Surah

Information

Surah # 12 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 53 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 1, 2, 3, 7, from Madina
يٰبَنِىَّ اذۡهَبُوۡا فَتَحَسَّسُوۡا مِنۡ يُّوۡسُفَ وَاَخِيۡهِ وَلَا تَايۡــَٔسُوۡا مِنۡ رَّوۡحِ اللّٰهِ‌ؕ اِنَّهٗ لَا يَايۡــَٔسُ مِنۡ رَّوۡحِ اللّٰهِ اِلَّا الۡقَوۡمُ الۡكٰفِرُوۡنَ‏ ﴿87﴾
میرے پیارے بچو! تم جاؤ اور یوسف ( علیہ السلام ) کی اور اس کے بھائی کی پوری طرح تلاش کرو اور اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو ۔ یقیناً رب کی رحمت سے نا امید وہی ہوتے ہیں جو کافر ہوتے ہیں ۔
يبني اذهبوا فتحسسوا من يوسف و اخيه و لا تايسوا من روح الله انه لا يايس من روح الله الا القوم الكفرون
O my sons, go and find out about Joseph and his brother and despair not of relief from Allah . Indeed, no one despairs of relief from Allah except the disbelieving people."
Meray piyaray bacho! Tum jao aur yousuf ( alh-e-salam ) ki aur uss kay bhai ki poori talash kero aur Allah ki rehmat say na umeed na ho. Yaqeenan rab ki rehmat say na umeed wohi hotay hain jo kafir hotay hain.
میرے بیٹو ! جاؤ ، اور یوسف اور اس کے بھائی کا کچھ سراغ لگاؤ ، اور اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو ۔ یقین جانو ، اللہ کی رحمت سے وہی لوگ نا امید ہوتے ہیں جو کافر ہیں ۔ ( ٥٤ )
اے بیٹو! جاؤ یوسف اور اس کے بھائی کا سراغ لگاؤ اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو ، بیشک اللہ کی رحمت سے ناامید نہیں ہوتے مگر کافر لوگ ( ف۱۹۸ )
میرے بچو ، جاکر یوسف اور اس کے بھائی کی کچھ ٹوہ لگاؤ ، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو ، اس کی رحمت سے تو بس کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں ۔
اے میرے بیٹو! جاؤ ( کہیں سے ) یوسف ( علیہ السلام ) اور اس کے بھائی کی خبر لے آؤ اور اﷲ کی رحمت سے مایوس نہ ہو ، بیشک اﷲ کی رحمت سے صرف وہی لوگ مایوس ہوتے ہیں جو کافر ہیں
حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹوں کو حکم فرما رہے ہیں کہ تم ادھر ادھر جاؤ اور حضرت یوسف اور بنیامین کی تلاش کرو ۔ عربی میں تحسس کا لفظ بھلائی کی جستجو کے لئے بولا جاتا ہے اور برائی کی ٹٹول کے لئے تجسس کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ ساتھ میں فرماتے ہیں کہ اللہ کی ذات سے مایوس نہ ہونا چاہیے اس کی رحمت سے مایوس وہی ہوتے ہیں جن کے دلوں میں کفر ہوتا ہے ۔ تم تلاش بند نہ کرو ، اللہ سے نیک امید رکھو اور اپنی کوشش جاری رکھو ۔ چنانچہ یہ لوگ چلے ، پھر مصر پہنچے ، حضرت یوسف کے دربار میں حاضر ہوئے ، وہاں اپنی خستہ حالی ظاہر کی کہ قحط سالی نے ہمارے خاندان کو ستا رکھا ہے ، ہمارے پاس کچھ نہیں رہا ، جس سے غلہ خریدتے اب ردی ، واہی ، ناقص ، بیکار ، کھوٹی اور قیمت نہ بننے والی کچھ یونہی سی رکھی رکھائی چیزیں لے کر آپ کے پاس آئے ہیں گویہ بدلہ نہیں کہا جا سکتا نہ قیمت بنتی ہے لیکن تاہم ہماری خواہش ہے کہ آپ ہمیں وہی دیجئے جو سچی صحیح اور پوری قیمت پر دیا کرتے ہیں ۔ ہمارے بوجھ بھر دیجئے ، ہماری خورجیاں پر کر دیجئے ، ابن مسعود کی قرأت میں ( فَاَوْفِ لَنَا الْكَيْلَ وَتَصَدَّقْ عَلَيْنَا ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَجْزِي الْمُتَصَدِّقِيْنَ 88؀ ) 12- یوسف:88 ) کے بدلے فاوقرر کا بنا ہے یعنی ہمارے اونٹ غلے سے لاد دیجئے ۔ اور ہم پر صدقہ کیجئے ہمارے بھائی کو رہائی دیجئے ، یا یہ مطلب ہے کہ یہ غلہ ہمیں ہمارے اس مال کے بدلے نہیں بلکہ بطور خیرات دیجئے ۔ حضرت سفیان بن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوتا ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی کسی نبی پر صدقہ حرام ہوا ہے ؟ تو آپ نے یہی آیت پڑھ کر استدلال کیا کہ نہیں ہوا ۔ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا کہ کیا کسی شخص کا اپنی دعا میں یہ کہنا مکروہ ہے کہ یا اللہ مجھ پر صدقہ کر ۔ فرمایا ہاں اس لئے کہ صدقہ وہ کرتا ہے جو طالب ثواب ہو ۔