز ان له ابا شيخا كبيرا فخذ احدنا مكانه انا نرىك من المحسنين
They said, "O 'Azeez, indeed he has a father [who is] an old man, so take one of us in place of him. Indeed, we see you as a doer of good."
Enhon ney kaha aey aziz-e-misir! Iss kay walid boht bari umar kay bilkul boorhay shaks hain. Aap iss kay badlay hum mein say kissi ko ley lijiye. Hum dekhtay hain kay aap baray nek nafs hain.
۔ ( اب ) وہ کہنے لگے کہ : اے عزیز ! اس کا ایک بہت بوڑھا باپ ہے ، اس لیے اس کی جگہ ہم میں سے کسی کو اپنے پاس رکھ لیجیے ، ہم آپ کو ان لوگوں میں سے سمجھتے ہیں جو احسان کیا کرتے ہیں ۔
بولے اے عزیز! اس کے ایک باپ ہیں بوڑھے بڑے ( ف۱۸۲ ) تو ہم میں اس کی جگہ کسی کو لے لو ، بیشک ہم تمہارے احسان دیکھ رہے ہیں ،
انہوں نے کہا اے سردار ذی اقتدار﴿عزیز﴾ 62 ، اس کا باپ بہت بوڑھا آدمی ہے ، اس کی جگہ آپ ہم میں سے کسی کو رکھ لیجیے ، ہم آپ کو بڑا ہی نیک نفس انسان پاتے ہیں ۔
وہ بولے: اے عزیزِ مصر! اس کے والد بڑے معمر بزرگ ہیں ، آپ اس کی جگہ ہم میں سے کسی کو پکڑ لیں ، بیشک ہم آپ کو احسان کرنے والوں میں پاتے ہیں
٦۲ ۔ یہاں لفظ عزیز حضرت یوسف کے لیے جو استعمال ہوا ہے صرف اس کی بنا پر مفسرین نے قیاس کرلیا کہ حضرت یوسف اسی منصب پر مامور ہوئے تھے جس پر اس سے پہلے زلیخا کا شوہر مامور تھا پھر اس پر مزید قیاسات کی عمارت کھڑی کرلی گئی کہ سابق عزیز مرگیا تھا ، حضرت یوسف اس کی جگہ مقرر کیے گئے ، زلیخا ازسر نو معجزے کے ذریعہ سے جوان کی گئی ، اور شاہ مصر نے اس سے حضرت یوسف کا نکاح کردیا ۔ حد یہ ہے کہ شب عروسی میں حضرت یوسف اور زلیخا کے درمیان جو باتیں ہوئیں وہ تک کسی ذریعہ سے ہمارے مفسرین کو پہنچ گئیں ۔ حالانکہ یہ سب باتیں سراسر وہم ہیں ، لفظ عزیز کے متعلق ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ یہ مصر میں کسی خاص منصب کا نام نہ تھا بلکہ محض صاحب اقتدار کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے ۔ غالبا مصر میں بڑے لوگوں کے لیے اس طرح کا کوئی لفظ اصطلاحا رائج تھا جیسے ہمارے ملک میں لفظ سرکار بولا جاتا ہے ، اسی کا ترجمہ قرآن میں عزیز کیا گیا ہے ۔ رہا زلیخا سے حضرت یوسف کا نکاح ، تو اس افسانے کی بنیاد صڑف یہ ہے کہ بائیبل اور تلمود میں فوطیفرع کی بیٹی آسناتھ سے ان کے نکاح کی روایت بیان کی گئی ہے ۔ اور زلیخا کے شوہر کا نام فوطیفار تھا ، یہ چیزیں اسرائیلی روایات سے نقل در نقل ہوتی ہوئی مفسرین تک پہنچیں اور جیسا کہ زبانی افواہوں کا قاعدہ ہے ، فوطیفرع بآسانی فوطیفار بن گیا ، بیٹی کی جگہ بیوی کو مل گئی اور بیوی لا محالہ زلیخا ہی تھی ، لہذا اس سے حضرت یوسف کا نکاح کرنے کے لیے فوطیفار کو مار دیا گیا ، اور اس طرح یوسف زلیخا کی تصنیف مکمل ہوگئی ۔
جب بنیامین کے پاس سے شاہی مال برآمد ہوا اور ان کے اپنے اقرار کے مطابق وہ شاہی قیدی ٹھر چکے تو اب انہیں رنج ہونے لگا ۔ عزیز مصر کو پرچانے لگے اور اسے رحم دلانے کے لئے کہا کہ ان کے والد ان کے بڑے ہی دلدادہ ہیں ۔ ضعیف اور بوڑھے شخض ہیں ۔ ان کا ایک سگا بھائی پہلے ہی گم ہو چکا ہے ۔ جس کے صدمے سے وہ پہلے ہی سے چور ہیں اب جو یہ سنیں گے تو ڈر ہے کہ زندہ نہ بچ سکیں ۔ آپ ہم میں سے کسی کو ان کے قائم مقام اپنے پاس رکھ لیں اور اسے چھوڑ دیں آپ بڑے محسن ہیں ، اتنی عرض ہماری قبول فرما لیں ۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے جواب دیا کہ بھلا یہ سنگدلی اور ظلم کیسے ہو سکتا ہے کہ کرے کوئی بھرے کوئی ۔ چور کو روکا جائے گا نہ کہ شاہ کو ناکردہ گناہ کو سزا دینا اور گنہگار کو چھور دینا یہ تو صریح ناانصافی اور بدسلوکی ہے ۔