Surah

Information

Surah # 12 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 53 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 1, 2, 3, 7, from Madina
قَالَ بَلۡ سَوَّلَتۡ لَـكُمۡ اَنۡفُسُكُمۡ اَمۡرًا‌ؕ فَصَبۡرٌ جَمِيۡلٌ‌ؕ عَسَى اللّٰهُ اَنۡ يَّاۡتِيَنِىۡ بِهِمۡ جَمِيۡعًا‌ؕ اِنَّهٗ هُوَ الۡعَلِيۡمُ الۡحَكِيۡمُ‏ ﴿83﴾
۔ ( یعقوب علیہ السلام نے ) کہا یہ تو نہیں بلکہ تم نے اپنی طرف سے بات بنا لی ، پس اب صبر ہی بہتر ہے قریب ہے کہ اللہ تعالٰی ان سب کو میرے پاس ہی پہنچا دے وہی علم و حکمت والا ہے ۔
قال بل سولت لكم انفسكم امرا فصبر جميل عسى الله ان ياتيني بهم جميعا انه هو العليم الحكيم
[Jacob] said, "Rather, your souls have enticed you to something, so patience is most fitting. Perhaps Allah will bring them to me all together. Indeed it is He who is the Knowing, the Wise."
( Yaqoob alh-e-salam ney ) kaha yeh to nahi bulkay tum ney apni taraf say baat bana li pus abb sabar hi behtar hai. Qarib hai kay Allah Taalaa inn sab ko meray pass hi phoncha dey. Wohi ilm-o-hikmat wala hai.
۔ ( چنانچہ یہ بھائی یعقوب ( علیہ السلام ) کے پاس گئے ، اور ان سے وہی بات کہی جو بڑے بھائی نے سکھائی تھی ) یعقوب نے ( یہ سن کر ) کہا : نہیں ، بلکہ تمہارے دلوں نے اپنی طرف سے ایک بات بنا لی ہے ۔ ( ٥٣ ) اب تو میرے لیے صبر ہی بہتر ہے ، کچھ بعید نہیں کہ اللہ میرے پاس ان سب کو لے آئے ۔ بیشک اس کا علم بھی کامل ہے ، حکمت بھی کامل ۔
کہا ( ف۱۹۱ ) تمہارے نفس نے تمہیں کچھ حیلہ بنادیا ، تو اچھا صبر ہے ، قریب ہے کہ اللہ ان سب کو مجھ سے لا ، ملائے ( ف۱۹۲ ) بیشک وہی علم و حکمت والا ہے ،
باپ نے یہ داستان سن کر کہا دراصل تمہارے نفس نے تمہارے لیے ایک اور بڑی بات کو سہل بنا دیا ۔ 64 اچھا ، اس پر بھی صبر کروں گا اور بخوبی کروں گا ۔ کیا بعید ہے کہ اللہ ان سب کو مجھ سے لا ملائے ، وہ سب کچھ جانتا ہے اور اس کے سب کام حکمت پر مبنی ہیں ۔
یعقوب ( علیہ السلام ) نے فرمایا: ( ایسا نہیں ) بلکہ تمہارے نفسوں نے یہ بات تمہارے لئے مرغوب بنا دی ہے ، اب صبر ( ہی ) اچھا ہے ، قریب ہے کہ اﷲ ان سب کو میرے پاس لے آئے ، بیشک وہ بڑا علم والا بڑی حکمت والا ہے
٦٤ ۔ یعنی تمہارے نزدیک یہ باور کرلینا بہت آسان ہے کہ میرا بیٹا جس کے حسن سیرت سے میں خوب واقف ہوں ایک پیالے کی چوری کا مرتکب ہوسکتا ہے ۔ پہلے تمہارے لیے اپنے ایک بھائی کو جان بوجھ کر گم کردینا اور اس کے قمیص پر جھوٹا خون لگا کر لے آنا بہت آسان کام ہوگیا تھا ۔ اب ایک دوسرے بھائی کو واقعی چور مان لینا اور مجھے آکر اس کی خبر دینا بھی ویسا ہی آسان ہوگیا ۔
بھائیوں کی زبانی یہ خبر سن کر حضرت یعقوب علیہ السلام نے وہی فرمایا جو اس سے پہلے اس وقت فرمایا تھا جب انہوں نے پیراہن یوسف خون آلود پیش کر کے اپنی گھڑی ہوئی کہانی سنائی تھی کہ صبر ہی بہتر ہے ۔ آپ سمجھے کہ اسی کی طرح یہ بات بھی ان کی اپنی بنائی ہوئی ہے بیٹوں سے یہ فرما کر اب اپنی امید ظاہر کی جو اللہ سے تھی کہ بہت ممکن ہے کہ بہت جلد اللہ تعالیٰ میرے تینوں بچوں کو مجھ سے ملا دے یعنی حضرت یوسف علیہ السلام کو بنیامین کو اور آپ کے بڑے صاحبزادے روبیل کو جو مصر میں ٹھر گئے تھے اس امید پر کہ اگر موقعہ لگ جائے تو بنیامین کو خفیہ طور نکال لے جائیں یا ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ خود حکم دے اور یہ اس کی رضامندی کے ساتھ واپس لوٹیں ۔ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ علیم ہے میری حالت کو خوب جان رہا ہے ۔ حکیم ہے اس کی قضا وقدر اور اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا ۔ اب آپ کے اس نئے رنج نے پرانا رنج بھی تازہ کر دیا اور حضرت یوسف کی یاد دل میں چٹکیاں لینے لگی ۔ حضرت سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں انا للہ الخ پڑھنے کی ہدایات صرف اسی امت کو کی گئی ہے اس نعمت سے اگلی امتیں مع اپنے نبیوں کے محروم تھیں ۔ دیکھئے حضرت یعقوب علیہ السلام بھی ایسے موقعہ پر آیت ( يٰٓاَسَفٰى عَلٰي يُوْسُفَ وَابْيَضَّتْ عَيْنٰهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِيْمٌ 84؀ ) 12- یوسف:84 ) کہتے ہیں ۔ آپ کی آنکھیں جاتی رہی تھیں ۔ غم نے آپ کو نابینا کر دیا تھا اور زبان خاموش تھی ۔ مخلوق میں سے کسی شکایت وشکوہ نہیں کرتے تھے ۔ غمگین اور اندوہ گین رہا کرتے تھے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے جناب باری میں عرض کی کہ لوگ تجھ سے یہ کہہ کر دعا مانگتے ہیں کہ اے ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب کے رب ، تو تو ایسا کر کہ ان تین ناموں میں چوتھا نام میرا بھی شامل ہو جائے ۔ جواب ملا کہ اے داؤد حضرت ابراہیم علیہ السلام آگ میں ڈالے گئے اور صبر کیا ۔ تیری آزائش ابھی ایسی نہیں ہوئی ۔ اسحاق علیہ السلام نے خود اپنی قربانی منظور کر لی اور اپنا گلا کٹوانے بیٹھ گئے ۔ تجھ پر یہ بات بھی نہیں آئی ۔ یعقوب علیہ السلام سے میں نے ان کے لخت جگر کو الگ کر دیا اس نے بھی صبر کیا تیرے ساتھ یہ واقعہ بھی نہیں ہوا یہ روایت مرسل ہے اور اس میں نکارت بھی ہے اس میں بیان ہوا ہے کہ ذبیح اللہ حضرت اسحاق علیہ السلام تھے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام تھے ۔ اس روایت کے راوی علی بن زید بن جدعان اکثر منکر اور غریب روایتیں بیان کر دیا کرتے ہیں ۔ واللہ اعلم ۔ بہت ممکن ہے کہ احنف بن قیس رحمۃ اللہ علیہ نے یہ روایت بنی اسرائیل سے لی ہو ، جیسے کعب وہب وغیرہ ۔ واللہ اعلم ۔ بنی اسرائیل کی ورایتوں میں یہ بھی ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے حضرت یوسف کو اس موقعہ پر جب کہ بنیامین قید میں تھے ۔ ایک خط لکھا تھا جس میں انہیں رحم دلانے کے لئے لکھا تھا کہ ہم مصیبت زدہ لوگ ہیں ۔ میرے دادا حضرت ابراہیم آگ میں ڈالے گئے ۔ میرے والد حضرت اسحاق علیہ السلام ذبح کے ساتھ آزمائے گئے ۔ میں خود فراق یوسف میں مبتلا ہوں ۔ لیکن یہ روایت بھی سندا ثابت نہیں ۔ بچوں نے باپ کا یہ حال دیکھ کر انہیں سمجھانا شروع کیا کہ ابا جی آپ تو اسی کی یاد میں اپنے آپ کو گھلا دیں گے بلکہ ہمیں تو ڈر ہے کہ اگر آپ کا یہی حال کچھ دنوں اور رہا تو کہیں زندگی سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں ۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے انہیں جواب دیا کہ میں تم سے تو کچھ نہیں کہہ رہا میں تو اپنے رب کے پاس اپنا دکھ رو رہا ہوں ۔ اور اس کی ذات سے بہت امید رکھتا ہوں وہ بھلائیوں والا ہے ۔ مجھے یوسف کا خواب یاد ہے ، جس کی تعبیر ظاہر ہو کر رہے گی ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے ایک مخلص دوست نے ایک مرتبہ آپ سے پوچھا کہ آپ کی بینائی کیسے جاتی رہی ؟ اور آپ کی کمر کیسے کبڑی ہو گئی ؟ آپ نے فرمایا یوسف کو رو رو کر آنکھیں کھو بیھٹا اور بنیامین کے صدمے نے کمر توڑ دی ۔ اسی وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور فرمایا اللہ تعالیٰ آپ کو سلام کے بعد کہتا ہے کہ میری شکایتیں دوسروں کے سامنے کرنے سے آپ شرماتے نہیں ؟ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اسی وقت فرمایا کہ میری پریشانی اور غم کی شکایت اللہ ہی کے سامنے ہے ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا آپ کی شکایت کا اللہ کو خوب علم ہے ۔ یہ حدیث بھی غریب ہے اور اس میں بھی نکارت ہے ۔