Surah

Information

Surah # 12 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 53 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 1, 2, 3, 7, from Madina
وَكَاَيِّنۡ مِّنۡ اٰيَةٍ فِى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ يَمُرُّوۡنَ عَلَيۡهَا وَهُمۡ عَنۡهَا مُعۡرِضُوۡنَ‏ ﴿105﴾
آسمانوں اور زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں جن سے یہ منہ موڑے گزر جاتے ہیں ۔
و كاين من اية في السموت و الارض يمرون عليها و هم عنها معرضون
And how many a sign within the heavens and earth do they pass over while they, therefrom, are turning away.
Aasmanon aur zamin mein bhot si nishaniyan hain. Jin say yeh mun moray guzr rahey jatay hain.
اور آسمانوں اور زمین میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر ان کا گذر ہوتا رہتا ہے ، مگر یہ ان سے منہ موڑ جاتے ہیں ۔
اور کتنی نشانیاں ہیں ( ف۲۲۹ ) آسمانوں اور زمین میں کہ اکثر لوگ ان پر گزرتے ہیں ( ف۲۳۰ ) اور ان سے بےخبر رہتے ہیں ،
زمین 74 اور آسمانوں میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر سے یہ لوگ گزرتے ہیں اور ذرا توجّہ نہیں کرتے ۔ 75
اور آسمانوں اور زمین میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر ان لوگوں کا گزر ہوتا رہتا ہے اور وہ ان سے صرفِ نظر کئے ہوئے ہیں
۷٤ ۔ اوپرے کے گیارہ رکوعوں میں حضرت یوسف کا قصہ ختم ہوگیا ، اگر وحی الہی کا مقصد محض قصہ گوئی ہوتا تو اسی جگہ تقریر ختم ہوجانی چاہیے تھی ، مگر یہاں تو قصہ کسی مقصد کی خاطر کہا جاتا ہے ، اور اس مقصد کی تبلیغ کے لیے جو موقع بھی مل جائے اس سے فائدہ اٹھانے میں دریغ نہیں کیا جاتا ، اب چونکہ لوگوں نے خود نبی کو بلایا تھا اور قصہ سننے کے لیے کان متوجہ تھے اس لیے ان کے مطلب کی بات ختم کرتے ہی چند جملے اپنے مطلب کے بھی کہہ دیے گئے اور غایت درجہ اختصار کے ساتھ ان چند جملوں ہی میں نصیحت اور دعوت کا سارا مضمون سمیٹ دیا گیا ۔ ۷۵ ۔ اس سے مقصد لوگوں کو ان کی غفلت پر متنبہ کرنا ہے ، زمین اور آسمان کی ہر چیز بجائے خود محض ایک چیز ہی نہیں ہے بلکہ ایک نشانی بھی ہے جو حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہے ، جو لوگ ان چیزوں کو محض چیز ہونے کی حیثیت سے دیکھتے ہیں ، وہ انسان کا سا دیکھنا نہیں بلکہ جانوروں کا سا دیکھنا دیکھتے ہیں ، درخت کو درخت اور پہاڑ کو پہاڑ اور پانی کو پانی تو جانور بھی دیکھتا ہے اور اپنی اپنی ضرورت کے لحاظ سے ہر جانور ان چیزوں کا مصرف بھی جانتا ہے ، مگر جس مقصد کے لیے انسان کو حواس کے ساتھ سوچنے والا دماغ بھی دیا گیا ہے ، وہ صرف اسی حد تک نہیں ہے کہ آدمی ان چیزوں کو دیکھے اور ان کا مصرف اور استعمال معلوم کرے ، بلکہ اصل مقصد یہ ہے کہ آدمی حقیقت کی جستجو کرے اور ان نشانیوں کے ذریعہ سے اس کا سراغ لگائے ، اسی معاملہ میں اکثر انسان غفلت برت رہے ہیں ، اور یہی غفلت ہے جس نے ان کو گمراہی میں ڈال رکھا ہے ، اگر دلوں پر یہ قفل نہ چڑھ لیا گیا ہوتا تو انبیاء کی بات سمجھنا اور ان کی رہنمائی سے فائدہ اٹھانا لوگوں کے لیے اس قدر مشکل نہ ہوجاتا ۔
