Surah

Information

Surah # 12 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 53 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 1, 2, 3, 7, from Madina
قَالَ مَعَاذَ اللّٰهِ اَنۡ نَّاۡخُذَ اِلَّا مَنۡ وَّجَدۡنَا مَتَاعَنَا عِنۡدَهٗۤ ۙ اِنَّاۤ اِذًا لَّظٰلِمُوۡنَ‏ ﴿79﴾
یوسف ( علیہ السلام ) نے کہ ہم نے جس کے پاس اپنی چیز پائی ہے اس کے سوا دوسرے کی گرفتاری کرنے سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں ، ایسا کرنے سے تو ہم یقیناً نا انصافی کرنے والے ہوجائیں گے ۔
قال معاذ الله ان ناخذ الا من وجدنا متاعنا عنده انا اذا لظلمون
He said, "[I seek] the refuge of Allah [to prevent] that we take except him with whom we found our possession. Indeed, we would then be unjust."
Yousuf ( alh-e-salam ) ney kaha hum ney jiss kay pass apni cheez paee hai uss kay siwa doosray ki giriftari kerney say Allah ki panah chahatay hain aisa kerney say to hum yaqeenan na insafi kerney walay hojayen gay.
یوسف نے کہا : اس ( ناانصافی ) سے میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ جس شخص کے پاس سے ہماری چیز ملی ہے ، اس کو چھوڑ کر کسی اور کو پکڑ لیں ۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو یقینی طور پر ہم ظالم ہوں گے ۔
کہا ( ف۱۸۳ ) خدا کی پناہ کہ ہم میں مگر اسی کو جس کے پاس ہمارا مال ملا ( ف۱۸٤ ) جب تو ہم ظالم ہوں گے ،
یوسف ( علیہ السلام ) نے کہا پناہِ خدا ، دوسرے کسی شخص کو ہم کیسے رکھ سکتے ہیں ، جس کے پاس ہم نے اپنا مال پایا ہے 63 اس کو چھوڑ کر دوسرے کو رکھیں گے تو ہم ظالم ہوں گے ۔ ؏ ۹
یوسف ( علیہ السلام ) نے کہا: اﷲ کی پناہ کہ ہم نے جس کے پاس اپنا سامان پایا اس کے سوا کسی ( اور ) کو پکڑ لیں تب تو ہم ظالموں میں سے ہو جائیں گے
٦۳ ۔ احتیاط ملاحظہ ہو کہ چور نہیں کہتے بلکہ صرف یہ کہتے ہیں کہ جس کے پاس ہم نے اپنا مال مایا ہے اسی کو اصطلاح شرع میں توریہ کہتے ہیں ، یعنی حقیقت پر پردہ ڈالنا ، یا امر واقعہ کو چھپانا ، جب کسی مظلوم کو ظالم سے بچانے یا کسی بڑے مظملہ کو دفع کرنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہ ہو کہ کچھ خلاف واقعہ بات کہی جائے یا کوئی خلاف حقیقت حیلہ کیا جائے ، تو ایسی صورت میں ایک پرہیزگار آدمی صریح جھوٹ بولنے سے احتراز کرتے ہوئے ایسی بات کہنے یا ایسی تدبیر کرنے کی کوشش کرے گا ، جس سے حقیقت کو چھپا کر بدی کو دفع کیا جاسکے ۔ ایسا کرنا شرع و اخلاق میں جائز ہے بشرطیکہ محض کام نکالنے کے لیے ایسا نہ کیا جائے بلکہ کسی بڑی برائی کو دور کرنا ہو ، اب دیکھیے کہ اس سارے معاملہ میں حضرت یوسف نے کس طرح جائز توریہ کی شرائط پوری کی ہیں ۔ بھائی کی رضا مندی سے اس کے سامان میں پیالہ رکھ دیا مگر ملازموں سے یہ نہیں کہ کہ اس پر چوری کا الزام لگاؤ ، پھر جب سرکاری ملازم چوری کے الزام میں ان لوگوں کو پکڑ لاءےتو خاموشی کے ساتھ اٹھ کر تلاشی لے لی ، پھر اب جو ان بھائیوں نے کہا کہ بن یمین کی جگہ ہم میں سے کسی کو رکھ لیجیے ، تو اس کے جواب میں بھی بس انہی کی بات ان پر الٹ دی کہ تمہارا اپنا فتویٰ یہ تھا کہ جس کے سامان میں سے تمہارا مال نکلے وہی رکھ لیا جائے ، سو اب تمہارے سامنے بن یمین کے سامان میں سے ہمارا مال نکلا ہے اور اسی کو ہم رکھ لیتے ہیں ، دوسرے کو اس کی جگہ کیسے رکھ سکتے ہیں؟ اس قسم کے توریہ کی مثالیں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں بھی ملتی ہیں اور کسی دلیل سے بھی اس کو اخلاقا معیوب نہیں کہا جاسکتا ۔