بیان ہو رہا ہے قدرت کی بہت سی نشانیاں ، وحدانیت کی بہت سے گواہیاں ، دن رات ان کے سامنے ہیں ، پھر بھی اکثر لوگ نہایت بےپرواہی اور سبک سری سے ان میں کبھی غور وفکر نہیں کرتے ۔ کیا یہ اتنا وسیع آسمان ، کیا یہ اس قدر پھیلی ہوئی ، زمین ، کیا یہ روشن ستارے یہ گردش والا سورج ، چاند ، یہ درخت اور یہ پہاڑ ، یہ کھیتیاں اور سبزیاں ، یہ تلاطم برپا کرنے والے سمندر ، یہ بزور چلنے والی ہوائیں ، یہ مختلف قسم کے رنگا رنگ میوے ، یہ الگ الگ غلے اور قدرت کی بیشمار نشانیاں ایک عقل مند کو اس قدر بھی کام نہیں آ سکتیں ؟ کہ وہ ان سے اپنے اللہ کی جو احد ہے ، صمد ہے ، فرد ہے ، واحد ہے ، لا شریک ہے ، قادر و قیوم ہے ، باقی اور کافی ہے اس ذات کو پہچان لیں اور اس کے ناموں اور صفتوں کے قائل ہو جائیں؟ بلکہ ان میں سے اکثریت کی ذہنیت تو یہاں تک بگڑ چکی ہے کہ اللہ پر ایمان ہے پھر شرک سے دست برداری نہیں ۔ آسمان وزمین پہاڑ اور درخت کا انسان اور دن کا خالق اللہ مانتے ہیں ۔ لیکن پھر بھی اس کے سوا دوسروں کو اس کے ساتھ اس کا شریک ٹھراتے ہیں ۔ یہ مشرکین حج کو آتے ہیں ، احرام باندھ کر لبیک پکارتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ تیرا کوئی شریک ہیں ، جو بھی شریک ہیں ، ان کا خود کا مالک بھی تو ہے اور ان کی ملکیت کا مالک بھی تو ہی ہے ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ جب وہ اتنا کہتے ہیں کہ ہم حاضر ہیں الہٰی تیرا کوئی شریک نہیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے بس بس ، یعنی اب آگے کچھ نہ کہو ۔ فی الواقع شرک ظلم عظیم ہے کہ اللہ کے ساتھ دوسرے کی بھی عبادت ۔ بخاری ومسلم میں ہے ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ سب سے بڑا گناہ کیا ہے ؟ آپ نے جواب دیا کہ تیرا اللہ کے ساتھ شریک ٹھرانا حالانکہ اسی اکیلے نے تجھے پیدا کیا ہے ۔ اسی طرح اسی آیت کے تحت میں منافقین بھی داخل ہیں ۔ ان کے عمل اخلاص والے نہیں ہوتے بلکہ وہ ریا کار ہوتے ہیں اور ریا کاری بھی شرک ہے ۔ قرآن کا فرمان ہے آیت ( اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَھُوَ خَادِعُھُمْ ۚ وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰى ۙ يُرَاۗءُوْنَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِيْلًا ١٤٢؁ۡۙ ) 4- النسآء:142 ) ، منافق اللہ کو دھوکا دینا چاہتے ہیں حالانکہ اللہ کی طرف سے خود دھوکے میں ہیں ۔ یہ نماز کو بڑے ہی سست ہو کر کھڑے ہوتے ہیں ، صرف لوگوں کو دکھانا مقصود ہوتا ہے ذکر اللہ تو برائے نام ہوتا ہے ۔ یہ بھی یاد رہے کہ بعض شرک بہت ہلکے اور پوشیدہ ہوتے ہیں خود کرنے والے کو بھی پتہ نہیں چلتا ۔ چنانچہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ ایک بیمار کے پاس گئے ، اس کے بازو پر ایک دھاگا بندھا ہوا دیکھ کر آپ نے اسے توڑ دیا اور یہی آیت پڑھی کہ ایماندار ہوتے ہوئے بھی مشرک بنتے ہو ؟ حدیث شریف میں ہے اللہ کے سوا دوسرے کے نام کی جس نے قسم کھائی وہ مشرک ہو گیا ۔ ملاحظہ ہو ترمذی شریف ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جھاڑ پھونک ڈورے دھاگے اور جھوٹے تعویذ شرک ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو توکل کے باعث سب سختیوں سے دور کر دیتا ہے ۔ ( ابو داؤد وغیرہ ) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی بیوی صاحبہ فرماتی ہیں کہ حضرت عبداللہ کی عادت تھی ، جب کبھی باہر سے آتے زور سے کھنکھارتے ، تھوکتے کہ گھر والے سمجھ جائیں اور آپ انہیں کسی ایس حالت میں نہ دیکھ پائیں کہ برا لگے ۔ ایک دن اسی طرح آپ آئے اس وقت میرے پاس ایک بڑھیا تھی جو بوجہ بیماری کے مجھ پر دم جھاڑ کرنے کو آئی تھی میں نے آپ کی کھنکھار کی آواز سنتے ہی اسے چار پائی تلے چھپا دیا آپ آئے میرے پاس میری چار پائی پر بیٹھ گئے اور میرے گلے میں دھاگا دیکھ کر پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ میں نے کہا اس میں دم کرا کے میں نے باندھ لیا ہے . آپ نے اسے پکڑ کر توڑ دیا اور فرمایا عبداللہ کا گھر شرک سے بےنیاز ہے ۔ خود میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جھاڑ پھونک تعویدات اور ڈورے دھاگے شرک ہیں ۔ میں نے کہا یہ آپ کیسے فرماتے ہیں میری آنکھ دکھ رہی تھی ، میں فلاں یہودی کے پاس جایا کرتی تھی ، وہ دم جھارا کر دیتا تھا تو سکون ہو جاتا تھا ، آپ نے فرمایا تیری آنکھ میں شیطان چوکا مارا کرتا تھا اور اس کی پھونک سے وہ رک جاتا تھا تجھے یہ کافی تھا کہ وہ کہتی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا ہے دعا ( اذھب الباس رب الناس اشف وانت الشاف لا شفاء الا شفاوک شفاء لا یغدر سقما ) ( مسند احمد ) مسند احمد کی اور حدیث میں عیسیٰ بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ عبداللہ بن حکیم بیمار پڑے ۔ ہم ان کی عیادت کے لئے گئے ، ان سے کہا گیا کہ آپ کوئی ڈورا دھاگا لٹکا لیں تو اچھا ہو آپ نے فرمایا میں ڈورا دھاگا لٹکاؤں ؟ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے جو شخص جو چیز لٹکائے وہ اسی کے حوالہ کر دیا جاتا ہے ۔ مسند میں ہے جو شخص کوئی ڈورا دھاگا لٹکائے اس نے شرک کیا ۔ ایک روایت میں ہے جو شخص ایسی کوئی چیز لٹکائے ، اللہ اس کا کام پورا نہ کرے اور جو شخص اسے لٹکائے اللہ اسے لٹکا ہوا ہی رکھے . ایک حدیث قدسی میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں تمام شریکوں سے زیادہ بےنیاز اور بےپرواہ ہوں جو شخص اپنے کسی کام میں میرا کوئی شریک ٹھرائے میں اسے اور اس کے شریک کو چھوڑ دیتا ہوں ۔ ( مسلم ) مسنند میں ہے قیامت کے دن جب کہ اول آخر سب جمع ہوں گے ، اللہ کی طرف سے ایک منادی ندا کرے گا کہ جس نے اپنے عمل میں شرک کیا ہے ، وہ اس کا ثواب اپنے شریک سے طلب کر لے ، اللہ تعالیٰ تمام شرکاء سے بڑھ کر شرک سے بےنیاز ہے ۔ مسند میں ہے آپ فرماتے ہیں مجھے تم پر سب سے زیادہ ڈر چھوٹے شرک کا ہے ، لوگوں نے پوچھا وہ کیا ہے ؟ فرمایا ریا کاری ، قیامت کے دن لوگوں کو جزائے اعمال دی جائے گی ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے ریا کرو تم جاؤ اور جن کے دکھانے سنانے کے لئے تم نے عمل کئے تھے ، انہیں سے اپنا اجر طلب کرو اور دیکھو کہ وہ دیتے ہیں یا نہیں ؟ مسند میں ہے آپ فرماتے ہیں جو شخص کوئی بد شگونی لے کر اپنے کام سے لوٹ جائے وہ مشرک ہو گیا ۔ صحابہ علیہ السلام نے دریافت کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم پھر اس کا کفارہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ کہنا دعا ( اللہم لا خیر الا خیرک ولا طیر الا طیرک ولا الہ غیرک ) یعنی اے اللہ سب بھلائیاں سب نیک شگون تیرے ہی ہاتھ میں ہیں ، تیرے سوا کوئی بھلائیوں اور نیک شگونیوں والا نہیں ۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا کہ لوگو شرک سے بچو وہ تو چیونٹی کی چال سے زیادہ پوشیدہ چیز ہے ، اس پر حضرت عبداللہ بن حرب اور حضرت قیس بن مصابب کھڑے ہو گئے اور کہا یا تو آپ اس کی دلیل پیش کیجئے یا ہم جائیں اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آپ کی شکایت کریں ۔ آپ نے فرمایا لو دلیل لو ۔ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن خطبہ سنایا اور فرمایا لوگو ! شرک سے بچو وہ تو چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ پوشیدہ ہے پس کسی نے آپ سے پوچھا کہ پھر اس سے بچاؤ کیسے ہو سکتا ہے ؟ فرمایا یہ دعا پڑھا کرو دعا ( اللہم انا نعوذ بک ان نشرک بک شیئا تعلمہ ونستغفرک مما لا نعلم ) ایک اور روایت میں ہے کہ یہ سوال کرنے والے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے ۔ آپ نے پوچھا تھا کہ یا رسول اللہ شرک تو یہی ہے کہ اللہ کے ساتھ دوسرے کو پکارا جائے ۔ اس حدیث میں دعا کے الفاظ یہ ہیں آیت ( اللہم انی اعوذ بک ان اشرک بک وانا اعلم واستغفرک مما لا اعلم ( مسند ابو یعلی ) ابو داؤد وغیرہ میں ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسی دعا سکھائیے جسے میں صبح شام اور سوتے وقت پڑھا کروں تو آپ نے فرمایا یہ دعا پڑھ دعا ( اللہم فاطر السموت والارض عالم الغیب الشہادۃ رب کل شئی وملیکہ اشہد ان لا الہ الا انت اعوذ بک من شر نفسی ومن شر الشیطان وشر کہ ) ایک روایت میں ہے کہ مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا پڑھنی سکھائی اس کے آخر میں یہ الفاظ بھی ہیں دعا ( وان اقترف علی نفسی سوا او اجرہ الی مسلم ۔ ) فرمان ہے کہ کیا ان مشرکوں کو اس بات کا خوف نہیں ہے کہ اگر اللہ کو منظور ہو تو چاروں طرف سے عذاب الہٰی انہیں اس طرح آ گھیرے کہ انہیں پتہ بھی نہ چلے ۔ جیسے ارشاد ہے آیت ( اَفَاَمِنَ الَّذِيْنَ مَكَرُوا السَّيِّاٰتِ اَنْ يَّخْسِفَ اللّٰهُ بِهِمُ الْاَرْضَ اَوْ يَاْتِيَهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُوْنَ 45؀ۙ ) 16- النحل:45 ) یعنی مکاریاں اور برائیاں کرنے والے کیا اس بات سے نڈر ہو گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں زمین میں دھنسا دے یا ایسی جگہ سے عذاب لا دے کہ انہیں شعور بھی نہ ہو یا انہیں لیٹتے بیٹھتے ہی پکڑ لے یا ہوشیار کر کے تھام لے ۔ اللہ کسی بات میں عاجز نہیں ، یہ تو صرف اس کی رحمت و رافت ہے کہ گنا کریں اور پھلیں پھولیں ۔ فرمان اللہ ہے کہ بستیوں کے گنہگار اس بات سے بےخطرے ہو گئے ہیں کہ ان کے پاس راتوں کو ان کے سوتے ہوئے ہی عذاب آ جائیں یا دن دھاڑے بلکہ ہنستے کھیلتے ہوئے عذاب آ دھمکیں اللہ کے مکر سے بےخوف نہ ہونا چاہئے ایسے لوگ سخت نقصان اٹھاتے ہیں ۔